• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسلام آباد ہائی کورٹ نے بغاوت کے مقدمے میں گرفتار پی ٹی آئی رہنما شہباز گِل کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللّٰہ نے بغاوت پر اکسانے کے کیس کی سماعت کرتے ہوئے گرفتار پی ٹی آئی رہنما شہباز گِل کی ضمانت 5 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کر لی۔

عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہو جانے کے بعد ضمانت کی منظوری کے احکامات جاری کیے اور ریمارکس دیے کہ جب تک ٹھوس مواد نہ ہو کسی کو ضمانت سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔

ہائی کورٹ نے سماعت میں یہ ریمارکس بھی دیے کہ آرمڈ فورسز اتنی کمزور نہیں کہ کسی کے غیر ذمے دارانہ بیان سے ان پر اثر ہو، لیکن شہباز گِل کے غیر ذمے دارانہ بیان کو کسی طور پر جسٹیفائی نہیں کیا جا سکتا۔

درخواستِ ضمانت کی عدالتی کارروائی کا احوال

درخواستِ ضمانت کی سماعت کے آغاز میں آج شہباز گِل کے وکیل سلمان صفدر روسٹرم پر آئے، جنہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شہباز گِل کے خلاف کیس خارج کرنے کی درخواست بھی زیرِ التوا ہے، آج ضمانت کی درخواست کے ساتھ مقدمہ خارج کرنے کی درخواست مقرر نہیں۔

شہباز گِل کے وکیل نے کہا کہ بدنیتی کی بنیاد پر سیاسی انتقام کے لیے یہ کیس بنایا گیا، اس کیس میں تفتیش مکمل ہو چکی، پورا کیس ایک تقریر کے گرد گھومتا ہے، شہباز گِل موجودہ حکومت پر بہت تنقید کرتے ہیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس موقع پر شہباز گِل کے وکیل کو سیاسی گفتگو کرنے سے روک دیا اور ریمارکس دیے کہ آپ قانونی نکات پر دلائل دیں۔

شہباز گِل کے وکیل سے چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ایف آئی آر میں لکھی ہوئی باتیں شہباز گِل نے کی تھیں؟ کیا آپ آرمڈ فورسز کو سیاست میں ملوث کرنے کے بیان کو جسٹیفائی کر سکتے ہیں؟

سلمان صفدر نے جواب دیا کہ شہباز گِل کی گفتگو میں آرمڈ فورسز کی کہیں پر بھی تضحیک نہیں کی گئی، گفتگو کے مخصوص حصے بدنیتی سے منتخب کیے گئے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے سوال کیا کہ ‏کیا آئین کے مطابق فوج کو سیاست میں ملوث کیا جا سکتا ہے؟  کیا سیاسی جماعت کے ایک ترجمان کے ان الفاظ کا کوئی جواز دیا جا سکتا ہے؟ یہ صرف تقریر نہیں ہے۔

وکیل نے جواب دیا کہ ایف آئی آر میں شہباز گِل کی گفتگو سے ن لیگ کی لیڈر شپ کے نام نکال دیے گئے، انہوں نے حکومت اور ایک سیاسی جماعت کی بات کی تھی، اگر یہ نام لکھے جاتے تو واضح ہوجاتا کہ ان کا الزام فوج نہیں ن لیگ پر تھا۔

شہباز گِل کے وکیل نے اپنے مؤکل کی گفتگو کا ٹرانسکرپٹ عدالت میں پڑھا اور بتایا کہ شہباز گِل نے اتنا انتشار تقریر میں نہیں پھیلایا جتنا مدعیٔ مقدمہ نے پھیلایا ہے جبکہ مدعی اس کیس میں متاثرہ فریق بھی نہیں ہے۔

وکیل نے عدالت سے کہا کہ آپ کے پاس ایمان مزاری کا کیس آیا، آپ نے مقدمہ خارج کیا، اس پر چیف جسٹس نے وکیل کو ہدایت کی کہ وہ الگ کیس ہے آپ اپنے کیس کی بات کریں، یہ گفتگو بتاتی ہے کہ سیاسی جماعتوں نے نفرت کو کس حد تک بڑھا دیا ہے۔

شہباز گِل کے وکیل نے کہا کہ میرے مؤکل کی ساری گفتگو اسٹریٹیجک میڈیا سیل سے متعلق تھی، آرمڈ فورسز کی طرف سے مقدمہ درج کرانے کا اختیار کسی اور کے پاس نہیں، جبکہ شہباز گِل پر مقدمے میں بغاوت کی دفعات بھی شامل کر دی گئیں، ان کے ریمانڈ کو بہت متنازع بنایا گیا، بغاوت کی دفعات نے بھی اس مقدمے کو متنازع بنا دیا، ٹرائل کورٹ نے کہا کہ 13 میں سے 12 دفعات شہباز گِل پر نہیں لگتیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیے کہ چلیں ایک نمبر تو دیا، ہماری افواج اتنی کمزور نہیں کہ کسی کے لاپرواہ بیان سے متاثر ہو جائیں، لیکن شہباز گِل کے غیر ذمے دارانہ بیان کو کسی طور بھی جسٹیفائی نہیں کیا جا سکتا۔

چیف جسٹس نے وکیل سے سوال کیا کہ کیا بغاوت کا مقدمہ درج کرنے سے پہلے حکومت کی اجازت لی گئی تھی؟

سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ بغاوت کا مقدمہ درج کرنے سے پہلے اجازت نہیں لی گئی تھی۔

عدالت میں موجود کیس کے اسپیشل پراسیکوٹر راجہ رضوان عباسی نے بتایا کہ بغاوت کا مقدمہ درج کرنے سے پہلے اجازت لی گئی تھی۔

وکیل شہباز گِل نے کہا کہ حکومت کیسے اپنے مخالفین کے خلاف دہشت گردی اور غداری کے الزامات کا سہارا لے رہی ہے؟ عدالت اس بات پر ضرور غور کرے کہ کیسے مخالفین کے خلاف سنگین مقدمات بنائے جا رہے ہیں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ شہباز گِل جس حکومت کے ترجمان تھے وہ بھی ایسے سنگین جرائم کے کیسز کا سہارا لیتی تھی۔

شہباز گِل کے وکیل نے کہا کہ قائدِاعظم نے بھی کہا تھا کہ غلط آرڈرز کو نہ مانا جائے، شہباز گِل نے بھی وہی کہا تھا۔

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیے کہ نہیں، یہ لاپروائی پر مبنی بیان تھا۔

وکیل نے کہا کہ ریمانڈ میں شہباز گِل کے ساتھ جو ہوا، اجازت ہو تو وہ بھی بتاؤں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اُس معاملے پر اس عدالت کا الگ بینچ آرڈر کر چکا ہے۔

عدالت نے سوال کیا کہ کیا سیاسی جماعت کے ترجمان کو معلوم نہیں کہ آرمڈ فورسز نے سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا حلف لیا ہے، شہباز گِل کا بیان غیر ذمے دارانہ، غیر مناسب اور ہتک آمیز تھا۔

اس موقع پر شہباز گِل کے وکیل سلمان صفدر نے اپنے دلائل مکمل کر لیے جس کے بعد اسپیشل پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے دلائل دیے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی سے سوالات کا آغاز کیا اور دریافت کیا کہ کیا تفتیش میں سامنے آیا ہے کہ شہباز گِل نے کسی سولجر سے بغاوت کے لیے رابطہ کیا؟ کیا آرمڈ فورسز کی جانب سے کبھی شکایت درج کرائی گئی؟

چیف جسٹس نے مزید سوال کیے کہ کیا آرمڈ فورسز ایسے کسی لاپرواہ بیان سے متاثر ہو سکتی ہیں؟ ٹرائل کورٹ نے ایک کے علاوہ باقی سب دفعات ختم کیں، کیا آپ نے کبھی ٹرائل کورٹ کے اُس آرڈر کو چیلنج کیا؟ بغاوت کے کیس کو تو یہ عدالت مانتی ہی نہیں، یہ بتائیں چیف کمشنر اور وزارتِ داخلہ کی بغاوت کا کیس بنانے کی منظوری کہاں ہے؟

اسپیشل پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ یہ بات بغاوت پر اکسانے کا الزام ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔

عدالت نے سوال کیا کہ شہباز گِل نے کسی ایک کو کہا ہو کہ بغاوت کرو تو بتائیں؟

اسپیشل پراسیکیوٹر نے جواب میں کہا کہ شہباز گِل نے ایک کو نہیں، اپنے بیان سے سب کو بغاوت پر اکسایا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے سوال کیا کہ قانون میں جو لکھا ہے اس کے مطابق بتائیں کہ کیسے یہ الزام بنتا ہے؟

اسپیشل پراسیکیوٹر نے جواب میں کہا کہ شہباز گِل کے الفاظ کی خود اُن کی جانب سے تردید نہیں کی گئی۔

عدالت نے سوال کیا کہ کیا شہباز گِل نے کسی افسر یا سولجر سے بغاوت کے لیے رابطہ کیا؟

اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ شہباز گِل کے سیٹلائٹ فون میں کافی حساس چیزیں ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اس کی کوئی رپورٹ آئی ہے؟ کیا تھا اس میں؟

راجہ رضوان عباسی نے بتایا کہ ابھی تک اس کی رپورٹ نہیں آئی، شہباز گِل نے تفتیش میں تعاون نہیں کیا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ شہباز گِل گرفتار تھے، اندر تھے پھر کیسے تعاون نہیں کیا؟

اسپیشل پراسیکوٹر نے بتایا کہ شہباز گِل نے اصل اسمارٹ فون دیا، نہ ہی ان کا ڈرائیور ملا۔

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے اسپیشل پراسیکیوٹر سے سوال کیا کہ آپ بتائیں کہ جرم کون سا بنتا ہے؟

جواب میں اسپیشل پراسیکیوٹر نے بتایا کہ سیکشن 131 کے تحت شہباز گِل پر کیس بنتا ہے۔

عدالت نے اس جواب پر کہا کہ اُس سیکشن میں تو لکھا ہے کہ ایک آفیسر کو اگر بغاوت کا کہا جائے، ڈریکونین لاء اُن کی حکومت میں اُنہوں نے لگائے اب آپ لگانا چاہتے ہیں، جیسا آپ نے بتایا اگر ویسا ہے تو پھر تو یہ مزید انکوائری کا کیس ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ پھر سے آپ بتائیں کیوں، کس بنیاد پر یہ عدالت انہیں ضمانت نہ دے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ جب تک ٹھوس مواد نہ ہو کسی کو ضمانت سے محروم نہیں کرنا چاہیے، کل کو وہی شخص بے قصور نکلا تو اس کا کوئی ازالہ نہیں ہو سکتا، آپ کارروائی ضرور کریں لیکن ٹھوس مواد تو سامنے لائیں۔

قومی خبریں سے مزید