ڈاکٹر صاحب زادہ ابوالخیرمحمد زبیر
عقیدۂ ختم نبوت اسلام کا قطعی اور اجماعی عقیدہ ہے، جس کا تعلق اسلام کے بنیادی عقائد سے ہے، جس پر ایمان لانا بھی ہر مسلمان پر فرض ہے یعنی ایک مسلمان اس بات پر ایمان رکھے کہ حضور تاج دار ختم نبوت ﷺاللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں اور سلسلہ نبوت ورسالت حضور نبی کریم ﷺ پر ختم ہو چکا ہے، اب آپﷺ کے بعد قیامت تک نہ کوئی نیا نبی آئے گا، نہ کوئی رسول آئے گااور آپ ﷺکی کتاب،شریعت مطہرہ اور تعلیمات تاقیامت ہدایت اور نجات کا آخری سرچشمہ ہیں، اگر کوئی شخص ہزار بار بھی کلمہ پڑھے اور دن رات نماز وقیام میں گزارے، لیکن وہ آپ ﷺکو خاتم النبیین نہیں مانتا یا آپ ﷺکے بعد کسی اور کو بھی نبی مانتا ہے تو وہ بلاشبہ،دائرۂ اسلام سے خارج اورمرتد ہے۔
اس فتنہ انکارِ ختم نبوت اور دعویٰ نبوت کرنے والے کو جڑ سے اکھاڑنے والے سب سے پہلے محافظ ختم نبوت، خلیفۂ اول، امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، آپ نے فتنہ انکارِ ختم نبوت کی ہر طرح سے سرکوبی کی اور آپ کے حکم پر ہزاروں صحابۂ کرامؓ نے نبوت کا دعویٰ کرنے والے مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ یمامہ میں شرکت کی، سیکڑوں صحابۂ کرامؓ نے عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے جام شہادت نوش کیا اور مدعی نبوت مسیلمہ کذاب اور اس کے متبعین اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئے۔
اسی طرح برصغیر میں جب انگریزوں کی سرپرستی میں قادیانی فتنہ نمودار ہوا اور مرزا غلام احمد قادیانی نے پہلے مصلح، پھر مجدد ہونے کا دعویٰ کیا اور پھر مہدی و مسیح موعود اور آخر میں نبوت کا دعویٰ کردیا توعلمائے کرام اور مشائخ عظام نے مرزا قادیانی کے خلاف کفر وارتداد کے فتاویٰ جاری کئے۔ان میں مولانا غلام دستگیر قصوری، مولانا غلام رسول امرتسری، مولانا فضل احمد لدھیانوی، علمائے لدھیانہ، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی، مجدد دین وملت سیدنا پیر مہر علی شاہ گولڑوی چشتیؒ،جیسے قابل ذکر علمائے حق نے مرزا قادیانی کی نہ صرف تکفیر کی ،بلکہ ہر ممکن اس کا تعاقب کر کے مناظرے اور مباہلے کے چیلنج بھی دئیے اور قبول کئے اورہر طرح سے اور ہر سطح پر مرزا کو جھوٹا و کذاب اور کافر و مرتد ثابت کیا۔
1953ء کی تحریک ختم نبوت میں تمام مکاتب فکر کے علما ئےکرام شامل تھے۔ جب 25 فروری کو قائدین گرفتار کر لیے گئے تو مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی نے مسجد وزیر خان لاہور کو مرکز بنا کر 3 مارچ 1953ء کو تحریک ختم نبوت کی قیادت سنبھالی اور اپنی بے پناہ قائدانہ صلاحیتوں سے تحریک میں اس طرح جان ڈال دی کہ ایوان حکومت میں زلزلہ آ گیا۔ لاہور میں روزانہ دو جلسے ہوتے تھے، ایک عصر سے پہلے دہلی دروازہ کے باہر اور دوسرا عشاء کے بعد مسجد وزیر خان میں۔
مولانا نیازی کی عشق رسول ﷺ سے لبریز ایمان افروز تقاریر سے تحریک میں اس قدر شدت پیدا ہو گئی کہ حکومت نے اسے دبانے کے لیے تشدد کی راہ اختیار کی۔ مولانا عبدالستار خان نیازی گرفتار ہوئے، آپ کو سزائے موت سنا ئی گئی۔ بعد میں یہ سزا حکومت کو خود ہی منسوخ کرنی پڑی، اس طرح آپ نے "غازی تحریک ختم نبوت" اور "فاتح تختہ دار" کا لقب پایا،جبکہ اسی نسبت سے ممتاز عالم دین علامہ سید احمد سعید کاظمی (ملتان)نے آپ کو”مجاہد ملت“ کے خطاب سے سرفراز کیا۔
جب قادیانی فتنہ نے اہل ایمان کا امن وسکون اور چین وآرام غارت کر کے رکھ دیا توعلمائے حق نے اس کے کفریہ عقائد اور اسلام شکن سرگرمیوں کے خلاف تحریر وتقریر اور جلسہ وجلوس کے ذریعے کتاب وسنت کے دلائل وشواہد کے ساتھ ہر محاذ پر مقابلہ کیا اور فتنہ قادیانیت کے مکروفریب اور دجل وکذب کے پردوں کو چاک کیا اور بالآخر7ستمبر 1974ء کو وہ گھڑی آ پہنچی، جب فتنہ قادیانیت کو پاکستان کی قومی اسمبلی اورسینیٹ نے متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔
