گزشتہ چند دہائیوں میں ، ہم نے عا لمی سطح پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں تیز ترین ترقی کا مشاہدہ کیا ہے۔تقریباً تمام سائنسی شعبوں میں نہ صرف پیش رفت ہوئی ہے بلکہ ان سے منسلک نئے شعبے بھی متعارف ہو ئے ہیں جن کی تیز ترین ترقی عالمی سطح پر ہم سب پر سماجی و اقتصادی دونوں طرح سے اثر انداز ہو رہی ہے ۔ حیاتیاتی علوم کا شعبہ ایک متنوع شعبہ ہے جس میں قابلِ ذکر پیش رفت ہو ئی ہے جن میں سے چند کا احاطہ آج اس مضمون میں کیا جائے گا، بڑھتی ہوئی عمرکے ساتھ، اعصابی انحطاط اور بیماریاں بھی تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ اس مسئلے کو فوری حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بزرگ طویل عرصے تک صحت مند زندگی گزار سکیں۔اس کے لئے یہ سمجھنا ضروری ہےکہ انسانی دماغ دراصل کس طرح کام کرتا ہے اور دماغ کے مختلف حصوں کی نشوونما کےلئےجینیاتی عوامل کو انسانی ذہانت میں تبدیلی، شخصیت کے خصائص میں بہتری اور مجرمانہ رحجانات پر قابو پانے کے لئے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے؟
آئیے پہلے اپنے ذہن کی کارکردگی کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔ہمارے دماغ میں لگ بھگ دس ارب عصبی خلیے ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک عصبی خلیہ تقریباً 8000دوسرے عصبی خلیوں سے رابطے میں ہوتا ہے، جدید تحقیق کے مطابق، ہمارا ذہن کائنات کی سب سے پیچیدہ تخلیق ہے۔ یہ جان کر آپ کو حیرت ہوگی کہ ہمارے اذہان میں آنے والے خیالات محض غیر مادی ’’تصور‘‘ نہیں ہوتے بلکہ ان کا مادی وجودبھی ہوتا ہے۔یہ مختلف سالموں پر مشتمل ہوتے ہیں جو دماغ میں محفوظ ہو جاتے ہیں۔ دماغ میں خیالات کہاں جمع ہوتے ہیں؟ اس باب میں کافی تحقیق کی گئی ہے لیکن سوچ کو ذخیرہ کرنے اور یاد کرنے کے درست طریقۂ کار کے بارے میں ابھی تک کوئی حتمی دریافت سامنے نہیں آئی۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران جامعہ کراچی میں واقع بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم میں مختلف تحقیقی کوششوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ خیالات کا ذخیرہ ان اشکال میں ہو تا ہے جو گلائکوپروٹینزسے بنتا ہے،منطقی عمل کو ان مختلف اشکال کے باہمی تعلق کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ دلچسپ دریافتیں ہمارے20سے زیادہ ا مر یکی (Patents) میں مجسم ہیں اور ان کی وجہ سے مرگی ، رعشے اور بھولنےکی بیماری کے علاج کے لئے ممکنہ ادویات دریافت ہورہی ہیں جن میں سے چند طبی جانچ کے مراحل میں ہیں۔
ان دریافتوں سے منسلک ایک اور شعبہ برقی چپس کا ہے جنہیں دماغ میں اعصابی خلیوں کے ساتھ منسلک کیا جا سکتا ہے، دماغ سے منسلک چپ کے ذریعے چپس اور اعصابی خلیوں کے درمیان ایک طرف اور دو طرف معلومات منتقلی کی جا سکتی ہیں۔ ایسے آلات جو اعصابی نظام کے ساتھ انٹرفیس کر سکیں، علاج کے کے لئے پہلے ہی تیار کئے جا چکے ہیں۔ مثال کے طور پر، رعشےکے مرض میں مبتلا مریضوں کے دماغ میں ایک ایسا آلہ لگایا جا سکتا ہے جو کپکپاہٹ کو کنٹرول اور بہتر بنانے کے لئے برقی لہریں بھیج سکتا ہے۔ فالج کے شکار افراد کو ہاتھ کی حرکت میں مدد کرنے کےلئے دماغ میں جراحی کے ذریعے لگائے جانے والی چپس بھی تیار ہو رہی ہیں۔ ریڑھ کی ہڈی کی شدید چوٹ والے مریض بھی یہ چپس استعمال کرکے بہتر طریقے سے چل پھر سکتے ہیں ۔ ایلون مسک نے برین۔کمپیوٹرانٹرفیس تیار کرنے کے لئے ایک ’’نیورالنک‘‘ نامی کمپنی بنائی ہے۔ اس طرح کے آلات انسانی دماغ میںلگائے جانے کے بعدمکمل طور پر مفلوج افراد کے خیالات کوحرکات میں تبدیل کرنے میں مدد دے سکیں گے، جیسا کہ ٹائپنگ، ہاتھوں سے اشارے، دستی کنٹرول وغیرہ۔
