• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصنوعی تصورات کہیں کا نہیں چھوڑتے ۔ایک جنگل میں بندر کا ایک ٹولہ رہا کرتا تھا، جنگل میں پھلوں کی بہتات تھی سو ان کی زندگی مزے سے گزر رہی تھی ۔ شومئی قسمت وہاں پر ایک سائنس دان اپنی بیٹی سمیت تحقیق کی غرض سے آنکلا ۔ ایک مقام پر رہائش کی غرض سے خیمہ نصب کیا اور اپنی جستجوکے لئے روانہ ہو گیاجب کہ اس کی صاحبزادی اس عارضی رہائش کو قرینے سے سجانے لگی کہ نفاست اس جنگل میں بھی برقرار رہے۔ قالین،کرسی میز اور دیگر اشیا کو قرینے سے سجانے لگی اور ان کے ساتھ ساتھ انتہائی جاذبِ نظر مگر مصنوعی سیبوں کو بھی ایک ٹوکرے میں سجا کر رکھ دیا ۔ بندر یہ منظر درختوں پر چڑھے دیکھ رہے تھے ۔ انہوں نے ایسے سیب پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ منہ میں پانی آگیا مگر لڑکی کی موجودگی میں سیبوں پر ہلا بولنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی لیکن ایک بندر نے چھلانگ لگا ہی دی ۔ اس کے ہاتھ میں ایک سیب آ ہی گیا جو درحقیقت مصنوعی تھاکہ اتنی دیر میں اس لڑکی نے بندر کو بھگا دیا، سارا ٹولہ ہی بھاگ نکلا ۔جس بندر کے ہاتھ میں مصنوعی سیب لگا تھا، اس کو سب بندر ستائشی نظروں سے دیکھنے لگے اور وہ بندر پھولے نہیں سما رہا تھا ۔ دیگر بندروں نے اس سے درخواست کی کہ اس سیب کو صرف چھونے ہی دو مگر اس نے آنکھیں ماتھے پر رکھتے ہوئے صاف انکار کردیا اور ایک محفوظ مقام پر بیٹھ کر اس کو کھانے کی کوشش کرنے لگا۔ اب بھلا مصنوعی سیب کو کس طرح کھایا جاتا؟ چبانے کی کوشش کی تو منہ میں درد ہونے لگا ،پھینکنے کا سوچا مگر بندروں کی ستائشی نظروں نے ارادے پر عمل کرنے سے باز رکھا۔ ہاتھ میں پکڑے بیٹھا رہا کہ کوئی دوسرا بند نہ لے اُڑے، اسی وجہ سے نہ درختوں پر چڑھ سکا نہ پھل کھانے کا موقع ملا اور نہ ہی کسی دوسرے بندر نے پھل لا کر دئیے مگر تمام بندر جب اس کو حسد بھری نظروں سے دیکھتے تو وہ بھوک کو بھول کر مغرور نظروں سے ان کی طرف دیکھنے لگتا۔بھوک کی شدت نے اس کو ادھ موا کردیا مگر وہ مصنوعی سیب حاصل کرنے کی قابلیت سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہ ہوا ۔ بھوک کے باعث نیم بیہوش ہو گیا مگر سیب سے جان نہ چھڑائی یہاں تک کہ اس کی اپنی جان نکل گئی۔ وہ بندر جب مر گیا تو دوسرے بندر اس پر پتے ڈالنے لگے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک اور بندر اس مصنوعی سیب کو لے اڑا ہے اور ان کو دور سے دکھانے لگا ہے جب کہ باقی بندر اس کو ستائشی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔

