پاکستان پچھلے ڈھائی تین ماہ سے اپنی تاریخ کے جس سنگین ترین سیلاب کی تباہ کاریوں سے دوچار ہے ان کے ازالے کیلئے کثیر مالی وسائل ہی نہیں بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ پوری قوم کا عملی تعاون بھی لازمی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اسی تناظر میں گزشتہ روزسیلاب زدہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں اور زمینی صورتحال کا جائزہ لینے کی خاطر بلائے گئے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قوم کے اہل خیر پر زور دیا ہے کہ وہ کمبل، لحاف اور گرم کپڑوں کا بندوبست کریں کیونکہ موسم سرما تیزی سے قریب آ رہا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ عطیات براہ راست بھی متاثرہ علاقوں میں بھیجے جا سکتے ہیں اور اس مقصد کیلئے انسانی ہمدردی کی تنظیموں، متعلقہ صوبائی محکموں اور مسلح افواج کے ملک بھر میں قائم کیے گئے مختلف ڈیزاسٹر رسپانس مراکز کی خدمات سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔وزیر اعظم نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میںپھنسے نوزائیدہ بچوںکیلئے اشیائے خوردونوش کی فوری اپیل بھی کی ہے کیونکہ غذائی اشیاء کی قلت کی وجہ سے ان بچوں کی زندگی کو سخت خطرات لاحق ہیں جبکہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران سیلاب سے متاثرہ لوگوں میں سے مزید37 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں جس کے بعد جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 1545تک جا پہنچی ہے۔ ان حالات کا تقاضا ہے کہ قومی زندگی کے تمام شعبوں کے وابستگان وزیر اعظم کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے اپنے آفت زدہ ہم وطنوں کیلئے ہر ممکن تعاون پر کمربستہ ہوجائیں۔ سردیوں کا موسم کروڑوں بے گھر پاکستانیوں کیلئے یقینا بڑی مشکلات ساتھ لے کر آرہا ہے۔ ان لوگوں کا اپنے علاقوں میں واپس جاکر ازسرنو آباد ہونا اور معاشی و سماجی مصروفیات کا نئے سرے سے شروع کرنا ایک وقت طلب عمل ہے اور سردی کے موسم کا بیشتر حصہ بظاہر انہیں عارضی رہائش گاہوں ہی میں گزارنا ہوگا۔ تاہم اگر ملک بھر سے صاحب استطاعت افراد اپنے ہم وطنوں کے مشکل وقت میں ساتھ دینے کی خاطر اٹھ کھڑے ہوں تو ان کے مسائل کی شدت میں نمایاں کمی واقع ہوسکتی ہے۔لیکن یہ بھی بہرحال حقیقت ہے کہ نقصانات جتنے بڑے پیمانے پر ہوئے ہیں، ان کا ازالہ صرف ملکی وسائل سے ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نے شنگھائی تعاون کونسل کے سربراہی اجلاس میں اس معاملے کو بطریق احسن اٹھایا اور ان کی اس کوشش کے نتائج بھی بہت امید افزاء رہے ۔ وزیراعظم نے سیلاب متاثرین سے متعلق حکومتی اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہوںاور رہنماؤں نے ازبکستان کے دورے کے دوران سیلاب متاثرین کیلئے یکجہتی کا اظہار کیا اور امداد کا وعدہ کیا ہے۔ وزیر اعظم کے مطابق ان ممالک کے ذمے داروں نے پاکستان کی ضروریات کے بارے میں بھی دریافت کیا جس پر انہیںبتایا گیا کہ حکومت پاکستان نقصانات کے درست تخمینے کیلئے صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے سروے کر رہی ہے جس کے نتائج آنے کے بعد انہیں آگاہ کیا جائے گا۔ امید ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ملکوں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے پرچم تلے پوری عالمی برادری بھی پاکستان کے سیلاب زدگان کی بحالی کے عمل میں پوری کشادہ دلی سے حصہ لے گی کیونکہ اہل پاکستان کو فضائی آلودگی کا سبب بننے والے ایندھن کے استعمال کی شکل میں ترقی یافتہ ملکوں کے کیے دھرے کی سزا مل رہی ہے۔ تاہم مقامی اور بین الاقوامی سطح پر مالی عطیات اور سامان کی شکل میں ملنے والے تمام وسائل کی آمد و خرچ کی تفصیلات شفافیت کے مکمل اہتمام کے ساتھ یومیہ نہ سہی تو کم ازکم ہفتہ وار بنیادوں پر منظر عام پر لائی جانی چاہئیں تاکہ ان کو کرپشن سے مکمل طور پر محفوظ رکھا جا سکے اور مقامی و بین الاقوامی معاونین اپنے عطیات میں خورد بردکے کسی اندیشے کا شکار نہ ہوں۔