• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خواب دیکھنے، دِکھانے والا ’مطیع الرحمان‘ (قسط نمبر...5)

اُس جنگ کے خشک میدان، دُور ٹیلوں، پہاڑیوں کے مناظر بار بار جاگتی اور سوتی آنکھوں میں یوں آتے ہیں، جیسے وہ حقیقی مناظر ہوں۔ کئی برس بعد وہ خاتون دوبارہ مطیع کے پاس آئی۔ وہ بےحد پرُجوش تھی۔ اُس نے کہیں اپنے خواب وخیال سے مماثل مقام کی تصاویر دیکھی تھیں اور اُس مقام کی تلاش میں بلوچستان کے دور افتادہ علاقے تک چلی گئی تھی۔ ایک مقام ہُوبہُو ویسا ہی تھا۔ جب خاتون نےدریافت کیا تو وہاں کے مقامی لوگوں نے بتایا کہ اُس میدان میں عین اُس جگہ پر مدّتوں پہلے دو قبائل کی جنگ ہوئی تھی، جس میں عورتیں اور بچّے بھی مارے گئے تھے۔ لوگوں کی بتائی گئی تفصیلات خاتون کی دیکھی جھلکیوں سے مِلتی جُلتی تھیں۔ 

وہ خاتون مطیع کو یہی بتانے آئی تھی کہ اُس نے وہ جگہ تلاش کر لی ہے۔ اسلام میں اس عقیدےکی قطعاً گنجائش نہیں، یہ سراسر غیراسلامی ہے، البتہ دنیا کی آبادی میں قریباً ایک اتنا ہی بڑا حصّہ، جتنی تعداد میں مسلمان ہیں، اِس عقیدے پر یقین رکھتا ہے۔ وہ ایک انسان کےبار بار جنم لینے اور بالآخر پاک ہوکر مُکتی پاجانے پرایسے ہی یقین رکھتا ہے، جیسے ہم مسلمان مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔ مختلف عقائد اور مذاہب کا مطالعہ دینِ اسلام کے مدارس میں رائج ہے اور جاہلیہ کی شاعری اسلام کے ابتدائی دَور کے نصاب کا حصّہ تھی۔ مختلف امور کےبارےمیں متجسّس رہنا حصولِ علم کا مغز ہے۔ اِس موضوع سے میرا تعلق فقط دل چسپی کی حدتک تھا۔ 

مطیع الرحمان سے اس موضوع پر وقتاً فوقتاً گفت گو ہوتی رہتی تھی۔ کبھی سردشاموں میں دُھند میں لپٹے چھاؤنی کے ریلوے اسٹیشن کی بینچز پر بیٹھے، دُھند کو چیرکر آتی ٹرین کی روشن بتّی کو دیکھتے، گرمیوں کی سہ پہروں میں قدیم گھنےدرختوں میں لیٹی سڑکوں پر چہل قدمی کرتے یا گوگو ریستوران میں کھڑکی کے برابر میز کے گرد بیٹھ کر کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے۔ ہندو علوم کے مطابق گزشتہ جنم کے یاد رہنے کی نشانیاں دائیں ہاتھ سے کام والے کے بائیں ہاتھ میں اور بالعکس ہوتی ہیں۔

آواگون پر بہت سے اہم، غیر ہندو دانش وَر، سائنس داں اور حُکم راں یقین رکھتے رہے ہیں، جن میں فرانسیسی جرنیل اور حکم ران نپولین، جرمن شاعر وفلسفی گوئٹے، رجحان ساز مصوّر سالواڈور ڈالی، عظیم روسی ناول نگار لیو ٹالسٹائی، فلسفی نطشے اور امریکی صنعت کار ہنری فورڈ وغیرہ تک شامل رہے ہیں۔ اُس نے مجھے گاندھی جی کا ایک دل چسپ واقعہ بھی سُنایا۔ ’’شانتی دیوی 1926ء میں دِلّی میں پیدا ہوئی، وہ چار برس کی عُمر تک بمشکل بول سکتی تھی اور جب بولنا شروع کیا تو اصرار کرنا شروع کردیا کہ وہ اپنے شوہر اور بیٹے کے ساتھ متھرا میں رہتی تھی، جہاں زچگی کے دس روز بعد وہ فوت ہوگئی تھی۔ 

