• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

چھجو بھگت کے چوبارے کے بارے میں صرف کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) کے وہ طلبا و طالبات ہی جانتےہیں جو آج سے پچاس سال پہلے یہاں زیرتعلیم تھے ، خواتین کی ایک رفاہی تنظیم کے زیرِاہتمام شمس شہاب الدین بلاک کی تعمیر کی وجہ سے یہ تاریخی جگہ بری طرح تباہ و برباد ہوگئی۔ حالانکہ میواسپتال کے اندر بیشمار جگہ خالی پڑی تھی وہاں اس بلاک کو بنایا جا سکتا تھا بلکہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اس چوبارے کو بالکل ختم کرنے کی باتیں ہورہی تھیں۔ آج صرف یہ گرائونڈ فلور پر ایک کمرے کی صورت میں رہ گیا ہے،اس کے نقش و نگار اور طرزتعمیر بہت خوبصورت ہے، ہم تو خیر کئی مرتبہ چھجو بھگت کے چوبارے میں جاچکے ہیں۔ ایک دور ایسا بھی گزرا ہے کہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) کا شاید ہی کوئی ا سٹوڈنٹ ایسا ہو جو چھجو بھگت کے چوبارے میں نہ گیا ہو۔ چھجو بھگت کے حضرت میاں میرؒ سے گہرے مراسم تھے وہ اکثر ان کی محفل میں جایا کرتا تھا۔ چھجو بھگت کا یہ چوبارہ ان کی زندگی میں ہر مذہب اور فرقے کے لوگوں کے لئے ایک بیٹھک کی حیثیت رکھتاتھا۔ جہاں ہرطبقۂ فکر کے لوگ آ کر بیٹھا کرتے تھے۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بڑے فقیر کامل تھے جب میواسپتال تعمیر نہیں ہوا تھا تو چھجو بھگت کا باغ اور مکان شاہ عالمی دروازے سے باہر تھا۔ یہ وہ ہی شاہ عالمی دروازہ ہے جو 1947ء تک اپنی اصل شکل و صورت میں قائم تھا۔ 1947ء کے فسادات میں ایک ہندو تاجر نے کہا تھا کہ جو مسلمان شاہ عالمی کے اندر مکانات کو آگ لگا ئے گا، میں اس سے اپنی بیٹی کا رشتہ کردوں گا۔ ویسے تو پاکستانی فلم انڈسٹری کی ایک معروف فلم اسٹار شمیم آرا نے بھی کہا تھا کہ جو مقبوضہ کشمیر پر پاکستانی پرچم لہرائے گا میں اس سے شادی کر لوں گی۔ خیر دو مسلمانوں نے (گٹر) مین ہول کے راستے داخل ہو کر شاہ عالمی دروازے اور مکانات کو آگ لگا دی۔ شاہ عالمی میں قیام پاکستان سے قبل بے شمار ہندو اور سکھ رہا کرتے تھے جب کہ کچھ گلیاں، کوچے ایسے تھے جہاں ایک بھی مسلمان نہیں رہتا تھا۔ آج بھی لاہور میں کئی کوچے گلیاں، ہندوئوں اور سکھوں کے نام پر ہیں۔ چھجو بھگت کا چوبارہ کبھی دو منزلہ تھا اور دور سے نظر آیا کرتا تھا۔ میو اسپتال کی تعمیر کے بعد بھی چھجو بھگت کا چوبارہ بہت بڑا اور وسیع تھا۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج(اب یونیورسٹی) کے طلبہ اپنے فارغ اوقات میںاس چوبارے پر آ کربیٹھا کرتے تھے اور یہ ان کا ایک طرح کا کلب تھا ، ہم اگر یہ کہیں کہ چھجو بھگت کا چوبارہ لاہور کا پہلا کلب تھا تو غلط نہ ہوگا کیونکہ چھجو بھگت کے پاس بھی ہر مذہب اور فرقے کے لوگ بیٹھاکرتے تھے اور علمی و ادبی بات بھی کرتے تھے اور اس سے دعا بھی کراتے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ اپنی رحلت سے ذرا پہلے چھجو بھگت اپنے حجرے میں چلا گیا اور سیڑھی اوپر کھینچ لی پھر اس کا کسی کو پتہ نہ چلا لہٰذا اس کی سمادی بنا دی گئی۔ ہمیں یاد ہے کہ اسپتال کا مرکزی دروازہ گوالمنڈی کی جانب والا ہوتا تھا اور اسی راستے سے گاڑیاں اور لوگ آیا کرتے تھے کیونکہ میو اسپتال کی ایمرجنسی اس دروازے کے قریب ہوا کرتی تھی۔ ایمرجنسی بھی کیا تھی، ٹین کی چھت تھی۔ اب اس جگہ پر سرجیکل ٹاور ہے اور یہیں پر میواسپتال کے ان ڈور میں جانے والا مین ہال ہے جو آج بھی اپنی قدیم صورت میں برقرار ہے۔ اس کے دائیں بائیں دو سیڑھیاں اوپر نیچے جانے کے لئے ہیں اور درمیان میں لارڈ میو کا مجسمہ رکھا ہوتا تھا جو کسی سابق میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے غائب کرا دیا تھا۔ میو اسپتال کا ایک دروازہ دھنی رام روڈ کی جانب بھی ہے ،کسی زمانے میں گوالمنڈی اور دھنی رام روڈ والا دروازہ ہی کھلا کرتا تھا لیکن جب انارکلی اور دھنی رام روڈ کے تاجروں نے یہاں سے آنا جانا شروع کر دیا تو میواسپتال کی انتظامیہ نے یہ دونوں دروازے بند کرا دیئے اب صرف ان دونوں دروازوں سے لوگ پیدل گزر سکتے ہیں۔ میو اسپتال کا تیسرا دروازہ نیپئر روڈ پر، چوتھا اور پانچواں دروازہ رتن چند روڈ پرہے۔ کبھی بانساںوالا بازار کے قریب رتن چند کا تالاب اور دھوبی گھاٹ بھی ہوا کرتا تھا۔ اس کے قریب نمک منڈی بھی ہے جہاں پر کبھی سڑک پر نمک کے بڑے بڑے پتھر پڑے ہوتے تھے۔ بانساںوالا بازار میں بانس کی سیڑھیاں اور بانس سے بنی ہوئی اشیاء کی بہت بڑی مارکیٹ ہوا کرتی تھی۔ اس بانساں والا بازار کے عقب میں آج بھی کئی قدیم مکانات موجود ہیں، ہماری حکومت اگران قدیم مکانات کے فنِ تعمیر کو محفوظ کر لے اور ان کی تھوڑی بہت مرمت کرا دے تو یقین کریں کہ یہ قدیم مکانات دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ لاہور شہر کے اندر کئی کوچے، بازار، احاطے، کٹٹریاں اور علاقے ہیں جن کے بڑے دلچسپ نام ہیں، مثلاً کوچہ جھنڈے خاں، چکلہ چوک، کوچہ چابک سواراں، کوچہ کمبوہاں، بھائیاں والا میدان، چوک دالگراں، پاتھی گرائونڈ،احاطہ بخش رام۔