7ستمبر1974ء پاکستان کی تاریخ کا انتہائی اہم اور تاریخی اہمیت کا حامل دن ہے،کیونکہ اس دن پاکستان کی پارلیمنٹ (قومی اسمبلی و سینیٹ) نے پوری قوم بلکہ امت مسلمہ کی نمائندگی کرتے ہوئے قائد اہلسنت امام شاہ احمد نورانی صدیقی ؒ کی زیر قیادت کئی مہینوں کی مسلسل جدوجہد وتحریک اور اسمبلی کی بحث و مباحثے کے بعد آپ کی قرار داد پر مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیروکار قادیانیوں، مرزائیوں اور احمد یوں کو متفقہ طور پر کافر و مرتد اور غیر مسلم قرار دیا، یوں تقریبا ًایک صدی بعد اس فتنے کے مکروہ عزائم کے خلاف جدوجہد پایۂ تکمیل کو پہنچی۔ 30جون 1974ء کوانہوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے کےلیے قومی اسمبلی میں تاریخی قرار داد پیش کی۔
قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر کو اپنی جماعت کے عقائد کے بارے میں صفائی اور موقف پیش کرنے کا مکمل آزادانہ موقع دیا گیا\13دن تک اس پر جرح ہوئی۔ پوری پارلیمنٹ نے متفقہ طور پریہ قرارداد منظور کی، اس وقت اسمبلی کے اندر مولانا مفتی محمود،علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری، مولانا سید محمد علی رضوی، مولانا عبدالحق، پروفیسر غفور احمد،صاحب زادہ احمد رضا قصوری،مولانا ظفر انصاری،مولانا نعمت اللہ،عبدالمجید جتوئی،چوہدری ظہور الہٰی،سردار شیرباز مزاری، سردار مولا بخش سومرو، حاجی علی احمد تالپورنے اس قرارداد کی تائید و حمایت کی۔
غرض7ستمبر1974ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے75سالہ فتنے کو اس کےمنطقی انجام سے دوچار کیا۔علامہ شاہ احمد نورانی اور تمام مکاتب فکر کے ممتاز علماءکی تاریخ ساز تحریک اور جدوجہدپرمنکرین ختم نبوت کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ اس فیصلے کے پیچھے علماء و مشائخ کی طویل جدوجہد کی تاریخ اور ہزاروں شہدا ء کا مقدس لہو شامل ہے، یہ اعزاز اللہ نے قائد اہلسنت کو عطا فرمایا کہ آپ نے 1974ء سے2003ء تک جب بھی حکمرانوں پر عالمی دباؤ بڑھا اور انہوں نے ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالت سے متعلق دستوری ترامیم کرنے کی کوشش کی تو قائد ملت اسلامیہ امام شاہ احمدنورانیؒ نے جرأت مندی سے حکومتی اقدامات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
علامہ شاہ احمد نورانی ؒ کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اس فتنے نےسراٹھایا اور ناموس رسالت قانون میں تبدیلی کے نام پر قادیانیوں کے مکروہ عزائم کی تکمیل کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی توجمعیت علمائے پاکستان کی مدبر قیادت نے 30نومبر2010ء کو کراچی میں ملک کی مقتدرجماعتوں کی آل پارٹیز تحفظ ناموس رسالت کانفرنس منعقد کر کے تحریک ناموس رسالت کی جدوجہد شروع کی اور اللہ کے فضل و کرم سے فروری2011ء میں سخت ترین عوامی احتجاج کے سامنے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور حکومت نے قانون ناموس رسالت ﷺ میں ترمیم نہ کرنے کا اعلان کیا،اب پھر قادیانی لابی سرگرم ہو گئی ہے، ملک کے مختلف علاقوں میں اپنے مراکز قائم کرر ہے ہیں، تاکہ وہ اپنے مکروہ نظریات سے مسلمانوں کوگمراہ کرسکیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قائدین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سامراج کی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں اور عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کےلیے ہر وقت تیار رہیں، تاکہ مرنے کے بعد قبر میں روشنی اور کفن میں خوشبو ہو۔