اُس نے اپنے شوہر کے بارے میں دیگر تفصیلات بھی بتائیں کہ وہ صاف رنگ کا تھا، چشمہ لگاتا تھا، اُس کے بائیں گال پر بڑا مسّا تھا اور اُس کی دکان متھرا میں دوارکادھش مندر کے سامنے تھی۔ بالآخر اُس کے اسکول کی ایک اُستانی نے اُس سے اُس کے شوہر کا نام پوچھ کر اُس نام کا ایک شخص متھرا میں تلاش کیا اور اُسے خط لکھا۔ شانتی دیوی نے اپنے شوہر کا نام پنڈت کیدار ناتھ چوبے بتایا تھا۔ پنڈت کیدار ناتھ نے تصدیق کی کہ نو برس پہلے اس کی بیوی لگدی زچگی کے بعد فوت ہوگئی تھی۔ اُس نے دیگر تفصیلات کی بھی تصدیق کی۔ کیدارناتھ اُس سے ملنے آیا اور اپنا تعارف اپنے بڑے بھائی کے طور پر کروایا۔ شانتی اُسے پہچان گئی اور فوراً اس کی چالاکی پکڑلی۔ 

بعد میں اُس نے اپنی گزشتہ زندگی بطور لگدی کی تفصیلات بیان کیں۔ اُس نے بتایا کہ کس طرح وہ اپنے گھر کے صحن میں واقع کنویں کے پانی سے غسل کرتی تھی اور کیدر ناتھ کا پسندیدہ کھانا کون سا تھا وغیرہ۔ اُس نے کیدار ناتھ سے ناراضی کا اظہار بھی کیا کہ اُس کے مرنے کے بعد اُس نے دوسری شادی کیوں کرلی، جب کہ اُس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ دوبارہ بیاہ نہ رچائے گا۔ اِس واقعے کا اخبارات میں چرچا ہوا تو گاندھی جی نے شانتی دیوی کے دعویٰ کی حقیقت جاننے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیشن بنایا۔ 

کمیشن شانتی دیوی سے ملا، اُسے لے کر 15نومبر1935ء کو متھرا بھی گیا، جہاں شانتی دیوی نے لگدی کے عزیزوں، بشمول اُس کے دادا کو پہچان لیا۔ کمیشن نے خُوب چھان پھٹک کر اور تحقیق کے بعد اپنی رپورٹ1936 ء میں پیش کی، جس میں نتیجہ نکالا گیا کہ درحقیقت شانتی دیوی ماضی کی لگدی ہی تھی اور اُس کا دعویٰ مبنی برحقیقت ہے۔ چند لوگوں نے اِس دعوے پر اعتراض بھی کیا، مگر اُس دَور کے اہم نفسیات داں، دانش وَر، جرمنی سے فلسفے میں پی ایچ ڈی کرنے والے اندراسین نے بھی اِس معاملے کو جانچ کرچند برس بعد شانتی دیوی کے دعوے کی تصدیق کی۔‘‘

جدید دَور کے واقعات میں اُس نے تبت کے ایک لاما کا قصّہ سُنایا، جو اُنھی دنوں معروف ہوا تھا۔ ’’1987ء میں تبت کے لاما، ڈیزہنگ سوم نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ وہ سیئٹل، امریکا میں دوبارہ جنم لے گا۔ بُدھ مت کے پیروکار اُسے ایک انتہائی نیک عالم کے طور پر جانتے تھے۔ مئی 1987ء میں وہ نیپال میں وفات پاگیا۔ نومبر1991ء میں سیئٹل، امریکا میں سونم وانگڈو نامی ایک بچّہ پیدا ہوا۔ اُس کی امریکی گوری ماں پیدایشی طور پر مسیحی تھی، البتہ اس کا باپ بُدھ مت سے تعلق رکھتا تھا۔ حمل کے دوران اُسے ایسی جھلکیاں اور خواب آتے تھے، جیسے کوئی مبارک ہستی اُس کے بدن میں پرورش پا رہی ہے۔ اُس نے ان جھلکیوں اور خوابوں کا تذکرہ بدھ عبادت گاہ کے سربراہ سے بھی کیا۔ بہرحال، اُس کے ہاں بیٹا سونم وانگڈو پیدا ہوا۔ 

