• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علامتی معاملات، معاملات کی حقیقی صورت کو سامنے لانے کے لئے بہت کارگر ہوتے ہیں ۔ کرکٹ میچ دنیا بھر میں منعقد ہوتے ہیں ۔ فتح و شکست بھی کھیل کا حصہ ہے ،ایشیز سیریز سے لے کر پاک بھارت میچ تک طرفين کے عوام کا جوش و خروش دیدنی ہوتا ہے مگر شکست کے بعد تصادم ،مارکٹائی! انتہائی دُکھ کے ساتھ ضبط تحریر میں لانا پڑ رہا ہے کہ افغانستان کے ساتھ کھیلنے کے بعد پاکستان کو بار بار اسی تلخ تجربے سے گزرنا پڑ رہا ہے جو پاکستان میں بھی عوام کے ذہنوں میں تشویش کا باعث بن رہا ہے۔ مجھے ان لبرل افراد سے کلام نہیں کہ جو موجودہ صورتحال کاقصوروارپاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیتےہیں کہ اس کی مداخلت کی وجہ سے افغانستان میں یہ معاندانہ جذبات پروان چڑھے ،حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے افغانستان کی عاقبت نا اندیشی کی بنا پر آج سارا خطہ عدم استحکام کا شکار ہے ۔

پختونستان کے نعرے سے لے کر ہر پاکستان مخالف شخص کو پناہ دینا اور پاکستان مخالف سرگرمیاں جاری رکھنے کا وطیرہ کس کو دکھائی نہیں دیتا ۔ یہاں تک کہ جب ظاہرشاہ کا تختہ ان کے کزن نے الٹ کر کمیونسٹ نواز حکومت قائم کی ، تب بھی انہوں نے اس حکمتِ عملی کو ماضی بنانے کی بجائے مزید جوش وخروش سے آگے بڑھانے کا عمل جاری رکھا ۔ اس افغان مداخلت نے پاکستان میں یہ کیفیت پیدا کر دی تھی کہ اس سے کیسے مقابلہ کیا جائے پھر سرخ روس نے پاکستان کی جانب سے لگائی گئی سرخ لائن کو عبور کر لیا اور افغانستان میں آ دھمکا اب یا تو ہم اپنی سرحدوں پر سرخ فوج کو سامنے کھڑا پاتے اور ساتھ ساتھ افغانستان کی مخالفانہ حکمتِ عملی کا مقابلہ کرتے یا عملی طور پر ہاتھ پاؤں مارتے ۔ قرینِ عقل تھا کہ ہاتھ پاؤں مارتے۔ بلاشبہ اس صورتحال اور اس کے تدارک کی غرض سے اختیار کی گئی حکمتِ عملی کے کچھ منفی اثرات بھی وطنِ عزیز پرمرتب ہوئےجو اب تک قائم ہیں مگر اب توافغانستان میں ایک ایسی حکومت ہے جو پاکستان کی مخالف نہیں ہے ۔ میں اس بات کا بھی قائل نہیں کہ اس کو افغان طالبان کی حکومت کے نام سے پکارا جائے ۔ یہ اب افغانوں کی حکومت ہے جو بیرونی مداخلت کے بغیر قائم ہوئی ہے ۔اس لئے موجودہ افغان حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے واقعات کے تدارک کیلئے اپنا کردار ادا کرے اور ان واقعات کی مذمت کرے ۔ یہ افغان طالبان کے کابل میں اقتدار سنبھالنے سے چند دن قبل کی بات ہے کہ الطاف حسن قریشی نے ایک کھانے پر مدعو کیا۔ افغان طالبان کامیابی کے قریب نظر آ رہے تھے اور اس بات پر تمام حاضرینِ محفل کسی حد تک اطمینان محسوس کر رہے تھے کہ افغانستان میں بیرونی مداخلت سے پاک حکومت قائم ہونے والی ہے جو پاکستان دوست بھی ہوگی۔ وہاں پر چند دیگر افراد بھی موجود تھے جن میں اعجاز الحق صاحب بھی شامل تھے ۔ وہ افغان طالبان کے ساتھ اعلیٰ سطحی رابطوں کے علاوہ وائس میسجز بھی سنا رہے تھے۔ میں نے دورانِ گفتگو کہا کہ ان دونوں ممالک کے باہمی روابط اس وقت پائیدار ہوں گے جب ایک دوسرے کے معاملات کو حل کیا جائے گا ۔ پاکستان تو افغانستان کو ہر سہولت دینے کے لئے تیار ہے، اسی طرح نئی افغان حکومت کو بھی پاکستان کے لئے اہم مسائل یعنی ڈیورنڈ لائن کو بطور سرحد قبول کرنا اور دہشت گردی کے معاملات پر پاکستان سے تعاون کرنا چاہئے تا کہ پاکستان اس جانب سے مکمل طور پر مطمئن ہو جائے،ساتھ ساتھ افغان طالبان کو ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے سیاسی عمل کی طرف بڑھنا چاہئے تا کہ مستقبل میں بھی پر امن انتقالِ اقتدار ممکن ہو سکے کیوں کہ افغانستان میں بد امنی سے پاکستان بری طرح سے متاثر ہوتا ہے ۔

افغان حکومت سے پاکستان کو ان معاملات پر فوری طور پر گفتگو کا آغاز کردینا چاہئے تاکہ دونوں برادر ممالک مستقبل میں کسی بھی قسم کی کشیدگی سے محفوظ رہ سکیں ۔ اس وقت ایک اور مسئلہ بھی سامنے آگیا ہے کہ ایک غیر ملکی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے افغان طالبان کے سیاسی بیورو کے ترجمان نے اسرائیل سے تعلقات کے حوالے سے ایک خاص پوزیشن لی ہے،جو ہمارے لئے بہت اہمیت کی حامل ہے کہ افغان حکومت اس حوالے سے کیا سوچ رکھتی ہے ۔ لیکن افغان حکومت سے ان امور پر گفتگو کرنےکے لئے پاکستان میں سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ مگر محسوس یہ ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی سیاسی استحکام نہ ہونے دینے کی حکمتِ عملی پرمکمل طور پر کار بند ہےیعنی اگر ہماری حکومت ہوگی اور ہم اپوزیشن پر دبائو ڈالنے پر قادر ہوں گے تو درست ورنہ چاہے کچھ بھی ہو جائے ملک کو سیاسی استحکام حاصل نہیں کرنے دیں گے۔ عمران خان ،افغان طالبان کے برسر اقتدار آتے وقت بھی زنجیریں توڑنے کا غیر ذمہ دارانہ بیان دے چکے ہیں جب ان کی ذمہ داریاں سرکاری تھیں اب تو وہ بالکل ہی آزاد ہو کر بیان بازی کر رہے ہیں۔حالاں کہ اس وقت سب کو بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے ،ایس سی او کا اجلاس ہونے والا ہے ۔ چینی صدر اور صدر پیوٹن کی ملاقات تو طے ہے جب کہ وہاں پر اب تک کوشش کی جا رہی ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور نريندر مودی کی بھی ملاقات ہو جائے مگر اب تک یہ کوششیں ثمر آور نہیں ہو سکیں ۔ ان تمام حالات میں سیاسی عدم استحکام کی کیفیت ہو گی تو معاشی استحکام کو بھی حاصل کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔اور اسی وجہ سے ڈالر ، پیٹرول ، بجلی اور ضروریاتِ زندگی کی دیگر تمام اشیاء کی قیمتیں بہت بلند ہوچکی ہیں اور عوام میں اس حوالے سے ایک اضطرابی کیفیت قائم ہے۔ اس پرایک اور مصیبت اس سیلاب کی صورت میں سامنے آ گئی ہے۔ بہرحال افغانستان کی صورتحال ہو یا شنگھائی کواپریشن کانفرنس، ہمیں اپنی پالیسی کو دیکھنے کی ضرورت ہے اور یہ پالیسی تب ہی کامیاب ہو سکتی ہے جب ملک میں سیاسی استحکام حاصل ہو جائے تاکہ ہم معاشی خوش حالی کی طرف قدم بڑھاسکیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین