• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہندوستان کے کہانی کار سید محمد اشرف نے کوئی بیس برس ادھر ایک طویل مختصر کہانی لکھی تھی ’نمبردار کا نیلا‘۔ یہ شمالی ہند کے کسی عام سے گائوں کی کہانی ہے جہاں نمبردار صاحب نے ایک خوبصورت سا نیل گائے کا بچہ پال لیا ہے۔ لاڈ دلار میں نام رکھا ہے ، نیلا۔ نیلا صاحب کی بہت خاطر داریاں ہوتی ہیں، طرح طرح کے کھانے پیش کئے جاتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نمبردار صاحب کو یہ گوارا نہیں کہ ان کے عزیز نیلے کے گلے میں رسی باندھی جائے۔ تو نیلا صاحب گائوں کی گلیوں میں بے مہار گھومتے ہیں۔ کسی پھل والے کے پاس پہنچے، آدھے پھل کھا لئے باقی خراب کئے۔ نیلا صاحب موج میں آئے تو کسی غریب دھوبن کی کٹیا کو دوچار ٹکروں سے بکھیر کر رکھ دیا۔ پھل والا غریب فریاد لے کر پہنچا تو نمبردار کے حکم سے اس پر جوتا کاری کی گئی۔ نیلا کی شکایت کرنے کا مطلب تو یہ ہے کہ نمبردار صاحب پر انگلی اٹھائی جا رہی ہے۔ لمبی کہانی ہے اور انجام یہ کہ نیلا صاحب کی طاقت ایسی بڑھی کہ ایک روز انہوں نے خود نمبردار صاحب کے گھرانے ہی کو سینگوں پر رکھ لیا۔ کئی برس پہلے جب یہ کہانی پڑھی تو خیال آیا کہ ہندوستانی افسانہ نگار نے ہو نہ ہو پاکستان کے حالات پر چھینٹا کسا ہے۔ پندرہ برس پہلے کے پاکستان میں نمبردار صاحب کی شکل و صورت پہچاننا بھی آسان تھا اور نیلے کی پھنکار بھی برابر سنائی دیتی تھی لیکن اب یہ مشکل آن پڑی ہے کہ ’نمبردار کا نیلا‘ جیسی سادہ حکایت کی تشریح ایسی آسان نہیں رہی۔ وزیراعظم میاں نواز شریف کے دورۂ امریکہ ہی کو لیجئے۔ تاریخ کے اس اہم موڑ پر اس دورے کے نتائج پاکستان امریکہ تعلقات کی صورت گری تو کریں گے اس سے کہیں زیادہ اہم یہ ہے کہ اکتوبر کے تیسرے ہفتے میں کئے جانے والے فیصلوں پر عملدرآمد سے پاکستان کا آئندہ نقشہ بھی مرتب ہو گا۔ ہم ایک دوراہے پر ہیں۔ اسے حسن اتفاق ہی کہئے کہ پاکستان پچھلے ساٹھ برس سے دوراہے ہی پر رہا ہے اور اگر کبھی ہم نے ایک راستے کا انتخاب کیا بھی تو یہ دانش اور منطق سے انحراف کا راستہ تھا۔
میاں نواز شریف کے دورے سے کچھ مثبت نتائج برآمد ہوئے۔ پہلی بات تو یہ پاکستان امریکہ تعلقات میں 2011کے بعد سے جو سردمہری پیدا ہوئی تھی، اس کے ختم ہونے کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ فوجی امداد بحال ہوئی ہے۔ کیری لوگر بل کے باقی ماندہ ڈیڑھ ارب ڈالر جاری کئے گئے۔ پچھلی سہ ماہی میں آئی ایم ایف سے امداد کے جو معاملات طے پائے ان میں بھی امریکی اشارہ ابرو کارفرما تھا مگر درون خانہ سنائی دینے والی آوازوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ نمبردار کا نیلا اس پیشرفت پر خوش نہیں۔ نیلا صاحب یہ چاہتے تھے کہ وزیراعظم نوازشریف وائٹ ہائوس تشریف لے جائیں تو صدر اوباما سے ایک تمسک لکھوا کر اٹھیں۔ ایک تو یہ کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے حقوق ملکیت پاکستان کو منتقل کر دئیے جائیں۔ دوسرے یہ کہ محترمہ عافیہ صدیقی واپسی کے سفر میں وزیراعظم کے جہاز میں پاکستان آجائیں اور تیسرے یہ کہ امریکہ پاکستان کے تمام اسکول، اسپتال، سڑکیں وغیرہ تعمیر کرانے کی ذمہ داری لے۔ اگرچہ ہم 1976ء سے 1998ء تک پوری سنجیدگی سے یہ اعلان کرتے رہے کہ ہمارا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کے لئے ہے لیکن ہم بوجوہ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لئے ایٹمی صلاحیت بروئے کار نہیں لا سکتے لہٰذا سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی پر تعاون بھی امریکہ کی ذمہ داری ہے تاکہ اہل پاکستان کو بجلی کی بلاروک فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ نواز شریف صاحب یہ معمولی مطالبات منوانے میں ناکام رہے لہٰذا ثابت ہو گیا کہ سیاسی قیادت قومی مفادات کا کماحقہ تحفظ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
