ڈبلیو ایل پائن نے Agriculture , Liberalisation and Economic Growth in Ghana and Cote D'Ivoire 1960-1990 میں گھانا اور آئیوری کوسٹ کے صدور کی 1960 میں لگائی گئی ایک شرط کا ذکر کیا ہے جس میں انہوں نے یہ عہد کیا کہ دیکھئے، کون زیادہ اورتیز رفتاری سے ترقی کرتا ہے۔ دونوں ممالک نے اسی سال آزادی کا ’’لڈو‘‘ کھایا تھا۔ گھانا قدرتی وسائل سے مالا مال مگر سوشلسٹ جب کہ آئیوری کوسٹ آزاد معیشت مگر گھانا کے مقابلے میں قدرتی وسائل سے محروم تھا ، 1982 میں جب دونوں ملکوں کی ترقی کا موازنہ کیا گیا تو آئیوری کوسٹ کے کم آمدنی والے طبقے کی آمدنی بھی گھانا کے متوسط طبقے سے 20گنا زیادہ تھی لیکن پھر آئیوری کوسٹ کے طاقتور طبقات میں ملک کو ترقی دینے کے لیے ’’نئےاوراچھوتے آئیڈیاز‘‘پر عمل کا رجحان بڑھا جس میں معیشت سرفہرست رہی ، گھانا نے معیشت پر حکومتی کنٹرول کو کم کیا جس کے باعث آئیوری کوسٹ پیچھے رہ گیا اور گھانا آگے نکل گیا۔
2013 ءکے انتخابات کے بعدوطنِ عزیز میں جب تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کی وفاق اور صوبوں میں حکومتیں قائم ہوئیں تو راقم الحروف نے اپنے کالموں میں یہ گزارش کی تھی کہ تینوں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے کارکردگی دکھانے کی شرط لگا لیں اور اگلے انتخابات میں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر جائیں مگر بدقسمتی سے دھرنا سیاست شروع کر دی گئی مگراس کے باوجود مرکزی حکومت کی پالیسیوں کے سبب پاکستان تیز رفتاری سےترقی کرنے والی دنیا کی20 بڑی معیشتوں میں اپنی جگہ بنانے کی جانب رواں دواں تھا مگر پھر ایک’’اچھوتے آئیڈیا ‘‘ کے تحت بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے الزام میں جولائی 2017میں جمہوریت و معیشت پر ایسی کاری ضرب لگائی گئی کہ اس کے بعد ان دونوں کے ساتھ جو ہوا سو ہوا اور اب دنیا کی بیس بڑی معیشتوں میں جگہ بنانے کی طرف بڑھنے والا ملک شدید معاشی عدم استحکام کا شکار ہے اور بدقسمتی کی انتہا یہ ہے کہ اب بھی ان معاملات کو سیاست کی قربان گاہ میں قربان کرنے سے اجتناب نہیں کیا جا رہا، عمران خان اور ان کے حامی یہ بات پوری شدومد سے بیان کر رہے ہیں اوروہ درحقیقت یہ کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان کو کوئی دوسرا ملک معاشی طور پر سہارا نہ دے۔
وزیراعظم شہباز شریف کے قطر کے دورے سے قبل بھی یہی پروپیگنڈہ جاری تھا حالانکہ قطر پاکستان کا دیرینہ دوست ہے اور تعلقات میں کمی بھی اس وقت آئی جب جان بوجھ کر قطر سے کئے گئے ایل این جی معاہدے کو ناکام بنایا گیا اور سونے پر سہاگہ یہ کہ پہلے قطر کی جانب سے تعلیم پر منعقدہ سیمینار میں سابق وزیراعظم عمران خان نے تقریر کرنے کا وعدہ کیا مگر آخری لمحے پر تقریر کرنے سے انکار کر دیا ۔ فطری طور پر قطر کو اس سے صدمہ پہنچا اور تعلقات کی گرمجوشی پر فرق پڑا ۔ ورنہ میں پہلے بھی یہ عرض کر چکا ہوں کہ قطر پاکستان کو ایک خاص اہمیت دیتا ہے اور یہ بھی ذکر کیا تھا کہ وہ فٹ بال ورلڈ کپ کے لیے سکیورٹی معاہدہ کرنے کے لیے پہلی ترجیح پاکستان ہی کو دے رہا ہے کیوں کہ وہ وطنِ عزیز کے علاوہ کسی اور ملک کی فورسز پر اس حوالے سے اعتماد نہیں کر سکتا۔
قطر اور پاکستان کے درمیان جس اعتماد کو ٹھیس گزشتہ حکومت نے پہنچائی تھی، اس خلیج کو پاٹنے کے لیے اسی شخص نے کلیدی کردار ادا کیا ہے جس کا ایک ہی ’’جرم‘‘خوردبین لگا کر تلاش کیا گیا تھا کہ اس نے اپنے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی تھی۔ قطر بھی بری طرح سے یہ محسوس کر رہا تھا کہ دونوں ملکوں میں جس نوعیت کے تعلقات ہونے چاہئیں، وہ نہیں ہیں۔ اس صورتِ حال کا تدارک کرنے کی غرض سے پاکستان میں قطر کے سفیر شیخ سعود الثانی نے بھی متحرک کردار ادا کیا ۔ پھر شہباز شریف کی انتھک محنت کا اعتراف ایک دنیا کرتی ہے ان تین وجوہات کے سبب سے قطر میں پاکستان کو زبردست سفارتی و معاشی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک ان اقدامات کو بروقت نتیجے تک پہنچانے کے لیے غیر معمولی اقدامات کریں ۔ قطر کی حالیہ کامیابیوں کو ایک تجربے کے طور پر سامنے رکھنا چاہئے کیونکہ امریکہ اور ایران دوبارہ معاہدے کے قریب ہیں جس کے باعث اسرائیل کی چیخیں بھی بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں ۔ اگر ایسا ہوگیا جس کا بہت زیادہ امکان ہے تو پاکستان کو توانائی کے بحران سے نمٹنے سے لیکر معاشی استحکام تک اس صورتحال سے کیسے فائدہ اٹھانا ہے اور عالمِ عرب میں بھی اپنی حیثیت کو کیسے برقرار رکھنا ہے، یہ بہت بڑا چیلنج بس آیا ہی چاہتا ہے، اس چیلنج سے عہدہ برا ہونے کے لئے ابھی سے ایک مربوط اور جامع حکمتِ عملی تیار کرنے کے لیے تیاریاں کرنے کی ضرورت ہے اور اس حکمتِ عملی کو دفترِ خارجہ کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ بابوؤں کے حوالے نہیں کیا جا سکتا ورنہ ہم شرط ہار جائیں گے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)