• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میر تقی میرؔ کا ایک شعرہے ؎ لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام…آفاق کی اس کارگۂ شیشہ گری کا۔ بلاشبہ شیشہ گری ایک بہت ہی نازک کام ہے کہ ایک معمولی سی غلطی لمحے بَھر میں شیشے کو کرچی کرچی کردیتی ہے اور پھر ان کرچیوں کوجوڑنے یا یک جا کرنے کا کوئی نسخہ بھی نہیں۔ گو کہ میرؔ نے پوری دُنیا کو ایسی کارگاہ قرار دیا ہے، جہاں شیشے کے حسین پیکر تخلیق کیے جاتے ہیں اور ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے۔ مگر بات جب انفس و آفاق کے باہمی تعلق کی ہو، تو شعر کی تفہیم میں اور وسعت آ جاتی ہے۔ 

بہرکیف، اِنسان قدرت کا ایک عظیم شاہ کار ہے، جسے بنانے، سنوارنے اور سنبھالنے کا اصل کام قدرت ہی انجام دیتی ہے، مگر قدرت نے بعض اِنسانوں کو مسیحا کے روپ میں یہ ذمّے داری بھی تفویض کی ہے کہ وہ اس عظیم شاہ کار کو ٹُوٹ پُھوٹ سے بچائیں۔ اس اعتبار سے ہر طبیب اور طبّی کارکن کارگاہِ حیات میں شیشہ گر کی حیثیت رکھتا ہے۔ تب ہی تو عالمی ادارۂ صحت کے زیرِ اہتمام ہرسال پوری دُنیا میں 17ستمبر کو مسیحائی کے مقدّس پیشے سے وابستہ ہر فرد کو اس کی نازک، مگر اہم ذمّے داری کا احساس دلانے کے لیے ’’مریضوں کے تحفّظ کا عالمی یوم‘‘منایا جاتا ہے۔ 

یہ یوم پہلی بار 2019ء میں منایا گیا۔ دراصل اس دِن کے پیچھے جذبات و احساسات کی ایک پوری دُنیا آباد ہے۔ ایک ایسی دُنیا، جس میں ’’محبّت‘‘ سب سے غالب جذبہ اور ’’احساسِ ذمّے داری‘‘ سب سے اہم احساس ہے، لیکن اس دُنیا میں وقفے وقفے سے احساسِ ندامت بھی سَر اُٹھاتا رہتا ہے۔ دراصل، آخرالذکر احساس اُس وقت پورے طور پر بیدار ہوا، جب ربع صدی قبل امریکا میں ایک رپورٹ شایع ہوئی، جس میں انکشاف کیا گیا کہ ہر سال اسپتالوں اور دیگر طبّی مراکز میں ڈاکٹرز اور طبّی عملے کی غلطی کے باعث لاکھوں مریض لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔

واضح رہے، ڈاکٹرز اور طبّی عملے کی ان کوتاہیوں کو "Medical Error" یا طبّی غلطی سے موسوم کیا جاتا ہے۔ طبّی غلطی سے مُراد، علاج کا وہ مضر نتیجہ ہے، جس سے بچنا ممکن ہو۔ اگرچہ طبّی اغلاط سے متعلق ترقّی یافتہ مُمالک سے بھی اطلاعات سامنے آتی رہتی ہیں، لیکن تیسری دُنیا کے مُمالک میں اموات کی شرح زیادہ ہے، کیوں کہ یہاں ڈیٹا یک جا کرنے کا کوئی نظام ہی موجود نہیں۔

بہرحال، جب تواتر سے دُنیا بَھر سے مریضوں کی ہلاکتیں رپورٹ ہونے لگیں، تو بالآخر 2019ء میں عالمی ادارۂ صحت نے فیصلہ کیا کہ ہر سال 17ستمبر کو مریضوں کے تحفّظ کا ایک عالمی دِن منایا جائے، تاکہ ڈاکٹرز اور طبّی عملے کو ان کی ذمّے داریوں کا احساس دلایا سکے اور ایسے اقدامات بھی تجویز کیے جائیں، جن کے ذریعے نہ صرف مریضوں کو علاج معالجے کی بہتر سہولتیں میسّر آسکیں، بلکہ اموات کےخطرات بھی کم سے کم کیے جا سکیں۔

