• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا دورہ امریکہ کامیاب رہا یا نہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے، جو تجزیہ کاروں اور کالم نگاروں کو طبع آزمائی کرنے کا ایک بہترین موقع فراہم کررہا ہے۔ بعض لوگ اس سوال کا جواب معروضی حقائق کی روشنی میں تلاش کریں گے اور بعض لوگ مجبوری میں اس دورے کو کامیاب قرار دینے کیلئے دلائل درآمد کریں گے۔ آخر مجبوری بھی برحق ہے۔
پاکستان اور امریکہ کی چھ عشروں سے زائد عرصے پر محیط دوستی کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ امریکی خود کو خسارے میں تصور کرتے ہیں جبکہ پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ وہ نقصان میں رہا ہے۔ جس رشتے میں دونوں طرف احساس زیاں پایا جاتا ہو ، اس رشتے میں خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ایسا رشتہ صرف اور صرف فریقین کی لالچ اور غرض پر قائم رہتا ہے اور جو زیادہ غرض مند ہوتا ہے، وہ زیادہ خسارے میں رہتا ہے۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان سے لے کر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف تک پاکستان کو جتنے بھی سربراہان حکومت یا کچھ سربراہان مملکت نے امریکہ کے دورے کئے ،ان کی کامیابی کا پیمانہ صرف یہ مقررکیا گیا کہ امریکہ سے کتنی امداد ملی ۔دیگر تمام معاملات میں امریکہ نے پاکستان کو مایوس کیا۔ امداد بھی امریکہ نے تب دی جب اسے پاکستان سے کوئی کام لینا تھا لہٰذا وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے دورے کی سب سے اہم پیشرفت یہ ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے کانگریس سے پاکستان کی معطل شدہ 30 کروڑ ڈالر کی امداد جاری کرنے کی باضابطہ درخواست کردی ہے، اللہ اللہ خیر صلّا، باقی معاملات کو نہ کریدا جائے تو بہتر ہے۔
اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد میں ہونے والے آپریشن اور سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملے کے بعد پاکستان کے احتجاج کی وجہ سے امریکہ بہادر ناراض ہوگیا تھا اور اس نے پاکستان کی 30 کروڑ ڈالر کی فوجی امداد معطل کردی تھی تاہم 857 ملین ڈالر کی سویلین امداد جاری رکھی گئی تھی۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان میری ہاف نے کہا ہے کہ فوجی امداد کی بحالی سے پاکستان کی سیکورٹی فورسز کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا، جو مغربی سرحد پر واقع علاقوں میں تشدد کے خاتمے کے لئے ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایبٹ آباد آپریشن اور سلالہ کے واقعے پر ’’مٹی پاؤ‘‘ کی مفاہمتی پالیسی پر عمل کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کے دورہ امریکہ میں ان ایشوز پر ویسے بھی کوئی بات نہیں کی گئی یا کم از کم امریکی حکام کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے یہ بات میڈیا میں سامنے نہیں آئی۔ دوسری طرف ہمارے ان اخراجات کا بھی تخمینہ لگایا جائے جو معطل شدہ امداد کے دوبارہ اجراء پر ہوئے۔ اس کے لئے پاکستان نے لابنگ بھی کی ہو گی۔ امریکہ میں لابنگ کا کام بہت مہنگا اور وہاں موجود تیسری دنیا کے سفارت کاروں کے لئے انتہائی پرکشش ہے ۔ وزیر اعظم کے دورہ امریکہ کے اخراجات بھی ہوئے ہوں گے ۔ ہر سربراہ حکومت یا سربراہ مملکت کے ساتھ دوروں میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کا ان دوروں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ لابنگ اور وزیر اعظم کے دورے کے کل اخراجات منہا کرکے باقی جو امداد ملے گی اس سے پاکستان کی مغربی سرحدوں پر دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کے لئے پاکستان کی سیکورٹی فورسز کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا جائے گا۔ یہ دہشت گرد کون ہیں اور کس کے مقاصد کو پورا کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب دینے میں بقول شخصے ’’تاریخ خاموش ہے‘‘ ویسے جتنی امداد امریکہ سے پاکستان کو ملتی ہے اس سے کہیں زیادہ آج کل غیر سرکاری سماجی تنظیموں کو امریکہ کی طرف سے ’’پبلک ڈپلومیسی اور سماجی ترقی‘‘ کے نام پر دی جاتی ہے۔
امریکیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے جتنی امداد پاکستان کو دی اس حساب سے پاکستان نے امریکہ کے کام نہیں کئے۔ امریکیوں کے نزدیک حساب برابر نہیں ہوا جبکہ پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ اس نے جتنی امریکہ سے امداد لی اس سے دس گنا زیادہ اس کا معاشی نقصان ہوا۔ اس لئے پاکستان حساب برابر کرنے تک ’’دوستانہ‘‘ تعلقات کو پہلے سے زیادہ اہمیت دینے لگا ہے۔ حساب کتاب کے سلسلے میں ایک پاکستانی کی شہریت سے ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے حقیقی حکمرانوں کی مدد کریں تاکہ وہ اگر کچھ بھول رہے ہوں تو انہیں یاد آجائے ۔ سویلین شعبے میں ہونے والے نقصانات کا حساب لگانا تو شاید ممکن نہ ہو کیونکہ امریکہ کے ساتھ دوستی کی وجہ سے پاکستان تہذیبی بحران کا شکار ہوچکا ہے۔ جہاں تک دفاعی شعبے کے نقصانات کا تعلق ہے، اس کا حساب کتاب لگانے کے لئے چند پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ پاکستان نے کمیونزم کا راستہ روکنے کے لئے امریکہ کو اپنی خدمات پیش کی تھیں تاکہ امریکہ سے امداد حاصل کی جاسکے ۔پاکستان کی افواج کو امریکہ کی ضرورتوں کے مطابق تشکیل دیا۔ پاکستان سیٹو اور سینٹو کا رکن بنا اور اس کی افواج کا حجم اس کی آبادی کے تناسب اور معیشت کے حجم سے کہیں زیادہ تھا۔ دنیا کی چھٹی بڑی فوج کے اخراجات پاکستان کو برداشت کرنا پڑے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ کو اس فوج کی ضرورت ختم ہوگئی۔ اس کے بعد افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف مذہبی انتہا پسند گروہوں کی امریکہ نے کئی افواج بنائیں اور انہیں فرنٹ پر رکھا ۔ امریکی دفاعی امداد کا رخ ان غیر سرکاری افواج کی طرف موڑ دیا گیا ۔ بعد ازاں ان انتہا پسند جنگجو گروہوں کی ظاہری امداد سے امریکہ نے ہاتھ کھینچ لیا اور اپنے مخالفین کی صورت میں ان کی پرورش کی۔ خطے میں منصوبہ بندی کے تحت پیدا کردہ بدامنی کے ساتھ مخصوص مفاد پیدا کردیا گیا تاکہ یہ جنگجو گروہ باقی رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کے خفیہ اداروں کی ایک پوری فوج پاکستان میں کام کررہی ہے۔ پاکستان کو مغربی اور مشرقی دونوں سرحدوں پر الجھا دیا گیا۔ داخلی بدامنی اس کے علاوہ ہے۔ انتہا پسند جنگجو گروہ، دہشت گرد تنظیمیں، امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے خفیہ ادارے اور ان اداروں کے پاکستانی کارندے سب پاکستانی معیشت کی رگوں سے خون نچوڑ رہے ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کیلئےنہ صرف پاکستانی افواج بلکہ نیم فوجی اورسویلین سیکورٹی اداروں کےاخراجات میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ کوئی حساب کرتا ہے تو کر لے۔ ہو سکتاہےکہ پاکستان کےکچھ افراد اور گروہ فائدے میں رہے ہوں، پاکستان مجموعی طور پر خسارے میں ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کے ’’کامیاب‘‘ دورہ امریکہ کےاثرات سامنے آنا ابھی باقی ہیں کیونکہ ہمارا امریکہ سے ’’حاکم محبت اور محکوم محبت‘‘ والا رشتہ ہے۔
تازہ ترین