• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے بہت سے سفر نامے ایسے بھی پڑھے ہیں جن میں اس ملک کی تاریخ اور جغرافیے کا بیان اتنی تفصیل سے ہوتا ہے کہ ایسے سفر نامے اس ملک کے نصاب کی کتابوں کا حصہ بن سکتے ہیں، مگر میں جن ملکوں میں جاتا ہوں میری دلچسپی کا مرکز افراد ہوتے ہیں ، ان کی بول چال، ان کے رہن سہن اور ان کے میل ملاپ سے اس ملک کا اصلی چہرہ سامنے آجاتا ہے۔میں کسی زمانے میں پرلے درجے کا ’’آوارہ گرد‘‘ ہوتا تھا، توفیق بٹ کی طرح ہمیشہ سفر میں رہتا تھا، ایک بار نذیر ناجی نے اپنے کالم میں ایک قاری کے سوال کے جواب میں لکھا ’’کہ آپ اس سلسلے میںقاسمی صاحب سے رجوع کریں، وہ خوش قسمتی سے ان دنوں پاکستان آئے ہوئے ہیں‘‘۔ میں نے اس زمانے میں یہی کوئی چند برس پہلے جو سفر کئے، واپسی پر سفر نامے بھی لکھے، چنانچہ آپ میرے سفر نامے شوقِ آوارگی، گوروں کے دیس میں، دنیا خوبصورت ہے اوردلی دور است پڑھیں تو آپ کو میری اس بات کا ثبوت مل جائے گا کہ میں نے ان سفر ناموں میں دوران سفر اور ’’قیام سفر‘‘ کے دوران لوگوں کے چہروں اور ان کےرویوں سے ان ملکوں کی تاریخ بیان کی ہے۔

خیر یہ بات تو یونہی درمیان میں آگئی، میں تو آپ کوبتانے چلا تھا کہ چور چوری سے جاسکتا ہے، ہیرا پھیری سے نہیں، چنانچہ نہ، نہ کرتے ہوئے بھی گزشتہ دو ماہ میں لندن کے علاوہ مسقط، عمان اور ابوظہبی کو چھان آیا ہوں۔دوسرے سفر کا ملزم قمر ریاض ہے، جو صرف تین کام کرتا ہے، ایک اپنے خاندان اور دوستوں سے بے پناہ محبت، دوسرا اپنے بزنس پر مسلسل توجہ اور بے پناہ محنت، جس کے نتیجے میں اس نے ماشااللہ دہائیوں کا سفر برسوں میں طے کرلیا ہے اور تیسرا کام جو قمر ریاض اپنے ’’ایمان‘‘ کا حصہ سمجھ کر کرتا ہے وہ عمان اور پاکستان کو ادب و ثقافت کے ذریعے قریب سے قریب تر لانا ہے۔ چنانچہ باقاعدگی سے ہر سال پاکستان فیسٹیول کا انعقاد اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ سو پاکستان سے مدعو کئے گئے مہمانوں میں سے ایک میں بھی تھا جسے ’’صدارت‘‘ کا اعزاز دیا گیا تھا۔ پاکستان فیسٹیول میں سفیر پاکستان جناب عمران چوہدری نے پاکستان کی سالگرہ کا کیک کاٹا اور تاریخ پاکستان کے حوالے سے جو تقریر کی میں نے اتنی مدلل اور واہموں کو دور کرنے والی تقریر اپنی پوری زندگی میں اس سے پہلے نہیں سنی۔ لگتا تھا تاریخ کا ایک پروفیسر تاریخ پاکستان کے گہرے پانیوں میں غوطہ زنی کرکے وہ سارے موتی سامعین کے لئے نکال لایا ہے جو اس موضوع پر کی گئی ہر تقریر میں نہیں ملتے۔ میں اس تقریر کو اپنی زندگی کا ایک اثاثہ سمجھتا ہوں کہ اس کے بعدتاریخ پاکستان کو گدلا کرنے والا کوئی شخص کم از کم مجھے متاثر نہیں کرسکےگا۔

