• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حمزہ شہباز شریف کے بارے میں عمومی تاثر تھا کہ وہ کمزور اعصاب کے مالک ہیں۔سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے ہیں،اس لئے مشکل حالات کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔اسٹیبلشمنٹ کے مسیحاؤں کا بھی ان کے بار ے میں یہی خیال تھا۔اسی لئے شہباز صاحب کی2018ءمیں گرفتاری کے بعد سب سے پہلے حمزہ شہباز کو گرفتار کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔مگر 2019ءسے لیکر 2021ءتک مسلسل دو سال انہوں نے جس طرح سے جیل کاٹی ،اس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔انہوں نے نیب کی تاریخ کے سب سے طویل 84دن کے ریمانڈ کا سامنا کیا۔یعنی تعزیراتِ پاکستان کی سب سے سخت دفعہ 302یعنی قتل کی ہے،جس کی سزا موت ہے۔ ا س میں بھی مگر ملزم کازیادہ سے زیادہ 14روزکا ریمانڈ لیا جاسکتا ہے۔حمزہ شہباز نیب کے وہ منفرد قیدی تھے،جنہوں نے تین ماہ مسلسل ریمانڈ کے ساتھ تقریباً دو سال جیل کاٹی۔جیل میں قید کے دوران اکثر عدالتوں میں ریمانڈ کی پیشیوں کے دوران حمزہ شہباز سے ملاقات ہوجاتی تو خاکسار نے کبھی ان کے اعصاب کو شکست پاتے نہیں دیکھا۔ہائیکورٹ سے ضمانت خارج ہوئی تو ماتھے پر کوئی شکن نہ تھی۔اللہ پر ایسا توکل تھا کہ معاملہ سپریم کورٹ سے ہوتا ہوا پھر ہائیکورٹ آگیا اور یوں دو سال کی طویل قید کے بعد حمزہ شہباز رہا ہوئے۔یہ وہ وقت تھا جب حمزہ شہبازکے ناقد بھی تسلیم کررہے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ کامنظور نظر ایسے جیل نہیں جاتا،کمزور اعصاب کا مالک دو سال خندہ پیشانی سے جیل نہیں کاٹتا۔یوں حمزہ شہباز کے بارے میں عمومی تاثر تبدیل ہوا۔