اِنسانی فطرت میں ہمیشہ سے دوسروں کے لیے محبّت اور ہم دردی کا جذبہ موجود رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر دَور میں اِنسان کی رہنمائی کا مؤثر انتظام فرمایا۔ تمام الہامی کتابوں میں اِنسانی جان کی حرمت کی طرف توجّہ دلائی گئی ہے اور ایک دوسرے کے کام آنے کا احساس پیدا کیا گیا ہے۔ صدیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہر دَور میں مریضوں کے تحفّظ اور ان کی صحت کا خیال رکھا گیا۔ اب سے قریباً ڈھائی ہزار سال قبل یونان میں بابائے طب، بقراط نہ صرف مریضوں کے علاج اور تحفّظ پر خصوصی توجّہ دیتے تھے، بلکہ اپنے شاگردوں سے بھی باقاعدہ طور پرحلف اُٹھواتے کہ وہ ہمیشہ طبّی اخلاقیات اور اِنسانی جان کی حُرمت کا خیال رکھیں۔ 

بعدازاں، بقراط کے حلف نامے سے ہر دَور میں اِنسانیت نے رہنمائی حاصل کی۔ یاد رہے، بقراط کا زمانہ نبی کریمﷺ کی بعثت سے قریباً پندرہ سو برس پہلے کا ہے۔ نبی کریمﷺ پوری کائنات کے لیے رحمت بن کر آئے۔ آپﷺ نے اِنسانیت کی فلاح اور اِنسانی جان کی حُرمت سے متعلق دُنیا بَھر کو رہنمائی فراہم کی۔ قرآنِ حکیم میں ایک بے گناہ اِنسان کا قتل پوری اِنسانیت کا قتل قرار دیا گیا۔ آپﷺ نے جاہلیت کے تمام دستور پامال کرنے کا اعلان کیا اور خطبۂ حجۃ الوداع میں اِنسانی حقوق کا جو منشور پیش کیا، اس سے بہتر کوئی منشور یا چارٹر آج تک پیش نہیں کیا جا سکا۔ 

اس خطبے میں آپﷺ نے واضح طور پر مسلمانوں کو ہدایت کی، ’’تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزّتیں ایک دوسرے کے لیے اس طرح محترم ہونی چاہئیں، جس طرح آج عرفات کا دِن، جس طرح مکّہ کا یہ مقدّس شہر اور جس طرح ذوالحجہ کا مہینہ محترم ہے۔‘‘ نبی کریمﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں مسلم سائنس دانوں اور طبیبوں نے طبّی سائنس کا سفر آگے بڑھایا۔ یونانیوں کے زوال کے بعد طب کے میدان میں ہونے والی تحقیق اور ترقّی میں جو تعطل آگیا تھا، مسلمانوں نے اس تعطل کو دُور کیا اور خُوب سے خُوب تر کی تلاش جاری رکھتے ہوئے طبّی سائنس کے نئے دَر وا کیے۔ تاہم، اس پورے سفر میں مریضوں کی خدمت اور حفاظت پر خصوصی توجّہ دی گئی اور طبّی اخلاقیات کا عمومی طور پر خیال رکھا گیا۔

لیکن پھر رفتہ رفتہ مسلمان اپنے مرکز سے دُور ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ اُن کا زوال شروع ہوگیا۔ 12ویں صدی عیسوی کے بعد مسلمان الزہراوی اور ابنِ سینا کے معیار کے سرجنز اور فزیشنز دُنیا کے سامنے متعارف کروانے سے قاصر رہے۔ دوسری طرف یورپ آہستہ آہستہ اپنے تاریک دَور سے نکل آیا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے نئے دَور کا آغاز ہوا۔ طبّی سائنس نے بھی ترقّی کے نئے مراحل طے کیے۔ مریضوں کے تحفّظ اوران کے حقوق پر بھی گاہے بگاہے بات کی جاتی رہی۔ 16ویں صدی کے آغاز میں جرمن میڈیکل اسکول نے بقراط کے حلف نامے کی روشنی میں مریضوں کے حقوق کا تذکرہ کیا۔ 