دورے کے اختتام پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے کم از کم تین مرتبہ کہا کہ ہمیں اپنے گھر کے حالات ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک اہم اعلان تھا۔ ہمارا بنیادی مسئلہ ملکی معیشت کو درست دھڑے پر ڈالنے کا ہے۔ دنیا کا کوئی ملک اس ضمن میں کسی ملک کی مدد نہیں کر سکتا۔ یہ نعرہ بہت خوش کن ہے کہ ہمیں ایڈ یعنی امداد نہیں چاہئے ہم ٹریڈ یعنی تجارت چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تجارت طلب و رسد کے اصول پر کام کرتی ہے۔ اگر منڈی میں ایسی اشیا پیدا ہو رہی ہیں جو صارف کی ضرورت ہیں تو صارف کو بندوق دکھا کر سودا فروخت کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ ہمارا صنعتی اور پیداواری شعبہ کمزور ہے۔ ہمارا انسانی سرمایہ عالمی معیارات پر پورا نہیں اترتا۔ ایسے میں تجارت کا مطالبہ بھی دراصل امداد ہی کے ضمن میں آتا ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے حجم اور اقتصادی کس بل میں کوئی مناسبت نہیں۔ ایک دنیا کا طاقتور ترین ملک ہے جس کے تعلیمی اداروں میں دنیا کے بہترین دماغ پیدا ہوتے ہیں۔ دوسرا ایک ترقی پذیر ملک ہے جہاں درس گاہوں سے القاعدہ کے کارکن گرفتار ہوتے ہیں۔ ہم نے روز اول سے طے کر رکھا ہے کہ قوم کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے بجائے دوسروں کے کندھوں پر سواری کریں گے۔ ملک ہمارا ہے لیکن اسے چلانے کی ذمہ داری کوئی اور اٹھائے تو بہتر ہے۔ ہم تو بس اس قابل ہیں کہ ہم سے دنیا کی امامت کا کام لیا جائے۔ یوں تو چین اور سعودی عرب کے بارے میں بھی ہمارے خیالات بین الاقوامی تعلقات کے معروف اصولوں سے ہٹے ہوئے ہیں لیکن امریکہ سے ہماری دوستی ایک اور ہی رنگ رکھتی ہے۔ پہلے ہم نے اعلان کیا کہ ہم سوویت یونین اور ہندوستان کے بیچ میں سد سکندری کی حیثیت رکھتے ہیں سو ہمارے ناز اٹھائے جائیں۔ سیٹو اور سینٹو میں ہم شامل ہوئے۔ کمیونسٹوں کے خلاف دفاع کے لئے جو ہتھیار ملے وہ ہم نے معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 65ء کی لڑائی میں استعمال کئے۔ ہتھیاروں کی رسد رکی تو ہم ناراض ہو گئے۔ 1971ء میں پاکستان شدید بحران کا شکار تھا مگر ہم لقا کبوتر کی طرح سینہ پھلائے پھرتے تھے کہ ہم نے چین اور امریکہ کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔اب امریکہ ہمارا ساتھ دے گا۔ پاکستان ٹوٹ گیا اور ساتواں امریکی بیڑہ خلیج بنگال میں زلیخائی کرتا رہا پھر ہم افغانستان میں دس برس ’اخلاقی اور سفارتی‘ مدد دیتے رہے۔ تب کسی کو خیال نہ آیا کہ پاکستان کی سڑکیں اور مواصلات کا نظام تباہ ہو رہے ہیں ۔ مشن مکمل ہو گیا۔ روسی افغانستان سے اور امریکی اس خطے سے رخصت ہو گئے۔ ہم سے درخواست کی گئی کہ صاحب سرد جنگ ختم ہوئی۔ تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے۔ مگر ہمارے ہاتھ تو سونے کی چڑیا لگ گئی تھی۔ ہم نے مجاہدین کو سایہ عاطفت میں لے لیا۔ ان کی ناز برداریاں کیں۔اپنا سیاسی اور تمدنی دامن دھجی دھجی کر لیا۔ پھر 11ستمبر 2001ء ہوا ۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم دہشت گردی کا بارودی تھیلا دنیا کی آنکھوں کے سامنے لہراتے رہیں گے اور چین کی بانسری بجائیں گے۔ایسا نہیں ہو سکا ۔ ہم دست نگری اور محتاجی کی منطق کے آخری کنارے پر آ پہنچے ہیں۔ دنیا کو احساس ہے کہ ہمارے آنگن میں بہت سا خون بکھرا ہے لیکن وہ یہ بھی جانتی ہے کہ ہم نمبردار کے نیلے کو مسلسل چمکارنے میں لگے ہیں۔ میاں نواز شریف ٹھیک کہتے ہیں۔ ہمیں اپنے گھر کے حالات ٹھیک کرنا ہیں۔ اس میں نکتے کی بات ایک ہی ہے۔ گھر کے صحن میں نیلا صاحب دندنا رہے ہوں تو گھر کے حالات ٹھیک نہیں ہوا کرتے۔
تازہ ترین