1965کی جنگ میں چونڈہ کے محاذ کو خصوصی اہمیت حاصل تھی۔بھارت نے اپنے جنگی منصوبہ کے مطابق اپنا سب سے بڑا اور فیصلہ کن حملہ اسی محاذ پر کیا گیا۔ عددی اعتبار سے بھارتی فوج چار ڈویژن فوج کے ساتھ اس محاذ پر حملہ آور ہوئی جس میں ایک آرمڈ ڈویژن اور تین انفنٹری ڈویژن شامل تھے۔بھارت نے اس محاذ پر سات اور آٹھ ستمبر کی درمیانی شب حملہ کیا۔اس سے پہلے بھارت چھ ستمبر کو لاہور اور جسڑ کے محاذوں پر غیر اعلانیہ جنگ شروع کر چکا تھا۔
گزشتہ دنوں لیفٹنینٹ کرنل (ر) امتیاز احمد خان نے 14بلوچ کے افیسرز کے ساتھ چونڈہ محاذ کادورہ کیا۔1965کی جنگ میں امتیاز احمد خاں لیفٹینٹ کی حیثیت سے اس محاذ پر انٹیلیجنس آفیسر کے طور پر شامل تھے۔اس محاذ پر 14بلوچ نے چونڈہ کا دفاع اتنی بہادری سے کیا کہ جنگ کے بعد بیٹل آنر کے کے طور پر اس کو چونڈہ بٹالین کا خطاب ملا۔چونڈہ معرکہ میں چونڈہ بٹالین 32بھارتی فوجیوں کو جنگی قیدی بنانے میں کامیاب ہوئی اور اس معرکہ میں ان کے 20 جوان شہادت کے رتبہ پر فائز ہوئے۔
کرنل امتیاز اسی ٹیلے پر کھڑے ہو کر اپنے آفیسرز اور چونڈہ کے نوجوانوں کو اس جنگ کی تفصیلات بتا رہے تھے جہاں 57سال پہلے انہوں نے اس یادگار معرکہ میں حصہ لیا تھا۔وہ 57 سال بعد پہلی دفعہ چونڈہ تشریف لائے تھے ان کا جوش اور خوشی قابل دید تھی۔ انہوں نے چشم تصور سے 57سال پہلے ہوئی اس جنگ کو تفصیل سے بیان کرنا شروع کیا۔ وہ 77سال کی عمر میں بھی پوری طرح چاک و چوبند تھے ان کی یاداشت بہت بہترین تھی۔ملٹری افیسرز کے ساتھ چونڈہ کے نوجوانوں کی اچھی خاصی تعداد بھی پوری دلچسپی اور انہماک سے ان کی داستان سن رہی تھی۔
اگست 1965میں چھمب جوڑیاں میں شروع ہونے والے آپریشن جبرالٹر کی شکست کو چھپانے کے لیے ستمبر کے آغاز میں ہی بھارت نے مشرقی محاذوں پر غیر اعلانیہ جنگ کا آغاز کر دیا۔ چھ ستمبر کو لاہور پر حملہ بالکل غیر متوقع تھا۔واہگہ سرحد سے بھارت کی 11ڈویژن نے پاکستان کی سر زمین پر اپنے ناپاک قدم رکھے افواج پاکستان نے بی آر بی نہر کے اس پار اپنی دفاعی پوزیشنز مستحکم کیں اور دشمن کے سامنے سیسہ پیلائی دیوار بن کر ڈٹ گئی۔
پاک فوج نے دلیری اور بہادری کے ساتھ لاہور کا بھرپور دفاع کیا۔لیکن۔لاہور پر حملہ دشمن کی جنگی چال تھی سب سے بڑا اور فیصلہ کن حملہ چونڈہ پر ہونے والا تھا۔چونڈہ محاذ کا انتخاب بھارت نے بہت سوچ سمجھ کر کیا تھا۔چونڈہ اور گرد و نواح میدانی علاقہ تھا اور یہاں کوئی قدرتی رکاوٹ کوئی جنگل پہاڑ ندی دریا ایسا موجود نہیں تھا جس سے ٹینکوں کے راستہ میں دشواری آتی اس لیے ٹینکوں کی جنگ کے لیے یہ بہت مناسب خطہ تھا 7اور آٹھ ستمبر کی درمیانی شب رات 9 بجے بھارت نے آپریشن نیپال کے نام سے توپ خانے کی شدید گولہ باری سے اس حملہ کا آغاز کیا اس گولہ باری کا ہدف شہری آبادی تھی بارڈر کے نزدیک واقع دیہاتوں کے لوگ ابھی سونے کی تیاری کر رہے تھے جب وہ شدید گولہ باری کی زد میں آگئے۔
