• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی H-1B ویزا فیس سے ٹاٹا، انفوسس اور دیگر آئی ٹی کمپنیوں کو بڑا جھٹکا

--فوٹو بشکریہ بین الاقوامی میڈیا
--فوٹو بشکریہ بین الاقوامی میڈیا 

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بیرونِ ملک سے بھرتی کیے جانے والے نئے H-1B ورکرز کے لیے ایک لاکھ ڈالر فیس عائد کرنے کے فیصلے سے آئی ٹی کمپنیز ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز، انفوسس اور کوگنیزنٹ کو شدید مالی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق مئی 2020ء سے مئی 2024ء کے درمیان ان تینوں کمپنیوں کے تقریباً 90 فیصد نئے H-1B ملازمین کو امریکی قونصل خانوں کے ذریعے ویزے جاری ہوئے۔ اگر یہ فیس اس عرصے میں نافذ ہوتی تو ان کمپنیوں کو سیکڑوں ملین ڈالر اضافی ادا کرنا پڑتے۔

غیر ملکی میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق انفوسس کے 10 ہزار 400 سے زائد نئے H-1B ملازمین، یعنی 93 فیصد سے زیادہ اس فیس کی زد میں آتے ہیں جس سے کمپنی پر ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا بوجھ پڑتا ہے اور ٹاٹا کو تقریباً 6 ہزار 500 ملازمین جبکہ کوگنیزنٹ کو 5 ہزار 600 سے زائد ملازمین کے لیے یہ فیس ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔

یہ فیس ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اب تک ہنرمند غیر ملکی ورکرز کی بھرتی پر سب سے سخت پابندی سمجھی جا رہی ہے۔

اس اقدام کا مقصد خاص طور پر ان آئی ٹی اور اسٹافنگ کمپنیوں کو نشانہ بنانا ہے جو امریکی کمپنیوں کے لیے بطور درمیانی کردار H-1B ورکرز فراہم کرتی ہیں۔

امیگریشن ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس فیس کو عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے تاہم اس کے نتیجے میں ویزا کی طلب میں نمایاں کمی اور مزید ملازمتوں کے بیرونِ ملک منتقل ہونے کا امکان ہے۔ 

بعض کمپنیوں نے پہلے ہی اپنی بھرتی کی حکمتِ عملی میں تبدیلی شروع کر دی ہے۔

کوگنیزنٹ کے ترجمان کے مطابق اس فیصلے کا قلیل مدت میں کمپنی کے کام پر محدود اثر پڑے گا کیونکہ حالیہ برسوں میں کمپنی نے ویزوں پر انحصار کم کر دیا ہے۔ 

انفوسس نے بھی کہا ہے کہ اس کی امریکی ورک فورس میں ویزا اسپانسرشپ پر کام کرنے والوں کی تعداد اقلیت میں ہے اور سروسز متاثر نہیں ہوں گی۔

امریکی حکومت کا مؤقف ہے کہ اس فیس سے نظام کا غلط استعمال روکا جا سکے گا اور امریکی کاروبار کو زیادہ مہارت یافتہ اور بہتر تنخواہ والے ورکرز کی بھرتی میں مدد ملے گی۔

بین الاقوامی خبریں سے مزید