ویسے اگر ماضی میں جائیں تو 2000ءمیں جب پورا شریف خاندان ملک سے باہر چلا گیا تھا تو حمزہ شہباز پورے خاندان کے واحد گارنٹر کے طور پر پاکستان میں ٹھہرے تھے۔کچھ پتہ نہیں تھا کہ جنرل(ر) پرویز مشرف کیا سلوک کرتے ہیںمگر خاندان کےلئے ان کی قربانی تاریخ کا حصہ ہے۔چند ماہ قبل عثمان بزدار کے مستعفی ہونے کے بعد پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا قرعۂ فعال حمزہ شہباز کے حق میں نکلا۔مسلم لیگ ن میں حمزہ شہباز کو ضمنی انتخابات کا ماسٹر مائنڈ تصور کیا جاتا ہے۔ضمنی انتخابات میں ان کی فتوحات کی شرح90فیصد سے زیادہ ہے۔مگر بطور وزیراعلیٰ ضمنی انتخابات میں بدترین شکست نے ہی ان کی وزارت اعلیٰ ان سے چھین لی۔میاں شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو حمزہ شہباز سارے ضمنی انتخابات کی نگرانی خود کرتے تھے اور والد کو مشورے دیا کرتے تھے۔آج حمزہ شہباز صاحب کو سوچنا چاہئے کہ وہ کون سے عاقبت نااندیش مشیر تھے،جن کے مشوروں سے انہوں نے وزیراعلیٰ ہوتے ہوئے ضمنی الیکشن لڑااور شکست کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ یہ مشیرہی ہوتے ہیں جو ہر میچ میں سنچری اسکور کرنے والے سچن ٹنڈولکر کو کپتان بننے کے بعد فیل کردیتے ہیں۔سچن ٹنڈولکرکپتان بننے سے قبل تقریباً ہر میچ میں سنچری اسکورکیا کرتے تھے۔مگر جب بھارتی کرکٹ بورڈ نے ٹنڈولکر کو کپتان بنایا تو نہ وہ سنچری اسکور کرسکے اور نہ بھارت کوئی میچ جیت سکا۔وجہ صرف وہی مشیرتھے جن کے غلط مشورے ٹنڈولکر کے آڑے آتے رہے۔اور یہی حمزہ شہباز صاحب کے ساتھ ہوا،وگرنہ چار صوبائی سیٹوں کو نو تک پہنچانا اور پندرہ سیٹوں والے کو نو پر لانا کوئی مشکل کام نہیں تھا،لیکن غلط مشیران تو سلطنت کی سلطنت برباد کردیتے ہیں ،یہاں تو صرف ایک صوبے کی وزارت اعلیٰ تھی۔ حمزہ شہبازپنجاب کی سیاست پر مضبوط گرفت رکھتے ہیں، اس میں سب سے بڑا کردار ان کے چچا میاں نواز شریف اور والد شہباز شریف کا ہے کہ انہوں نے حمزہ شہباز کوپنجاب مسلم لیگ ن کے فیصلوں کے حوالے سے ہمیشہ خودمختار رکھا۔آج بھی مسلم لیگ ن کے پاس پنجاب میں حمزہ شہبا ز سے بہتر کوئی کھلاڑی نہیں ہے۔ایک ایسا سیاسی کھلاڑی جو اپنی لائن اور لینتھ سے باہر نہیں کھیلتا۔جو کہ طاقت میں ہوتے ہوئے بھی سیاسی مخالفین کے نام نہیں بگاڑتا۔آج مگرانہیں کوئی بھی سیاسی ہلچل کرنے سے قبل اپنی ٹیم کا بیٹنگ آرڈر تبدیل کرنا پڑے گا۔اپنے مشیران پر ازسرِ نو غور کرنا ہوگا۔وفادار دوستوں کو سیاسی پرندوں پر ترجیح دینا ہوگی۔وگرنہ سیاسی پرندوں کو حمزہ شہباز سے زیادہ کون سمجھتا ہے۔عین ممکن ہے کہ کل وزارتِ اعلیٰ پھر آپ کی دہلیز پر ہو مگر اختیارات کی تقسیم کرتے ہوئے خصوصی خیال رکھیں۔ایسے لوگوں پر تکیہ مت کریں ،جن کا ماضی گواہ ہے کہ وہ کبھی کسی کے نہیں رہے۔ہر چند سال بعد سیاسی باس بدلتے رہتے ہیں۔کبھی پیپلزپارٹی،کبھی جنرل(ر) مشرف ،کبھی مسلم لیگ ق اور کبھی تحریک انصاف اور جب کہیں جگہ نہ ملے تو مسلم لیگ ن کو اپنا مسکن بنالیتے ہیں۔ٹھیک ہے ایسے الیکٹیبلزکی قدر ضرور کریں مگر انہیں مطلق العنان مت بنائیں۔پارٹی میں صفِ اول کے رہنماؤں سے زیادہ دوسری صف پر توجہ مرکوز کریں،کیونکہ دوسری صف اگر مضبوط ہو تو پہلی صف چاہتے ہوئے بھی آپ کو نہیں چھوڑ سکتی۔

باقی پنجاب کے موجودہ وزیراعلی چوہدری پرویز الٰہی کے بارے میں عمومی تاثر تھا کہ وہ انتہائی وضع دار اور ظہور الٰہی مرحوم کی روایات کے امین ہیں،مگر لگتا ہے ق لیگ کی باگ ڈور کے ساتھ وضع داری اور مضبوط خاندانی روایات بھی چوہدری شجاعت صاحب نے اپنے پاس رکھ لی ہیں۔پرویز الٰہی صاحب کے پاس صرف مونس رہ چکے ہیں۔

تازہ ترین