دو برس بعد اُس عبادت گاہ کے سربراہ نے اپنے خوابوں اور واضح اشاروں کی بنیاد پر اس لڑکے کے بارے میں اعلان کردیا کہ درحقیقت وہ لڑکا ڈیزہنگ کا چوتھا جنم ہے۔ بعد ازاں، ایسے دیگر شواہد ملے، جن سے بدھ مَت کے ماننے والوں پر واضح ہوا کہ وہ لڑکا درحقیقت ڈیزہنگ ہی تھا۔ اِس بات کو مُلکی اور بین الاقوامی سطح پر تب خاصی توجّہ حاصل ہوئی، جب وہ لڑکا چار برس کی عُمر میں امریکا سے نیپال کے لیے روانہ ہوا۔ وہاں اُسے ایک بدھ خانقاہ میں بیس برس کے لیے اڑتیس دیگر بھکشوؤں کے ساتھ دھرم کی تعلیم و تربیت حاصل کرنا تھی۔ نیپال میں اُس کا حد درجے احترام سے استقبال کیا گیا، قدم زمین پرنہ پڑنے دیے گئے کہ یہ اُس کے مقام کی تقدیس کے خلاف تھا، اُس کا نام تبدیل کرکے ڈیزہنگ چہارم رکھا گیا اوراُسے خانقاہ میں داخل کرلیا گیا۔‘‘

مطیع کو علمِ نفسیات کی بھی شُدبُد تھی۔ سو، وہ اُس کی روشنی میں بھی اِس پر بات کرتا تھا۔ ’’رُتھ سائمنز ایک برطانوی خاتون تھی۔ اُس کے نفسیاتی معالج، مورے برنسٹائن نے 1952ء میں اُسے تحلیلِ نفسی کے دوران تنویمی حالت میں ماضی میں جانے کا کہا۔ اُس نے ہدایت کی کہ وہ اپنی پیدائش سے قبل کے عرصے میں جانے کی کوشش کرے۔ یکایک رُتھ آئرش لہجے میں بات کرنے لگی۔ اُس نے دعویٰ کیا کہ اُس کا نام برآئڈی مرفی تھا اور وہ انیس ویں صدی کے بیلفاسٹ، آئرلینڈ میں رہتی تھی۔ رُتھ نے اپنی گزشتہ زندگی میں بطور برآئڈی، کئی تفصیلات بیان کیں۔

اِس انکشاف کے بعد تحقیق شروع ہوئی کہ کیا انیس ویں صدی کے بیلفاسٹ میں اِس نام کی کوئی خاتون رہتی تھی۔ تحقیقات سے کچھ سامنے نہ آیا۔ البتہ اُس کے دعوے کے حق میں چند ناقابلِ تردید ثبوت ملے۔ حالتِ تنویم میں اُس نے بتایا کہ وہ جن دو کریانے والوں سے سودا سلف خریدتی تھی، اُن کے نام مسٹر فار اور جان کاریگن تھے۔ بیلفاسٹ کی ایک لائبریرین نے 1865-66ء کی شہر کی ڈائریکٹری ڈھونڈ نکالی، جس میں اِن دو ناموں کے افراد کا اندراج موجود تھا اور حیرت انگیز طور پر اُن کا پیشہ کریانہ مرچنٹ ہی درج تھا۔ بعد میں اس واقعے پر کتب لکھی گئیں اور ایک فلم بھی بنی۔ ‘‘

آواگون پر یقین نہ رکھنے کے باوجود مَیں نے اِس موضوع کا طالب علمانہ دل چسپی سے مطالعہ کیا تو چند قابلِ ذکر پہلو سامنے آئے۔ ڈاکٹر برآئن ویس ایک سنجیدہ، مستند اور معروف نفسیات دان ہیں۔ انھوں نے امریکا کی چوٹی کی یونی ورسٹیوں کو لمبیا اور ییل(Yale)سے ڈگریاں اعلیٰ ترین اعزازات کے ساتھ حاصل کیں۔ اُنھیں امریکا کے شعبۂ طب و نفسیات کے اہم افراد میں گِنا جاتا ہے اور اوپرا ونفری جیسے شوز میں بلایا جاتا رہا ہے۔ وہ آواگون وغیرہ کو توہمّاتپر مبنی اور غیر سائنسی سمجھتے رہے ہیں، مگر1980 ء میں اُنھیں اپنا نظریہ بدلنا پڑا۔ ان کی ایک مریضہ کیتھرائن (فرضی نام) نے حالت ِ تنویم میں اپنی گزشتہ زندگیوں کے واقعات بیان کرنے شروع کیے۔ 