اس کے علاوہ طنز و مزاح کا سیشن بھی تھا جس میں گل نوخیز اختر نے حاضرین کو دہرا تہرا کردیا۔تھوڑی بہت کوشش میں نے بھی کی، لیکن کہاں وہ بات مولوی مدن کی سی۔مشاعرہ بھی لاجواب تھا، جس مشاعرے میں عباس تابش ہو، اس کی کامیابی کی پیشگی گارنٹی دی جاسکتی ہے۔ واللہ کیا کمال کا شاعر ہے۔ صغریٰ صدف شدید بیماری سے بحالی کے بعد پہلی بار بیرون ملک آئی تھیں مگر وہ پھر بھی پوری طرح فارم میں تھیں۔ ثاقب تبسم، ناصر کٹرا، وسیم شیخ، کاشف مصطفیٰ، مخدوم شہاب الدین جو متنوع قسم کا نوجوان ہے، وہ بھی شامل تقریب تھے۔ علاوہ ازیں فرخ، یاسر پیرزادہ، شہباز وڑائچ اور اجمل شاہ دین بھی تقریب میں مدعو تھے۔ ڈاکٹر پرویز چوہدری سے بھی یہاں ملاقات ہوئی وہ بھی شامل تقریب تھے۔ اگر ان کے ساتھ میری بے تکلفی ہوتی تو میں کہتا وہ ’’شامل واجا‘‘ تھے مگر وہ بہت بڑے ڈاکٹرہیں اور اس حوالے سے یہاں تھے۔ ایک بات اور جو بہت ذاتی قسم کی ہے اور وہ یہ کہ میں دنیا کے کسی بھی ملک میں ہوں، احسان شاہد لندن سے ٹکٹ کٹا کر مجھے آن ملتے ہیں، عزیز احمد تو ہوتے ہی میرے ساتھ ہیں یعنی جہاں مامتا وہاں ڈالڈا!۔

قمر ریاض اس لحاظ سے بہت خوش نصیب اور مردم شناس ہیں کہ انہوں نے پاکستان فیسٹیول اور دوسری تقریبات کے حوالے سے بہترین لوگوں کی ایک ٹیم تیار کی ہے۔ جو مہمانوں کو پردیسی ہونے کا احساس نہیں ہونے دیتی۔ امیر حمزہ جو اسکالر ہیں اور عمان کے سارے پاکستانی اسکولز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین ہیں اس ٹیم کے سالار ہیں اور ہاں ان کے چھوٹے بھائی عامر حمزہ سے ملاقات کو میں حاصل ِسفر سمجھتا ہوں ،معصوم سی شکل و صورت والا یہ نوجوان کمال کا فقرے باز ہے اور اتنا پکا منہ بنا کر جگت کرتا ہے کہ لگتا ہے یہ خاموش ہے، جگت ہوا میں اڑتی ہوئی کہیں اور سے آئی ہے۔ اس نے وحید شاہ ایسے بھلے مانس نوجوان کوروہانسا کردیا۔

عمان مسقط میں پاکستانیوں کی طرف سے ہم لوگوں کے اعزاز میں کھانوں کی بھرمار تھی، یہاں متعدد قابل ذکر دوستوں سے ملاقات ہوئی ان کی محبتیں تو یاد ہیں مگر یاد داشت کی خباثت کی وجہ سے نام بھول گیا ہوں۔ ایک کھانا بہت یاد گار تھا اور یہ ایک گہری غار میں بنے ہوئے ریستوران میں تھا۔ یہاں کی لوکیشن اور کھانے ایک طرف، مگر میاں ریاض نے اس موقع پر اتنے مقوی لطیفے سنائے جو مردہ رگوں میں زندگی کی لہر دوڑا دینے والے تھے۔مقامی دوستوں کے لئے تو یہ لطیفے ایک سپلیمنٹ کی حیثیت رکھتے تھے مگر بے چارے پردیسیوں کا پرسان حال یہاں کون تھا؟۔(جاری ہے )

تازہ ترین