ہمارا مسئلہ بھی کچھ مختلف نہیں کہ ہمارے ہاتھ میں بھی نظریات کے مصنوعی سیب آ گئے ہیں جو ہماری پالیسیوں پر بھی اثرانداز ہو رہے ہیں اور ہم ہیں کہ ان سے جان چھڑانے کی بجائے ان کے لئے جان دینے پر تیار ہیں ۔ وطنِ عزیز کے اردگرد برق رفتاری سے تزویراتی نوعیت کی تبدیلیوں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ امریکہ اور ایران جوہری معاہدے کی جانب بہت تیز رفتاری سے بڑھ رہے ہیں۔ اس صورتِ حال کے اثرات عرب ممالک کی پالیسیوں میں بھی ظاہر ہونے لگے ہیں۔

ہمارے ہاں مگراعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں سے بھی بات کر لی جائے تو اس خالصتاً سفارتی اور اقتصادی صورتحال کو جس سے گہرے تذویراتی اثرات مرتب ہوں گے،پر گفتگو کرتے ہوئے وہ ایسے اختلافات بھی بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں جو ناقابلِ اشاعت ہیں حالاں کہ ان کا اس سے کچھ لینا دینا ہی نہیں ہوتا۔ متحدہ عرب امارات نے ایران میں اپنا سفیر بھیجنے کا اعلان کر دیا ہے جب کہ باخبر حلقے یہ بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ سعودی عرب بھی ایران میں اپنا سفیر بھیجنے کے لئے سوچ بچار کر رہا ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ وہ بھی جلد ہی اس حوالے سے اعلان کر دے گا ۔ اس صورتِ حال کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، اس حوالے سے یہ پہلو طے شدہ ہے کہ ہم سمجھ داری سے اپنی حکمتِ عملی کو ترتیب دیں تو اقتصادی اور سماجی حوالے سے پاکستان کو اس سے بہت سےمفادات حاصل کرنے کا موقع ميسر آ جائے گا ۔ ایران کے حوالے سے یہ طے شدہ امر ہے کہ دنیا کی طرف اقتصادی طور پر بڑھنے کے لئے ایران کے پاس پاکستان کے علاوہ اور کوئی دوسرا مناسب راستہ موجود نہیں ۔

عراق میں یہ تصور پایا جاتاہے کہ ایران وہاں پر اپنا اثر و نفوذ قائم کرنا چاہتا ہے، اس سوچ کے باعث ہی عراق میں ایران کے قبولِ عام ہونے کی گنجائش کم ہے۔ پاکستان کا معاملہ زیادہ مختلف ہے کہ ہم اگرذمہ دارانہ طور پر معاملات حل کریں تو کوئی بھی ہم پر اپنا اثر قائم کر ہی نہیں سکتا ۔ ایران کی اس وقت شدید خواہش ہے کہ وہ گیس پائپ لائن منصوبے کو فوری طور پر عملی جامہ پہناےکیونکہ دنیا میں اس وقت انرجی استعمال کرنے والے بڑے ممالک جو ایرانی گیس پائپ لائن کے استعمال کی خواہش بھی رہتی ہے، چین اور بھارت ہیں۔ ایران تو اپنے حصہ کی گیس پائپ لائن تعمیر بھی کر چکا ہے مگر جیسا کہ ذکر کیا کہ ہم ایران کو ،سعودی عرب کو مخصوص پہلوؤں سے دیکھتے ہیں حالانکہ ان کو ایسے دیکھنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو بلاشبہ اس سے ہمارے معاملات خوش گوار نہیں ہیں لیکن ہم اگراس کی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر اس سے بات کریں گے تو اس کے لئے ہماری ضروریات کو ملحوظِ خاطر رکھنا مجبوری بن جائےگا اور اس کی توانائی کی شہ رگ اگروطنِ عزیز سے گزر رہی ہوگی تو معاملات طے کرنا اس کے لئے بھی ضروری ہو جائے گا جس کےلئے ضروری ہے کہ ہم مؤثر طور پر سفارت کاری کریں۔ لیکن ہم نے اگر تبدیل ہوتے ہوئے حالات کے تحت سفارت کاری نہ کی اور مصنوعی نظریات سے ہی چمٹے رہے تو بس بندر والی کہانی پیش نظر رکھئے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین