اقصیٰ منوّر ملک، صادق آباد
دروازہ ہلکی سی چرچراہٹ کے ساتھ کُھلتا چلا گیا۔ اُس نے ایک قدم نہیں، جیسے سالوں کا فاصلہ طے کیا تھا۔ سب کچھ ویسا ہی تھا، جیسا وہ ڈھائی سال پہلے چھوڑ کر گئی تھی۔ کمرا بالکل صاف سُتھرا ، ہر چیز قرینے سے رکھی ہوئی تھی۔ جیسے، اسے یوں ہی نہیں چھوڑا گیا، خاصی دیکھ بھال کی گئی تھی۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی آگے بڑھی، کمرے کے اطراف میں الماریاں تھیں، جن میں مختلف کتابیں سلیقے سے رکھی تھیں۔ سامنے کی دیوار پر اس کی مختلف چیزوں کو فریم کروا کر لگایا گیا تھا۔
وہ سامنے آکھڑی ہوئی۔ اس کی پہلی کہانی، جو بچّوں کے ایک ماہ نامے میں شایع ہوئی تھی اور بابا جان نے اسے فریم کروایا تھا۔ اسے وہ سارا منظر یاد آگیا۔ ’’بابا جان… امّاں جان…! جلدی سے آئیں… امّاں… بابا… یہ دیکھیں…‘‘ وہ بھاگتی، شور مچاتی پورے گھر میں گھوم رہی تھی۔ ’’کیا ہو گیا، کیوں پورا گھر سر پر اُٹھا رکھا ہے؟‘‘ امّاں اپنے دوپٹے کے پلّو سے گیلے ہاتھ صاف کرتی کچن سے باہر نکلیں۔ ’’اماں! دیکھیں رسالے میں میری کہانی چَھپی ہے۔‘‘
اُس نے پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ رسالہ آگے کرتے ہوئے کہا۔ ’’اوئے، پگلی نہ ہو تو… شور تو یوں مچا رہی ہے، جیسے چاند کی سیر کر آئی ہو۔‘‘امّاں نے ہنستے ہوئے کہا، تو اس نے منہ بسورلیا۔ ’’ارے میری بیٹی کی کہانی شایع ہوئی ہے، کوئی چاند پہ گھوم کر آنے سے چھوٹی بات تھوڑی ہے۔ میری بیٹی تو ہے ہی اتنی ذہین، قابل، میرا فخر ہے میری بیٹی۔‘‘ بابا نے پیار سے کہتے ہوئے اس کی پیشانی پر بوسا دیا، تو وہ سرشار سی ہو گئی۔
سامنے والی دیوار پر اس کی پہلی کہانی، پہلا افسانہ لگا تھا، جب کہ میڈلز، شیلڈزایک ریک میں سجے تھے اور الماری میں اُن رسالوں کا ڈھیر تھا، جن میں اس کی کہانیاں اور مضامین شایع ہوئے تھے۔ وہ نم آنکھوں سے ایک ایک چیز دیکھتی رہی، پھر کمرے میں بائیں جانب رکھی اپنی اسٹڈی ٹیبل کے پاس آکھڑی ہوئی۔ پیپرز، لیٹر ہیڈز اور ڈھیر سارے قلم رکھے تھے، جو اس نے بڑی محنت سے جمع کیے تھے اور کئی اسے تحفے میں ملے تھے۔ اس نے دراز کھولی، جہاں فائلز میں رکھی ادھی ادھوری کہانیاں تکمیل کی منتظر تھیں۔ اس نے اُنہیں ایک نظر دیکھا اور دوبارہ وہیں رکھ کر کُرسی پر بیٹھ گئی۔ گزرا وقت کسی فلم کی طرح اس کے سامنے چل رہا تھا۔
