لاڈلا بچہ عموماً اسے کہتے ہیں کہ وہ جو چاہے کوئی بھی نقصان کرے ، کتنی بھی الٹی فرمائش کیوں نہ کرے، ماں باپ بیچارے مارے الفت کے سب ماننے کو تیار ہوں۔ ڈانٹ ڈپٹ سے پرہیز کریں ، اس کوسزا دینے سے اجتناب کریں ، اس کی غلطیوں پر پردہ ڈالیں، اس کی خامیوں کو اپنے سر لے لیں۔ ایسے ماں باپ باقی بچوں کی تادیب توکرتے ہیں مگر لاڈلے کو اس کی تمام تر خامیوں کے باوجود گود میں بٹھاتے ہیں، لاڈ کرتے ہیں، نخرے اٹھاتے ہیں ۔
دیکھنے میں تو عموماًیہی آیا ہے کہ لاڈلے بچے بدتمیز ہوتے ہیں ، کسی کی بات نہیں سنتے ، نہ بڑوں کا ادب کرتے ہیں نہ کسی اور کا لحاظ کرتے ہیں،من مانی کرتے ہیں۔ گالم گلوچ ، مارکٹائی سے بھی اجتناب نہیں کرتے ۔ جھوٹ بھی بولتے ہیں، الزام بھی لگاتے ہیں.....عمران خان بھی اس ملک اور اس ریاست کے لاڈلے ہیں۔ جو الفت بھرا سلوک ان کے ساتھ کیا جاتا رہا ہے، اس کی مثال تاریخ پاکستان میں نہیں ملتی، ان کی کسی حرکت پر کوئی پابندی نہیں۔ وہ جو چاہیں کریں آخر میں ان کے مائی باپ ان سے ُدلارہی کر رہے ہوتے ہیں۔
جو سلوک اس ملک میں باقی سیاستدانوں کے ساتھ ریاستی اداروں نے روا رکھا ہے اس کا پاسنگ بھی ابھی تک عمران خان کے ساتھ نہیں ہوا۔ ہم نے اس ملک کی تاریخ میں کیا کچھ ہوتے نہیں دیکھا ۔اس ملک میں سیاستدانوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا۔ پھانسی پر چڑھا دیئے گئے ، قتل ہوئے، بم دھماکوں میں مار دیئے گئے ، وطن بدر ہوئے ، غداری کے الزام لگے ، کفر تک کے فتوے لگے۔ جیلوں میں مویشیوں کی طرح ڈال دیا گیا۔
دوسری جانب عمران خان ہیں جنہیں گویا ہرطرح کی معافی اور اجازت ہے۔ آپ اگران کے اوپر لگے الزامات کا مقابلہ دوسرے سیاستدانوں سے کریں تو زمین آسمان کا فرق ہے۔ یوسف رضا گیلانی اپنی وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھو بیٹھے مگر کسی کے کلیجے کو ہاتھ نہ پڑا، کسی منصف کی آنکھ پرنم نہ ہوئی ، کسی قاضی کا دل نہ پسیجا ۔ اب تماشا یہ ہے کہ درِ انصاف خان صاحب سے متمنی ہے کہ معافی مانگ لیجئے لیکن ان کی صحت پر کوئی فرق ہی نہیں پڑ رہا ۔ ماضی میں بھی یہی ہوا۔ دو ہزار تیرہ میں بھی توہینِ عدالت عمران خان پر کارگر نہیں ہوئی تھی ۔ امسال پچیس مئی کو بھی ایوان ِانصاف سے آواز آئی کہ ہو سکتا ہے عدالت کا حکم عمران خان کی سماعتوں سے ٹکرایا ہی نہ ہو!اسی پر کیا موقوف ہر جگہ عمران خان لاڈلے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میڈیا کئی برس ان کی توصیف پر ماموررہا ۔ کسی نےزبان کھولی تو نوکری سے گیا۔ کسی نے زیادہ حق گوئی کی کوشش کی تو گولیوں ، اغوا، قیداور تشدد کا مستحق قرار پایا۔ ہر زمانے میں ، ہر حکومت کے قصیدہ خواں ہوتے ہیں مگر ایک میڈیا گروپ کو چھوڑ کر پورے کا پورا میڈیا ہی ایک لاڈلے کی خدمت میں جت گیا، اس کی مثال نہیں ملتی۔
جب وزارت عظمیٰ کی مسند پر براجمان تھے تب بھی بس جنبشِ ابرو سے فرمائش کرتے تھے اور سب کام ہو جاتے تھے۔ کون سا بل منظور کروانا ہے ؟ جہاں پناہ کو کتنے بندوں کے اجلاس میں حاضری درکار ہے؟ کس کو الیکشن جتوانا ہے ، کس کے ووٹ غائب کرنے ہیں ،بس فرمائش کرنی پڑتی تھی اور پھر ہر رستہ کھلتا چلا جاتا تھا ۔
اب کہنے کو تو پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا مگر لاڈلے کی روایت قائم ہے۔ اب بھی درونِ خانہ ان کے چاہنے والے بہت ہیں۔ ان کی ہر فرمائش پوری کرنے والوں کی اب بھی کمی نہیں ہے۔ لیکن اب ان کی فرمائشیں ایسی ہو رہی ہیں جن پر عمل کروانا مائی باپ کے بس کا روگ نہیں رہا ۔ اب کون امریکہ سے حقیقی آزادی انہیں دلوائے ، آئی ایم ایف کو کون سمجھائے کہ خان صاحب کے دور اقتدار کے بارے میں سچ بولنے سے پرہیز کرے۔ کون عدالتوں سے فارن فنڈنگ والے کیس کوختم کرائے۔
دیکھا یہی گیا ہے کہ جو ماں باپ اپنے بچوں کو لاڈلا بناتے ہیں وہ عموماً نقصان میں رہتے ہیں ۔ ایسے بچے ایک حد کے بعد ماں باپ پر ہی الزام لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔ ان کی بنی بنائی عزت کی لاج نہیں رکھتے۔ ایسے میں ماں باپ کے پاس یہ کہنے کا بھی چارہ نہیں رہتا کہ’’ بچہ ہے بڑا ہو کر سنبھل جائے گا‘‘ کیونکہ بچے کے سنبھلنے تک گھر کی ہر کل بگڑ چکی ہوتی ہے۔ عمران خان ہیجان میں اتنے آگے بڑھ چکے ہیں کہ اب انہیں کسی کا پاس نہیں۔ وہ ہر چیز کو روندتے ہوئے ہوسِ اقتدار میں آگے بڑھ رہے ہیں ۔ اب نہ ان کو اپنے محسنوں کا پاس ہے، نہ مائی باپ کا خیال ہے، نہ وہ آئین جیسی چیزوں کی پروا کرتے ہیں، نہ قانون ان کا راستہ روکتا ہے،نہ عوام کا درد ان کے دل میں جاگتا ہے، نہ سیلاب کی تباہ کاریاں ان کو انتشار سے باز رکھ سکتی ہیں ، نہ معیشت کی بدحالی ان کو نفاق پھیلانے سے روک سکتی ہے۔
اب اگر لاڈلے کی نافرمانیاں اسی طرح جاری رہیں تو وہ دن دور نہیں جب باپ سرزنش کرے گا اور ماں اس کے وجود پر ہی آنسو بہائے گی کیونکہ اب خدشہ یہ ہو چلا ہے کہ اگراس نےاس گھر کو ہی آگ لگا دی توسب پچھتاوے کی راکھ کرید رہے ہوں گے۔