ابتدا میں ڈاکٹر ویس نے اُس کی باتوں کو تخیّل کی کار فرمائی اور واہمہ سمجھا، مگر جب اُنھوں نے اس کی بتائی تفصیلات کی تاریخی حقائق اور ریکارڈ سے جانچ پڑتال کی تو حیران رہ گئے۔کیتھرائن ایک عام عورت تھی، جس کی تاریخ کے مختلف ادوار، مقامات اور تہذیبوں پر دست رس کا امکان نہ تھا۔ علاوہ ازیں اس نے جو تفصیلات بتائیں، اُن میں سے بعض تاریخی دستاویزات میں موجود نہیں۔ سو، اُن کے برحق ہونے پر سوال کیا جا سکتا ہے۔ مگر بعض ایسی جزئیات تھیں، جنھیں محقّقین کئی برس کی جست جُو سے جان سکے تھے۔ یہ بات ڈاکٹر ویس کے لیے چشم کُشا تھی۔ آواگون کو ڈاکٹر نے اپنی آیندہ تحقیق کا مرکزی موضوع بنا لیا اور اس پر کئی کُتب لکھیں۔

آواگوان کے واہمے کی ایک توجیہہ یہ بھی دی جاتی ہے کہ نسل درنسل آواگون کا کوئی وجود نہیں بلکہ ایک نسل کی جینیاتی یادداشتGenetic memory میں موجود اجزا کسی بعد کی نسل میں اُبھر آتے ہیں۔ اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ ایک دادا کی آنکھیں نیلی ہوتی ہیں، بیٹے کی سیاہ اور پوتے کی دوبارہ نیلی۔ بعض اوقات ایک انسان کو کوئی نئی جگہ بےحد شناسا لگتی ہے، کوئی مقام پہلے سے دیکھا ہوا لگتا ہے تو درحقیقت اُس کے بزرگوں میں سے کوئی وہاں گیا ہوتا ہے اور وہ اُس کی نسل کی جینیاتی یادداشت میں محفوظ چلا آرہا ہوتا ہے۔ یہ خیال فقط ایک Hypothesis (مفروضہ) ہے،جسے سائنسی لحاظ سے ثابت ہونا ہے۔ 

علاوہ ازیں، اِس خیال کے معترضین کہتے ہیں کہ ایک ہی دورانیے میں ایک شخص کے ایک جگہ مرنے اور دوسری جگہ پیدا ہوجانے کے دعوؤں کی جینیاتی یادداشت کی تھیوری سے وضاحت نہیں ہوپاتی۔ اِدھر ایک اور معاملہ بھی سامنے آیا کہ دوبارہ جنم لینے کا دعویٰ کرنے والوں کی لکھائی کی اُن افراد سے حیرت انگیز مماثلت پائی گئی،جن کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ماضی میں وہ متعلقہ افراد تھے۔ بھلے وہ الونامیانا کا ترن جیت سنگھ ہو، جس کا کہنا تھا کہ وہ پچھلے جنم میں سَت نام سنگھ تھا، جس کے والد کا نہ صرف وہ نام جانتا تھا، دیگر تفصیلات سے بھی آگاہ تھا بلکہ اُس کی لکھائی بھی سَت نام کی لکھائی سے حیران کُن مماثلت رکھتی تھی یا پھر ایسے بہت سےلوگ ہوں، جن پر بُندیل کھنڈ یونی ورسٹی، جھانسی میں تحقیق ہو رہی ہے۔

یونی ورسٹی آف ورجینیا امریکا کے شعبۂ نفسیات کے سربراہ، ڈاکٹر آئن اسٹیونسن نے ایسے 895 بچّوں پر تحقیق کی، جو گزشتہ جنم سے آگاہی کا بتاتے تھے۔ اُن میں سے 309بچّوں کے پیدایشی نشانات، زخموں کے نشانات اور معذوریاں ہُوبہُو ماضی کے اُن افراد جیسی تھیں، جن کے بارے میں بچّے کہتے تھے کہ وہ وہی افراد تھے۔ وسیع تر تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ دنیا کے طول وعرض میں جن لوگوں نے گزشتہ زندگی کی یادداشتوں کاحوالہ دیا، وہ گزشتہ حیات میں غیر طبعی موت، یعنی حادثے، قتل یا جنگ و جدل وغیرہ سے ہلاک ہوئے تھے۔ بابائے نفسیات، کارل یونگ، سوئس باشندہ تھا، 1961ء میں وفات پائی، وہ رقم طراز ہے۔ ’’مجھے محسوس ہوتا ہے کہ مَیں گزشتہ صدیوں میں زندگی گزارچکا ہوں۔ 