لاہور کا ایک تاریخی پاتھی گرائونڈ تھا، جس کو بقول کرنل قدیر بٹ کے باغ رانجھا بھی کہتے تھے۔ پاتھی گرائونڈ جو کہ ریلوے پولیس لائن کے ساتھ تھا، یہاں کسی زمانے میں ریلوے پولیس کے ملازمین تربیت بھی کیا کرتے تھےویسے اس کے قریب ہی پولیس لائن قلعہ گوجر سنگھ بھی ہے۔

پاتھی گرائونڈ میں گلی ڈنڈا، کرکٹ، تن سازی، فٹ بال، اکھاڑہ اور کئی دیگر کھیلوں کے مقابلے بھی ہوتے تھے۔ اتوار کے روز پاتھی گرائونڈ میں ہر عمر کے لوگوں کا میلہ ہوا کرتا تھا۔ یہ ایک ایسا گرائونڈتھا جہاں ہر عمر کے لوگ آتے اورمختلف تفریحی سرگرمیوں میں حصہ لیتے۔ یہ پاتھی گرائونڈ قیام پاکستان سے قبل کا تھا۔ پھر حسب ِروایت قبضہ مافیا نے قبضہ کرنا شروع کر دیا اور ہمارے دیکھتے دیکھتے یہ قدیم پاتھی گرائونڈ ختم ہوگیا۔(جاری ہے)

تازہ ترین