گھر، بریانی اور چپلی کباب کی خُوش بُوؤں سے مہک رہا تھا۔ امّاں بڑی دیر سے کچن میں مصروف تھیں۔ اس نے بیسیوں مرتبہ اس اہتمام کا سبب پوچھا، لیکن انہوں نے کچھ نہیں بتایا۔ شام کو بابا جان گھر آئے، تو ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبّا تھا اور بھیّا اس کی پسندیدہ مینگو آئس کریم لائے تھے۔ ’’میری بیٹی نے میٹرک فرسٹ ڈویژن سے پاس کیا ہے، جشن تو بنتا ہے۔‘‘ بابا جان نے اسے مٹھائی کِھلاتے ہوئے کہا۔’’آج تو ہماری بٹیا رانی جو مانگے گی، ہم اسے ضرور دلوائیں گے۔‘‘ بابا جان کی خوشی کا تو جیسے کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا۔ ’’دیکھتے ہیں ضاحکہ کیا مانگتی ہے…‘‘ بھیّا نے متجسّس انداز میں کہا۔
’’بابا! آپ مجھے کراچی لے کر چلیے …‘‘ اس نے بڑےلاڈ سے کہا۔’’ہاں، ہاں کیوں نہیں، ہم ضرور اپنی لاڈو کو کراچی لے کر جائیں گے۔ وہاں سمندر دیکھنا، گھومنا پِھرنا، خوب مزے کرنا۔‘‘ بابا کہاں اُس کی بات ٹالنے والے تھے۔ ’’کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ وہ تو ہے ہی پگلی اور آپ بھی اس کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔‘‘ امّاں نے بابا کے ساتھ اسے بھی ڈانٹا۔ ’’نہ میری دھی! لڑکیاں یوں لُور لُور نہیں پھرا کرتیں۔‘‘
امّاں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ ’’بابا…‘‘ اُس نے احتجاج کیا۔ ’’ہاں، ہم ضرور اپنی بیٹی کو کراچی لے کر جائیں گے، بلکہ ہم سب چلیں گے۔‘‘ بابا نے اعلان کیا، تو وہ ان سے لپٹ گئی، بھیّا اور امّاں بھی مُسکرا دئیے۔ البتہ یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ سمندر دیکھنے سے زیادہ کتابوں کا جہان، اُردو بازار دیکھنے کی شوقین تھی۔ وہ تو کراچی جانا ہی اس لیے چاہتی تھی کہ اُردو بازار جا سکے، وہاں سے ڈھیروں ڈھیر کتابیں خرید سکے۔ اور یہی ہوا، جب وہ لوگ کراچی گئے، تو ضاحکہ واپسی میں بےشمار کتابیں بھی ساتھ لائی۔
وقت پَر لگائے اُڑتا رہا۔وہ جوان ہوگئی۔ بھیّا کی شادی میں وہ چہکتی پِھر رہی تھی، تب ہی اس کی بھابھی کی خالہ کو اپنے لائق فائق بیٹے، عادل کے لیے وہ پسند آگئی۔ بات آگے بڑھی، امّاں ابا نے ضروری چھان بین اور سوچ بچار کے بعد اسے عادل سے منسوب کر دیا۔
لیکن ضاحکہ کی حرکتیں اور عادتیں بالکل نہیں بدلیں، وہی کالج سے آکر کمرے سے ملحق اپنی لائبریری میں چلے جانا اور گھنٹوں مطالعہ کرتے رہنا۔ بھابھی اکثر شکوہ کرتیں کہ ’’تم تو ذرا دیر ہمارے پاس نہیں بیٹھتیں۔‘‘تو وہ ’’بھابھی! ایسا کریں آج آپ میرے ساتھ میرے روم میں چلیں، ہم دونوں مل کر کتابیں پڑھیں گے۔‘‘
کہہ کر اُنہیں بھی اپنے کمرے میں لے آتی۔ ’’لیجیے بھابھی! آپ ’’پیار کا پہلا شہر‘‘ پڑھیں بلکہ ایسا کریں ’’شہاب نامہ‘‘ پڑھ لیں، یہ کتاب مجھے بہت پسند ہے، اگر یہ نہیں، تو آپ ان میں سے کوئی بھی دیکھ لیجیے۔‘‘ وہ مسلسل بولے جا رہی تھی اور بھابھی کو ایک کے بعد ایک کتاب نکال کر دکھا رہی تھی۔