سرحدی گاؤں چاروہ اور معراجکے کے سینکڑوں لوگ اس گولہ باری سے شہید ہو گئے۔اس محاذ پر پاکستان کی باقاعدہ فوج نہ ہونے کے برابر تھی۔بیس کے قریب مجاھد اور رینجر کی کمپنیاں اس تیس میل لمبی چوڑی سرحد پر تعینات تھیں جو چند گھنٹے داد شجاعت دے کر پیچھے ہٹ گئیں۔ ساری رات جاری رہنے والی گولی باری سے صبح سرحدی دیہات تباہی کا منظر پیش کر رہے تھے 8ستمبر کو صبح چھ بجے بھارتی فوج نے اپنے ناپاک قدم پاک سرزمین پر رکھے۔باجرہ گڑھی۔نخنال اور چاروہ، ان تین مقامات سے بھارتی فوج کے چار ڈویژن تین کالم کی شکل میں داخل ہوئے۔اسی مقام پر پاکستان ائیر فورس کے شاہین حملہ اور ہوئے اور قہر بن کر دشمن پر ٹوٹ پڑے۔
اس حملہ سے چار بھارتی ڈویژن کا حملہ غیر متوازن ہو گیا اور دو گھنٹے بعد بھارتی فوج کو سنبھلنے کا موقعہ ملا۔جیسے ہی دشمن نے پاک سرزمین پر ایڈوانس دوبارہ شروع کیا پاکستانی فوج کی صرف تین کمپنیاں دشمن کے سامنے صف آرا ہو گئیں۔ 3ایف ایف 13ایف ایف اور2 پنجاب کی صرف ایک ایک کمپنی جو اس مقام پر تعینات تھی۔مشین گنوں کے ساتھ مزاحمت پیش کرنے لگیں۔ابھی بھارتی فوج ہوائی حملے کی دہشت سے پوری طرح باہر نہیں نکل پائی تھی کہ 3 ایف ایف کی گولیوں سے بھارتی فوج کی 4مدراس کا سی او لیفٹنینٹ کرنل ایچ ایل مہتا مارا گیا۔بھارتی فوج کا کمانڈر میجر جرنل راجندر سنگھ سپیرو اس حملہ سے اتنا گھبرا گیا کہ اس نے حملہ روک دیا اور نئی منصوبہ بندی پر غور کرنے لگا۔
بھارتی فوج نے اپنے فارمیشن کالم پھیلا لیے اور تین کمپنیوں کو گھیرنے کی کوشش کی لیکن پاک فوج کے جانباز ان کے گھیرے کو توڑتے ہوئے نکل آئے۔بھارتی فوج نے گڈگور کے مقام تک رسائی حاصل کر لی۔ اس مقام پر بھارتی فوج کا سامنا پاک فوج کی 25 آرمڈ رجمنٹ سے ہوا اور اس یادگار معرکہ کا آغاز ہوا جس کی وجہ سے اس پاک فوج کی بٹالین کو جنگ کے بعد جرنل موسٰی کی طرف سے مین آف سٹیل کا خطاب ملا۔
بھارتی 16کیلوری کے ہراول ٹینک آگے بڑھ رہے تھے جب پاک فوج کی 25 کیلوری کے سکوارڈن بی نے اچانک ان کا راستہ روک کر بھارتی ٹینکوں پر یکے بعد دیگرے فائر کیے اور ان کے تین ٹینک تباہ کر دئیے۔بھارتی سکوارڈن کے باقی ماندہ سنچورین ٹینک واپس بھاگ نکلے۔پاکستان کی اس آرمڈ بٹالین کے پاس 90ایم ایم بیرل والے پیٹن ٹینک تھے۔ بھارتی فوج نے یہ خیال کیا کہ وہ پاکستانی فوج کے گھیرے میں آ چکے ہیں۔ انہوں نے فورا پانچ کلو میٹر واپس پسپائی اختیار کرتے ہوئے نئی حکمت عملی پر غور شروع کر دیا جس میں ان کو مزید دو دن لگے۔
یہ تھے چونڈہ کے ابتدائی محاذ جن پر بھارتی فوج کا تکبر خوف میں تبدیل ہو چکا تھا۔بھارتی منصوبہ سازوں کا خیال تھا کہ اتنی بڑی فوج کے ساتھ حملہ آور ہو کر وہ پہلے ہی دن پچاس ساٹھ کلو میٹر تک آگے بڑھتے ہوئے پاکستان دفاع کو برباد کر کے رکھ دیں گے۔ لیکن پاکستان کی مٹھی بھر سپاہ نے ان کے اس منصوبہ کو ناکام بنا دیا۔بھارتی فوج کا مورال بری طرح ٹوٹ چکا تھا۔بھارتی کمانڈر اپنے فوجیوں کو جھوٹی تسلیاں دے کر مورال بحال کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔تاکہ چونڈہ تک رسائی حاصل کی جائے۔