مَیں نے تب اُن سوالات کا سامنا کیا، جن کے جوابات مجھے نہ ملے۔ سو، مجھے دوبارہ زندگی اس لیے دی گئی تاکہ مَیں اپنا کام مکمل کرسکوں۔‘‘ایک روز مطیع نے مجھ سے کہا کہ اُس کی وہ کتاب بازار میں آگئی ہے، جس میں دست شناسی کے علم پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ اُس میں چھے منفرد اورمختلف ہاتھوں اور لوگوں کی کہانیاں بھی ہیں۔ اُس نے انکشاف کیا کہ اُس میں میرا تذکرہ بھی ہے۔ مَیں نے بڑے اشتیاق سے کتاب خریدی اور اپنے بارے میں پڑھا تو اس نے حسب ِ معمول مبالغے سے کام لیا ہوا تھا۔ اُس کی بیان کردہ کہانی کے مطابق مَیں گزشتہ جنم میں مصر کی ایک نواحی سلطنت کے سردار کا بیٹا تھا، اخراموطیس میرا اتالیق تھا اور مَیں فرعون کے قریبی لوگوں میں شامل ہو چُکا تھا۔ 

یہ وہ دَور تھا، جب ابھی اہراموں کی تعمیر شروع ہو رہی تھی۔ ہماری سلطنت رنگوں کی تیاری میں مہارت رکھتی تھی اور مَیں فرعونوں کی ابتدائی تعمیرات کے دوران ایک چٹان کے اپنے اوپرگرنے کے سبب مرگیا تھا۔ اِس بیان میں یہ پڑھ کے میں حیران رہ گیا کہ یہ طویل رُوداد، جو بارہ، چودہ صفحات پر مشتمل تھی، مَیں نے خود مطیع کو سُنائی تھی۔ رُوداد ختم کر کے مَیں نے مطیع کو فون کیا اور کہا کہ وہ اب بھی فیصلہ کرلے کہ اُسے ادیب بننا ہے یا دست شناس۔ یہ سُن کر اُس نے قہقہہ لگایا اور بولا۔ ’’یہ بھی تو عزت افزائی ہے کہ مَیں نے آپ کو سردار کا بیٹا اور فرعون کا مقرّب بنایا ہے۔‘‘

مطیع کو فوت ہوئے دس برس سے اوپر ہوچُکے ہیں۔ انسان زندگی کے ایک ایسے دَور میں داخل ہو جاتا ہے، جب اُس کی طبیعت میں کچھ ٹھیراؤ آجاتا ہے، جوانی کا تلاطم خیز دریا، میدانوں میں داخل ہو جاتا ہے، تو اُسے کچھ ایسے لوگ یاد آنے لگتے ہیں، جن پر وہ جوانی کی تیز رفتاری میں اُچٹتی نگاہ ڈالتا گیا ہوتا ہے۔ اب جب مَیں اپنی زندگی کے ایسے دَور میں داخل ہو چُکا ہوں، تو مجھے مطیع اپنے تمام تر خط و خال، قہقہوں، غیر سنجیدہ مبالغوں اور متجسّس نگاہوں کے ساتھ یاد آتا ہے۔ 

اُس کی زندگی کے آخری چند برسوں میں ہمارا رابطہ کم کم ہوگیا تھا۔ مَیں لاہور سے نکل کر سیال کوٹ، گجرات، گوجراںوالہ اور راول پنڈی سے ہوتا ہوا کراچی جا پہنچا تھا۔ وہ ٹی وی پر باقاعدگی سے آتا تھا۔ اُن دنوں وہ جیو ٹی وی میں عبدالرؤف صاحب کے پروگرام ’’بولتے ستارے‘‘ کا جزوِ لاینفک بن گیا تھا۔ عام لوگ اُسے پہچاننے لگے تھے۔ مَیں لاہور جاتا، تو کبھی کبھار اُس سے ملاقات ہوجاتی۔ اُس میں ذمّے داری کا احساس بہت بڑھ چُکا تھا۔ دوستوں کی محفلوں کو چھوڑ کر وہ اپنے گھرانے کی جانب مکمل طورپر متوجّہ تھا۔ (جاری ہے)