انگلستان میں بھی مریضوں کے حقوق پر توجّہ دی گئی اور17ویں صدی کے آغاز میں پہلی مرتبہ بقراط کے حلف نامے کا انگریزی زبان میں ترجمہ ہوا۔ایک معروف انگریز طبیب اور انسانی حقوق کےعلم بردار ،تھامس پرسی وَل (Thomas Percival) نے پہلی بار طبّی اخلاقیات یا Medical Ethics کی اصطلاح کا استعمال کیا۔ 1847ء میں تھامس پرسی وَل کی تعلیمات کو باقاعدہ طور پر برطانیہ میں اپنا لیا گیا۔ نازیوں کے دَور میں طبّی تحقیق اور تجربات کے نام پر غیرانسانی رویّوں کا مظاہرہ کیا گیا اور کئی معصوم انسانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔ 

دوسری جنگِ عظیم کے بعد نازی دَور کے طبّی تجربات پر باقاعدہ پابندی لگا دی گئی۔1947ء میں نورمبرگ ضابطۂ اخلاق پیش کیا گیا، جس میں باقاعدہ طور پر طبّی تحقیق اور تجربات کے اصول و ضوابط طے کیے گئے اورمریضوں کے تحفّظ پر بَھرپور انداز میں بات کی گئی۔ 1948ء میں ورلڈ میڈیکل ایسوسی ایشن کی جانب سے سوئٹزرلینڈ کے شہر، جنیوا میں اہم اجلاس منعقد ہوا اور اقرارنامۂ جنیوا(Geneva Declaration) سامنے لایا گیا، جس میں بقراط کے حلف نامے کی روشنی میں مریضوں کے تحفّظ کی ہدایات کی پھر سے نئے انداز میں تجدید کی گئی اور جدید دَور میں ان ہدایات پر عمل کے راستے متعین کیے گئے۔ 

ورلڈ میڈیکل ایسوسی ایشن نے اپنی کاوشیش جاری رکھیں، جس کے نتیجے میں 1964ء میں فِن لینڈ کے شہر، ہیلسنکی میں ایک اقرارنامہ Helsinki Declaration پیش کیا گیا، جو طبّی تحقیق کے حوالے سے اس لیے بھی اہم ترین دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس میں طبّی تحقیق کے اُصول و ضوابط اخلاقی نقطۂ نظر سے طے کیے گئے۔ قصۂ مختصر، مریضوں کے تحفّظ اور حقوق کے لیے گزشتہ ڈھائی ہزار سال سے جدوجہد جاری ہے اور اسی جدوجہد کے نتیجے میں چھے ایسے رہنما اُصول سامنے آئے ہیں، جن پر دُنیا بَھر میں اتفاق کیا جاتا ہے۔

٭Non-Maleficence : یہ طبّی اخلاقیات کا پہلا اُصول ہے،جسے بقراط کے حلف نامے سے اَخذ کیا گیا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ مریض کو دورانِ علاج کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔

٭ مریض سے خیر خواہی (Beneficence) : اس اُصول کے پس منظر میں وہ دردِ دل پوشیدہ ہے، جس کی طرف خواجہ میر درد نے اشارہ کیا تھا ؎ دردِ دِل کے واسطے پیدا کیا اِنسان کو۔ ویسے تو محبّت، ہم دردی اور خیرخواہی کے جذبات تمام انسانوں کے لیے ہونے چاہئیں، لیکن مریضوں کے لیے ان جذبات میں انتہائی شدّت درکار ہوتی ہے۔

٭خودمختاری(Autonomy) : اس اصول کے تحت مریض کو یہ حق حاصل ہے کہ اُسے علاج کی تفصیلات سے آگاہ کیا جائے اور علاج کی تمام ممکنہ صُورتیں اس کے سامنے بیان کی جائیں۔ مریض کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ اپنی مرضی سے علاج کا طریقہ منتخب کرے۔

٭ انصاف(Justice) : اس سے مُراد ہے کہ علاج کے معاملے میں کسی قسم کی جانب داری نہ برتی جائے۔ کسی بھی مریض کو مذہب، رنگ، نسل، زبان یا علاقے کی بنیاد پر ترجیح نہ دی جا ئے۔ ڈاکٹرز اور طبّی عملہ تمام مریضوں سے یک ساں برتاؤ اور دیکھ بھال کرے۔

٭رازداری(Confidentiality) : چوں کہ مریض کے ذاتی معاملات ڈاکٹرز اور طبّی عملے کے لیے امانت کی حیثیت رکھتے ہیں، لہٰذا مریض کی کم زوریاں دیگر افراد کے سامنے ہرگز بیان نہ کی جائیں۔