بھابھی نے ہنس کر اُسے اپنے ساتھ بٹھایا اور کہا، ’’بس کرو ضاحکہ، مجھے اگر کوئی کتاب پڑھنی ہوئی، تو مَیں تم سے لے لوں گی۔ فی الحال مجھے تم سے ایک بات کرنی ہے۔‘‘ ’’کیا ہوا بھابھی، خیریت تو ہے؟‘‘ وہ پریشان سی ہوگئی۔ ’’ضاحکہ! اب تم چھوٹی نہیں رہیں، بڑی ہو گئی ہو اور کچھ ماہ بعد تمہاری شادی ہو جائے گی۔ امّاں تمہاری وجہ سے بہت پریشان ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ تم گھر داری سیکھو۔ کل کو سُسرال جا کر کیا کروگی۔‘‘
بھابھی اسے پیار سے سمجھا رہی تھیں۔ ’’ہاں بھابھی!آپ بالکل صحیح کہہ رہی ہیں۔ اچھا، آپ اپنی خالہ جان سے کہیں ناں کہ وہ وہاں بھی ایسی الماریاں بنوالیں، آخر مَیں وہاں اتنی ساری کتابیں کیسے رکھوں گی؟‘‘ اس نے فکر مندی سے کہا، تو بھابھی نے اپنا سر پکڑ لیا۔ ’’آفرین ہے تم پر ضاحکہ! مَیں تمہیں کیا سمجھا رہی ہوں اور تم ابھی تک ان کتابوں میں اُلجھی ہوئی ہو۔
ایسی فرمائشیں تو کسی لڑکی نے اپنے ہونے والے سُسرال نہیں پہنچائی ہوں گی…‘‘ وہ کِھلکھلا اُٹھی، اسے تو کتابوں کی دنیا ہی اچھی لگتی تھی، جہاں وہ اپنے تخیّل کی زمین پر کرداروں کو اپنی مرضی سے بساتی تھی۔ اس کے لاکھ پیچھا چھڑانے کے باوجود امّاں اور بھابھی نے زبردستی اسے گھر کے کاموں میں ساتھ لگا ہی لیا۔
ضاحکہ کی شادی کو ڈھائی سال ہو چُکے تھے، اُس نے پورا گھر سنبھال لیا تھا۔ لیکن کتابوں سے عشق کم نہ ہوا تھا۔ جب وہ گھر کے کاموں سے فارغ ہو کر کوئی کتاب پڑھنے بیٹھتی تو ساس اسے کسی نہ کسی کام میں لگا دیتیں۔رات میں پڑھنے لگتی، تو عادل کتاب لے کر رکھ دیتے۔ ضاحکہ کو تو کتابوں کے بغیر رہنے کی عادت ہی نہیں تھی، وہ بُجھی بُجھی سی رہنے لگی۔ بابا اس سے ملنے آئے، تو ساتھ وہ میگزینز بھی لے آئے جن میں اس کی کہانیاں شایع ہوئی تھیں۔
شام میں عادل گھر آئے، تو اس نے انہیں وہ رسالے دکھائے۔ ’’دیکھیےعادل! میری کہانیاں…‘‘ اس سے قبل کہ وہ کچھ اور کہتی، عادل نے رسالے اُٹھا کر ٹیبل پر پٹخ دیئے۔ ’’کیا ہر وقت بس کتاب لیے بیٹھی رہتی ہو…اٹھائو یہ سب میرے سامنے سے …‘‘ وہ غصّے میں کمرے سے چلا گیا اور ضاحکہ حیران و پریشان اُسے جاتا دیکھتی رہ گئی۔’’بیٹا! عادل نے کچھ غلط نہیں کہا، یہ سب تو شادی سے پہلے کے چونچلے ہوتے ہیں، شادی کے بعد لڑکی کی پہلی ترجیح اس کا گھر، اُس کا شوہر ہوتا ہے، تم بھی اُس پر توجّہ دو، اپنی ترجیحات اور عادتیں بدلو۔ اور ہاں، اپنے میکے جائو، تو یہ سب وہیں چھوڑ آنا۔ مجھے خود بھی یہ پڑھنا پڑھانا کچھ زیادہ پسند نہیں۔‘‘ ساس اُسے سمجھانے کے ساتھ، تنبیہ بھی کر گئیں۔ ضاحکہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی سی بہہ نکلی۔
