ہمارے ملک کی ڈوبتی معیشت کو سہارا دینے کیلئے آئی ایم ایف کے قرضے کاپیکیج بالآخر منظور ہو گیا ہے تو ساتھ ہی سیلاب نے تباہی مچا دی ہے۔ کہا جا رہاہے کہ شدید بارشوں نے سابقہ کئی سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے جس کے نقصانات کا تخمینہ اربوں روپے لگایا جا رہا ہے۔ پورے ملک میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ بارشی پانی کو کنٹرول کرنے یا محفوظ بنانے کا اہتمام کیوں نہیں کیا جا سکا ؟جس شخص کی پچھلے ساڑھے تین برسوں سے یہاں ایک صفحے والی حکومت تھی اور جو ایک کروڑ نوکریوں، پچاس لاکھ گھروں کے ساتھ سینکڑوں ڈیمز بنانے کا منشور لے کر ایوان اقتدار میں متمکن ہوا تھا ،آج مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے یہ کہہ رہا ہے کہ ہم نے اگر ڈیمز بنائے ہوتے تو سیلابی پانی سے نقصان کی بجائے ترقی ہوتی ۔چناں چہ یہ سوال کیا جانا چاہئے تھا کہ آپ کو اپنے وعدے کے مطابق ساڑھے تین سو ڈیمز تعمیر کرنے سے کس نے روکے رکھا تھا؟
آپ کے پارٹی عہدیداران اور چہیتے وزراء سے متعلق اس نوع کی اطلاعات آ رہی ہیں کہ انہوں نے کروڑوں کی رشوت لے کر دریائوں کے کنارے پر تعمیرات کرنے کی اجازت دی جو سیلاب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال ناقص میٹریل سے تعمیر کی گئی چند سڑکوں کے متعلق بھی بیان کی جا رہی ہے۔ کے پی میں وزیراعلیٰ کی مڈ میں رہائش گاہ کے قریب ڈیڑھ برس قبل بنائی گئی سڑک تو بہہ گئی ہے البتہ انگریز دور کی ایک صدی پرانی سڑکیں اور پل سیلاب کے باوجود جوں کے توں کھڑے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سوات کا سیلابی ریلا بلین ٹری سونامی کو بھی اپنے ساتھ بہا کرلے گیا ہے لہٰذا اب کوئی اس نوع کا اعتراض نہیں کر سکے گا کہ آپ کا بلین ٹری سونامی پروپیگنڈہ اورجھوٹ کا پلندہ تھا۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے حالیہ دورۂ سوات میں کہا ہے کہ کے پی میں دریائوں کے کنارے غیر قانونی ہوٹلز تعمیر کرنے کی اجازت دینے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ انہوں نے سیلاب زدگان کی مدد کیلئے عالمی برادری کی کوششوں کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ مشکل کی اس گھڑی میں عالمی سطح پر بہت اچھا رسپانس مل رہا ہے۔
اقوام متحدہ نے عالمی برادری سے فوری طور پر 160ملین ڈالرز (قریباً 35ارب روپے) بطور امداد دینے کی اپیل کی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے اقوام عالم کو فوری اقدامات کرنے کیلئے کہا ہے کیونکہ اس قدرتی آفات سے پاکستان کےانفراسٹرکچر کو خاصا نقصان پہنچا ہے اور ایک ہزار کے قریب افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں، لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیںجب کہ ہزاروں گھر او راسکول تباہ ہوئے ہیں۔ ملک کے 72اضلاع میں بیس لاکھ ایکڑ پر محیط فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔
اس سے قبل دنیائے مسیحیت کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے بھی عالمی برادری سے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں متاثرینِ سیلاب کی بھرپور مدد کی جائے ۔چین نے پاکستان میں سیلاب متاثرین کی مدد کیلئے تین ارب روپے،کینیڈا نے ایک ارب گیارہ کروڑ، آسٹریلیا نے 44کروڑ دینے کا اعلان کیا ہے ۔ امریکی سفارتخانے کے مطابق، پاکستان میں سیلاب زدگان کی مدد کے لئے امریکہ اس سے قبل 1.1ملین ڈالرز کی گرانٹ دے چکا ہے اور اب ریلیف فنڈ میں مزید تین کروڑ ڈالرز (6ارب 66کروڑ روپے) دیے جا رہے ہیں۔ یورپی یونین نے بھی 2.15ملین یورو کی امداد دی ہے۔
سیلاب کے ساتھ ہی ایک تکلیف دہ صورتحال اشیائے ضروریہ اوربالخصوص سبزیوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہے ۔بتایا جا رہا ہے کہ پیاز تین سو روپے اور ٹماٹر چار سو روپے فی کلو فرخت ہو رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں ان کی کمیابی مزید بڑھ جائے گی۔ اس پر وزیر خزانہ کا یہ کہنا ہے کہ ان حالات میں انڈیا سے تجارت کھولنا ضروری ہو گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ میں وزیر اعظم کے ساتھ اس سلسلے میں بات کروں گا۔ بتایا جا رہا ہے کہ یہی پیاز امرتسر میں 70روپے فی کلو پاکستانی روپوں میں دستیاب ہے ۔ ٹماٹر اور دیگر سبزیوں کے ریٹ بھی بہت مناسب ہیں ، ہم اگریہ سبزیاں افغانستان یا ایران سے بھی منگواتے ہیں تو ظاہر ہے لاگت بڑھ جائے گی۔
ملکی خارجہ پالیسی کھوکھلے نعروں، منافرت اور منفی پروپیگنڈے کی بجائے زمینی حقائق اور سچائیوں پر استوار ہونی چاہئے ۔سات دہائیوں پر محیط جھوٹا منفی پروپیگنڈہ کرتے ہوئے تمام تر منافرتیں پھیلا کر اور جنگیں لڑ کر ہم نے سوائے معاشی بدحالی کے اور کیا حاصل کی ہے ؟ ہمارے موجودہ آرمی چیف نے بھی کئی مواقع پر اس نوع کا اظہار خیال کیا ہے کہ ’’ہمیں ہمسایوں کے ساتھ تجارتی تعلقات بہتر بنانے چاہئیں،‘‘ آج کے دور میں ممالک نہیں خطے ترقی کرتے ہیں، ان کی یہ بات صائب ہے جس پر عمل کیا جانا چاہئے۔
دنیا میں کتنے ممالک ہیں جن کے سیاسی تعلقات مخالفت سے بڑھ کر دشمنی تک پہنچے ہیں۔ امریکا اورچین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ انڈیا اور چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ذرا ان ممالک کی تمام تر تلخیوں کے باوجود تجارتی و کاروباری ترقی تو ملاحظہ فرمائیں۔ ہوشربا درآمدات و برآمدات کے اعدادو شمار سامنے آئیں گے۔ اے اہلِ اقتدار خدا کیلئے اس غریب پاکستانی قوم کی حالتِ زار پر ترس کھائو۔ دشمنی، منافرت اور سازش کے نظریات پھیلانے سے باز آ جائو۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)