وہ نہیں جانتے تھے کہ قدرت نے ان کے عبرت ناک انجام کے لیے چونڈہ کے محاذ کا انتخاب کر رکھا تھا۔بھارتی فوج خود اپنے انجام کی طرف بڑھنے کے لیے بے قرار تھی۔ اور تین دن بعد یعنی 14ستمبر 1965کو وہ یادگار جنگ شروع ہوئی جہاں بھارتی فوج کا تکبر پاش پاش ہو گیا۔14 ستمبر کو صبح چھ بجے جیسے ہی بھارتی فوج نے قصبہ چونڈہ پر تین اطراف سے گھیرتے ہوئے حملہ شروع کیا۔
پاکستانی فوج نے وہ جنگی چال چلی کہ خود بھارتی فوج گھیرے میں آگئی۔پاکستان کی ائیر فورس توپ خانہ اور آرمڈ بٹالین نے اتنی شدید گولہ باری کی کہ بھارتی فوجی کمانڈر اپنے حواس کھو بیٹھے۔ اسی میدان جنگ میں دو فوجی کمانڈروسمیت بھارت کے چھ سو فوجی جہنم واصل ہوئے۔بھارتی تکبر چونڈہ کے میدان میں خاک میں مل چکا تھا۔اس مقام پر اللہ کریم نے سورت انفال کی آیت نمبر 65 میں کیا گیا وعدہ بھی ایک دفعہ پھر پورا کر دیا کہ اگر 20مومن بھی جنگ میں ثابت قدم رہے تو 100 کفار پر غالب آ جائیں گے۔
اگر اس محاذ پر بھارتی اور پاکستانی فوج کا عددی تناسب دیکھا جائے تو ایک کے مقابلہ میں پانچ تھا۔ پاکستان کے پاس اس محاذ پر کل فوج تیس ہزار کے لگ بھگ تھی اور بھارت 150000ہزار کی فوج لے کر حملہ آور ہوا تھا۔یہ جنگی کرامت چونڈہ کے محاذ پر تین سو شہدا کے خون سے لکھی گئی۔صلہ شہید کیا ہے۔تب و تاب جاودانہ 21ستمبر کو دونوں ملکوں کی طرف سے سیز فائر کا اعلان کیا گیا۔
جنگ بندی ہوتے ہی غیر ملکی نامہ نگاروں کو چونڈہ محاذ کا دورہ کروایا گیا تاکہ بھارتی فوج کی طرف سے فتح کے جھوٹے دعویٰ کو بے نقاب کیا جا سکے۔ان غیر ملکی صحافیوں میں برطانیہ امریکہ آسٹریلیا اور فرانس سمیت بہت سے دوسرے ملکوں کے صحافی شامل تھے۔شہادت کے لیے ڈیلی ایکسپریس لندن کے صحافی ڈونالڈ سی مین کے ایک مضمون کا حوالہ قارئین کی پیش خدمت ہے جو 24ستمبر 1965کو ڈیلی ایکسپریس نے شائع کیا۔(جنگ بندی لائن پر جو میں نے دیکھا کبھی نہ بھلا پاؤں گا۔
ہم ایک گھنٹہ میں صرف چونڈہ کے آس پاس کا تین کلو میٹر کا محاذ دیکھ پائے۔وہاں میں 25کے قریب بھارتی فوج کے جلے ہوئے شرمن اور سنچورین ٹینک گن پایا اور بہت سے بھارتی فوجیوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ بے شک یہ پاکستان فوج کی مارل وکٹری تھی اور جنگ بندی سے صرف چھ گھنٹہ پہلے پاکستانی فوج نے جوابی حملہ کر کے جس طرح چھ کلو میٹر کا علاقہ واپس حاصل کیا جنگی فتوحات میں وہ ایک نئے باب کا اضافہ ہے)..
یہ اغیار کی رائے ہے چونڈہ کے اس عظیم محاذ کے متعلق جہاں اللہ کریم کی نصرت سے افواج پاکستان نے بھارت کے عددی اور مشینی تکبر کو خاک میں ملا دیا۔۔۔
افواج پاکستان زندہ۔۔۔۔پاکستان پائندہ باد