حیاتیات کا ایک اور شعبہ جو تیزی سے ترقی کر رہا ہے وہ جینیاتی ترمیم ہے ۔ یہ تکنیک کسی جاندار کے ڈی این اےکی ترتیب میں مخصوص تبدیلیاں کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ جینیاتی ترمیم کا استعمال پودوں کے جینیاتی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے لئے کیا جا سکتا ہے تاکہ پیداوار، بیماری اور خشک سالی کے خلاف مزاحمت کو بڑھایا جا سکے۔ انہیں محدود کامیابی کے ساتھ جینیاتی بیماریوں سے نمٹنے کےلئے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ نئے پودوں یا جانوروں کی انواع کو ارتقاء کے عمل کے ذریعے تیار ہونے میں ہزاروں سال لگتےہیں، لیکن اس ٹیکنالوجی کے ذریعے اب یہ ممکن ہے کہ لیبارٹری میں نئی نسل کواگر ہفتوں میں نہیں تو مہینوں میں، جینیاتی ترامیم کے ذریعے تیار کیا جاسکتا ہے ۔ اس دریافت سے زراعت اور مویشیوں کی نشو نما میں نئے افق کھل گئے ہیں۔ اس تیزی سے ارتقا پذیر ٹیکنالوجی کے اخلاقی اور سماجی مضمرات بہت زیادہ زیر بحث رہے ہیں کیونکہ یہ ٹیکنالوجی انسانی ذہانت کے ساتھ ساتھ شخصیات کو بھی بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ایک اور تیزی سے ترقی پذیر شعبہ 3Dچھپائی کا ہے۔ابتدا میں اسے پلاسٹک کی چھوٹی چیزوں کو بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا لیکن اب اسے ہر قسم کا مواد تیار کرنے کیلئے استعمال کیا جارہاہے حتیٰ کہ گھروں اور بڑی بڑی عمارتوں اور پلوں کی 3D چھپائی ، دھاتی اشیاء بشمول بندوقیں، کھانا (چاکلیٹ، پیزا وغیرہ)، موٹر گاڑیاں، ڈرون، اپنی پسند اور جسم کی مناسبت سے لباس ،بلکہ 3Dپرنٹر کو بھی چھاپا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ زندہ گُردے اور جگر کے حصوں کو بھی چھاپ کے بنایاجاسکتا ہے، اس کے لئے ایک ٹینک میں زندہ خلیات کو3Dپرنٹر کے ذریعے تہہ در تہہ درست شکل میں ا سپرے کیا جاتا ہے۔
گلوبل وارمنگ کی وجہ سےہمارے سیارے کو درپیش ایک بڑا مسئلہ زراعت اور پینے کے پانی کا ہے۔یہ انتہائی پریشانی کی بات ہے کہ پاکستان جیسے ممالک کے سب سے زیادہ متاثر ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ نینو ٹیکنالوجی کی آمد، نینو جھلیوں اور مختلف نینو موادکی دریافت عالمی پانی کی قلت کا مؤثر حل فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ نینو ٹیکنالوجی میں ایسے مواد کی تیاری اور مطالعہ شامل ہے جس کا حجم ایک ملی میٹر کا دس لاکھواں حصہ ہے۔ ا تنے چھوٹے حجم میں آنے کے بعد مختلف مواد عجیب نئی خصوصیات ظا ہر کرتے ہیں ، جو برقیات، منشیات اور منشیات کی ترسیل، توانائی،ماحول،سینسر، تشخیص ، کپڑا سازی اور دیگر شعبوں میں ان کا استعمال انتہائی کارآمد ثابت ہو رہا ہے۔ نینو ٹیکنالوجی میں پاکستان کا پہلا تحقیقی مرکز، لطیف ابراہیم جمال تحقیقی مرکز برائے نینو ٹیکنالوجی ، جامعہ کراچی کے بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی اور حیاتیاتی علوم کے اندر جناب عزیز لطیف جمال نے حسین ابراہیم جمال فاؤنڈیشن کے فراخدلانہ عطیے کے ذریعے قائم کیا ہے۔یہ ڈاکٹر پنجوانی مرکز برائے سالمیاتی طب و ادویاتی تحقیق کے تعاون سے مختلف نینو ادویات کی دریافت پر کام کر رہا ہے، جو ڈاکٹر پنجوانی فاؤنڈیشن کی فراخدلانہ گرانٹ کے ذریعے محترمہ نادرہ پنجوانی نے قائم کیا ہے۔ آئی سی سی بی ایس ایشیائی خطے میں ایک ممتاز تحقیقی مرکز ہےجسے یونیسکو کااعلیٰ کارکردگی کامرکز، ڈبلیو ایچ او کا اعلیٰ کارکردگی کامرکز، ورلڈ اکیڈمی آف سائنسزکااعلیٰ کارکردگی کامرکزاوراو آئی سی کے اعلیٰ کارکردگی کےمرکزکے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔
پاکستان کی جامعات کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی پر توجہ مرکوز کریں تاکہ ہمارے نوجوان جدید دنیا کےلئے تیار ہوسکیں۔