٭ سچائی کا اظہار (Truth Telling) : اس اُصول کے تحت مریض کے ساتھ کسی قسم کی دھوکے بازی نہیں ہونی چاہیے۔ دیانت داری کے ساتھ مریض کواس کے مرض سے متعلق صحیح معلومات فراہم کی جائیں۔ ہمارے معاشرے میں ایسےکئی ڈاکٹرز اور اتائی موجود ہیں جن کی زندگی کا مقصد صرف دولت کماناہے۔ اس معاملے میں وہ حلال و حرام کی بھی پروا نہیں کرتے۔ ان کا طریقۂ واردات بڑا عجیب ہوتا ہے۔ وہ مریض کی معمولی سی شکایت پر اُسے اس حد تک خوف زدہ کردیتے ہیں کہ مریض سمجھتا ہے کہ وہ کسی مہلک مرض میں مبتلا ہے اور موت کی دہلیز پر پہنچ چُکا ہے۔

طبّی اخلاقیات کے اصول وضع کیے جانے کےباوجود بعض ڈاکٹرز اورطبّی کارکنان لاپروائی اور کوتاہی کا مظاہرہ کرتے ہیں، جس کا نتیجہ مریضوں کے لیےخطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔اسی لاپروائی اور کوتاہی سے نجات کے لیے ہر برس کوئی ایک تھیم منتخب کرکےمریضوں کے تحفّظ کا عالمی یوم منایا جاتا ہے۔سال2022ء میں پوری دُنیا ادویہ کے غلط استعمال کے مسئلے سے دوچار ہے۔

ایسا نہیں کہ اس مسئلے نے اسی برس سَر اُٹھایا ہے، بلکہ ایک طویل عرصے سے لوگ معالجین کے نسخے کے بغیر ادویہ حاصل کررہے ہیں، جب کہ گلی محلّوں کے اتائی بھی مریض کے لیے غلط ادویہ تجویز کردیتے ہیں۔ نیز، اسپتالوں اور طبّی مراکز میں بھی دانستہ یا غیردانستہ طورپر ادویہ کا غلط استعمال ہورہا ہے۔ مریضوں کو ایسی ادویہ دے دی جاتی ہیں، جو ان کے لیے خطرناک ثابت ہوتی ہیں اور بعض اوقات موت کا باعث بھی بن جاتی ہیں۔

انہی وجوہ کے پیش نظر اِمسال جس تھیم کا انتخاب کیا گیا ہے ،وہ "Medication Safety"یعنی’’محفوظ ادویہ‘‘ہے، جب کہ سلوگن "Medication Without Harm" یعنی ’’بغیر کسی نقصان کے علاج‘‘ہے۔واضح رہے، رواں برس عالمی ادارۂ صحت اور طبّی ماہرین نے مریضوں کے تحفّظ کے لیے چھے اہداف بھی طے کیے ہیں، جو خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔

٭مریض کی صحیح شناخت: اسپتالوں اور طبّی مراکز میں مریض کی صحیح شناخت خاصی اہم ہوتی ہے کہ بعض اوقات طبّی عملے کی کوتاہی کی وجہ سے کسی ایک مریض کی ادویہ کسی دوسرے مریض کو فراہم کر دی جاتی ہیں، یہاں تک کہ کسی مریض کا غلط آپریشن تک کردیا جاتا ہے، اس لیے مریض کی شناخت یقینی بنانا طبّی عملے کی اوّلین ذمّے داری ہے۔

٭مؤثر رابطہ: طبّی عملے کے لیے ضروری ہے کہ مریض، اس کے اہلِ خانہ اور دیگر متعلقین کے ساتھ مؤثر رابطے کو فروغ دیا جائے، کیوں کہ رابطہ بہتر ہونے سے مریضوں کے کئی مسائل حل ہو جاتے ہیں۔

