وزیرِ اعظم شہباز شریف لاپتہ افراد کے کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے کٹہرے میں کھڑے ہوئے، جہاں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں لاپتہ افراد کیس آئین توڑنے کے مترادف ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ عدالت آئین اور قانون توڑنے والوں کو ذمے دار سمجھتی ہے، اگر آئین کی پامالی ہوتی ہے تو ہر کوئی اس کا ذمے دار ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کو لاپتہ کرنا ٹارچر کی سب سے بڑی قسم ہے، ایسا تاثر نہیں ہونا چاہیے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے شہریوں کو اٹھاتے ہیں، یہ تاثر ہماری نیشنل سیکیورٹی کو متاثر کرتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جب ریاست آ کر بتاتی ہے کہ ہمیں نہیں پتہ کہ لوگ کس نے لاپتہ کیے، پھر کیا کریں؟
انہوں نے کہا کہ جبری گمشدگیاں آئین سے انحراف ہے، یا تو آپ کو کہنا پڑے گا کہ آئین اس کی اصل شکل میں بحال نہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللّٰہ نے پرویز مشرف کا نام لیے بغیر کہا کہ ایک چیف ایگزیکٹیو نے اس ملک پر 9 سال حکمرانی کی، انہوں نے اپنی کتاب میں فخریہ لکھا کہ اپنے لوگوں کو بیرونِ ملک فروخت کیا، اس سےلگتا ہے کہ شاید یہ ریاست کی پالیسی تھی۔