’’ضاحکہ…!!‘‘ بھابھی کی آواز پر وہ جیسے ہوش میں آگئی۔ ان باتوں کی چبھن وہ ابھی تک محسوس کر رہی تھی، جبھی تو آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔ بھابھی سے کچھ بھی چُھپا نہیں تھا۔ ’’امّاں بلا رہی ہیں تمہیں۔‘‘ اس کے آنسو پونچھتے ہوئے انہوں نے اُس کے ہاتھ سے میگزین لیا اور واپس ٹیبل پر رکھ دیا۔ اور، ضاحکہ بھی اپنی بیتی یادوں کے ساتھ خود کو سمیٹتی باہر نکل آئی۔ اسے اب حقیقت کی دنیا کے تلخ تجربات کا سامنا کرنا تھا۔
وقت گزرتا گیا اور ضاحکہ ایک بیٹی کی ماں بن گئی۔’’بابا! دیکھیں، یہ کہانی کتنی اچھی ہے۔‘‘ عادل اپنا کام چھوڑ کر مشعل کی طرف متوجّہ ہوئے۔ وہ اسے بچّوں کا کوئی رسالہ دکھا رہی تھی۔ ’’ہاں بھئی، ضرور پڑھیں گے، ہماری پَری کو جو پسند آئی ہے۔‘‘ عادل نے بیٹی کو کہانی سُنانی شروع کی۔
دادی تو اس پر جان چھڑکتی تھیں، آخر مشعل ان کے خاندان کی پہلی لڑکی جو تھی۔ ’’بابا! یہ رسالہ میری سہیلی کے گھر آتا ہے، آپ میرے لیے بھی لگوا دیں، پلیز…‘‘ وہ لاڈ سے فرمایش کر رہی تھی۔ ’’ہاں،ہاں کیوں نہیں، بلکہ عادل ایسا کرو کہ بچّوں کے مزید دو، تین رسالے بھی لگوا دو۔دیکھو، ہماری گڑیا کو مطالعے کا کتنا شوق ہے۔‘‘
دادی نے جیسے بیٹے کو حکم دیا۔ ’’ارے امّاں! مطالعے کا شوق تو اسے اپنی ماں سے وَرثے میں ملا ہے۔‘‘ عادل نے ہنستے ہوئے کہا۔’’کوئی ضرورت نہیں ہے کوئی رسالہ لگوانے کی، مشعل! لائو، یہ رسالہ مجھے دواور آیندہ تم کوئی کہانی وہانی نہیں پڑھو گی، سمجھ گئیں…؟؟‘‘ ضاحکہ نے اسے ڈانٹتے ہوئے رسالہ چِھین لیا۔’’کیوں ڈانٹ رہی ہو میری گڑیا کو؟ صرف رسالوں ہی کی تو فرمایش کر رہی ہے، مطالعہ کرنا کون سی بُری بات ہے۔‘‘
عادل نے مشعل کو پیار کرتے ہوئے کہا اور حیرت سے ضاحکہ کی طرف دیکھنے لگے کہ وہ اتنی سی بات پر اس قدر غصّہ کیوں کر رہی ہے۔ ’’مطالعہ کرنا بُری بات نہیں، لیکن آپ شاید بھول رہے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں بیٹی شادی کے بعد صرف نئے بندھن میں نہیں بندھتی، بلکہ پابندیوں میں بھی جکڑ جاتی ہے۔ اسے صرف اپنے والدین، اپنے بہن، بھائی نہیں، اپنی عادات، شوق بھی میکے چھوڑ کر آنے ہوتے ہیں۔
آپ تو اپنی بیٹی کے ناز نخرے اُٹھا رہے ہیں، اسے لاڈ پیار دے رہے ہیں، اِس کے مطالعے کی عادت آپ کی آنکھوں میں کھٹک رہی ہے، نہ امّاں کی، لیکن اگر اِسے بھی میرے جیسا ہی سُسرال مل گیا، تو پھر میری پھول سی گڑیا کیا کرے گی؟ مَیں نہیں چاہتی کہ میری بیٹی کو اپنی عادتیں بدلنی پڑیں کہ عادتیں یوں ہی نہیں بدلتیں، انہیں بدلنے کے لیے خود کو توڑ کر،پھر سے جوڑنا پڑتا ہے۔ سچ کہوں تو مَیں نہیں چاہتی کہ میری مشعل، دوسری ’’ضاحکہ‘‘ بنے۔‘‘ ضاحکہ کہے جارہی تھی اور عادل اور امّاں ایک دوسرے سے بھی نظریں چُرا رہے تھے۔