٭مخصوص ادویہ کی حفاظت: طبّی عملے کو بعض ادویہ کا استعمال حددرجہ احتیاط کے ساتھ کرنا ہوتا ہے۔اس طرح کی ادویہ High Allert Medications کہلاتی ہیں۔اگرچہ ان ادویہ کی تعداد زیادہ ہے، مگرجو پانچ اقسام کی ادویہ زیادہ اہمیت کی حامل ہیں،ان میں انسولین، بین الوریدی استعمال کے لیے ایک خاص دوا، پوٹاشیم کلورائیڈ (اگر انجیکشن کے ذریعے استعمال ہو)، سوڈیم کلورائیڈ کا محلول (اگر 0.9 فی صد سے زیادہ گاڑھا ہو) اور نشہ آور ادویہ وغیرہ شامل ہیں۔

٭محفوظ جرّاحت: مریضوں کی ایک بڑی تعداد کو جرّاحت یا سرجری کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس عمل کو محفوظ بنانے کے لیے مریض کے متعلقین اور طبّی عملے کو بہت توجّہ سے سارے مراحل طے کرنے ہوتے ہیں۔ جرّاحت سے قبل، جرّاحت کے دوران اور بعد میں کئی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا مریض کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے اور یوں محفوظ جرّاحت عمل میں آتی ہے۔

٭ انتقالِ امراض سے بچاؤ: بعض اوقات طبّی عملے کی غفلت کے سبب مریضوں کو کچھ امراض بھی منتقل ہو سکتے ہیں۔ یہ صُورتِ حال اسپتالوں، طبّی مراکز اور طبّی خدمات فراہم کرنے کی کسی بھی جگہ پر پیش آسکتی ہے ان امراض کو Health Care Associated Infections کہا جاتا ہے۔ یہ امراض مختلف اقسام کے جراثیم اور وائرسز کی وجہ سے منتقل ہوتے ہیں۔ مناسب احتیاطی تدابیر اختیار کرکے ان امراض سے بچا جاسکتا ہے۔ نیز، مریضوں اور ان کے متعلقین کو بھی اس حوالے سے آگہی فراہم کرنا ناگزیر ہے۔

٭ مریض کو چوٹ لگنے یا گرنے سے بچانا: مریضوں کے گرنے یا چوٹ لگنے کا خدشہ ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ اس لیے طبّی عملے کے لیے لازم ہے کہ نہ صرف مناسب احتیاطی تدابیر اختیار کریں، بلکہ مریضوں سے وابستہ دیگر افراد کو بھی اس حوالے سے آگاہی اور تربیت فراہم دیں۔

اگر درج بالا اہداف پر توجّہ دی جائے اور تمام ڈاکٹرز اور طبّی کارکنان مناسب احتیاطی تدابیر اختیار کرکے مریضوں کی دیکھ بھال کریں، تو مریضوں کا تحفّظ یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

دیکھا گیا ہے بظاہر بڑے بڑے دعوے کرکے طبّی سائنس کے میدان میں قدم رکھا جاتا ہے۔ ہر فرد انسانیت کی خدمت کی بات کرتا ہے، مگر عملی دُنیا میں آکر سارے دعوے دَم توڑ جاتے ہیں ۔ اگر ہم اپنے اردگرد کا جائزہ لیں تو خودغرضی اور نفسانفسی عروج پر دکھائی دیتی ہے۔ سرکاری اسپتالوں کے زیادہ تر ڈاکٹرز بہتر توجّہ کے نام پر مریضوں کو اپنے نجی کلینکس پر آنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

مریضوں کو نجی لیبارٹریز بھیجنے پر کمیشن وصول کیا جاتا ہے، منہگی ادویہ اور غیرضروری ٹیسٹ تجویز کیے جاتے ہیں اور اس کے بدلے دواساز کمپنیز سے پُرکشش مراعات حاصل کی جاتی ہیں۔ درحقیقت،17ستمبر تجدیدِ عہد، سوئے ہوئے ضمیر بیدار کرنے اور دِلوں کے بند دروازوں پر دستک دینے کا بھی دِن ہے۔سو، غفلت سے بیدار ہوں اور جاہلیت کے تمام دستور اپنے پاؤں سے روند ڈالیں۔خطبۂ حجۃ الوداع کی روشنی میں اِنسان کے احترام کی طرف مراجعت کریں اور اِنسانی خدمت کے ذریعے رضائے الٰہی کا حصول نصب العین بنالیں۔

(مضمون نگار، نفسیاتی امراض کے ماہر ہیں۔ رفاہ انٹرنیشنل اسپتال، اسلام آباد میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔نیز، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) پنجاب کے جنرل سیکرٹری ہیں)