دوسری جانب سے مجھ سے کہاگیا ’’مَیں فلاں کا دوست بول رہا ہوں۔ وہ آپ کے ساتھ دست شناس سراج کے پاس گئے تھے۔ اُنھوں نے آپ کے لیے پیغام دیا ہے کہ سراج دست شناس کی ایک پیش گوئی حیران کُن طور پر درست ثابت ہوئی ہے۔ سراج نے اُن سے کہا تھا کہ وہ چھے ماہ میں غمِ روزگار سے آزاد ہوجائیں گے۔ واقعی وہ روزگار کی پریشانیوں سے آزاد ہوگئے ہیں۔ ٹیکس کے محکمے میں تحریف شدہ کاغذات جمع کرانے پر اُنھیں جیل ہوگئی ہے۔
اب اُن کی رہائش، کھانے پینے، یہاں تک کہ علاج معالجے کی تمام تر ذمّے داری ریاست نے سنبھال لی ہے۔ اُنھوں نے سراج کے لیے پیغام بھیجا ہے کہ اُس کی پیش گوئی اس لحاظ سے درست ثابت ہوئی کہ یہ سب کچھ تو اُن کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا وگرنہ وہ حفظِ ماتقدّم کےلیے کچھ احتیاط کرلیتے۔‘‘ جاوید چوہدری کے ساتھ ایک معروف سیاسی شخصیت کے خیابانِ شہباز ڈیفینس،کراچی میں مقیم ایک پیر سے بھی ملاقات رہی۔ ان پیر صاحب نے ہماری قمیصیں دیوار میں پیوست کیل میں لٹکواکر اُن سے کیل، کانٹے، پیسیاں وغیرہ برآمد کروا دی تھیں۔
مطیع الرحمان کی چند ممتاز سیاسی لوگوں سے سنجیدہ نوعیت کی ملاقاتیں اور اُن کا احوال اُس نے نہ صرف مجھے سُنایا بلکہ موقر صحافیوں نے ان کی تحریری تصدیق بھی کی۔ یہ جولائی 1995ء کی بات ہے کہ مطیع الرحمان نے معروف صحافی اور اینکر، آفتاب اقبال کو بتایا کہ اُس وقت کے وزیرِاعلیٰ منظور احمد وٹو کا اقتدار خاتمے کے قریب ہے۔ منظور وٹو کو یہ پیش گوئی بتائی گئی تو انھوں نے ہنستے ہوئے پوچھا، ’’آپ لوگ مجھ سے اصل نجومی کا نام چُھپا تو نہیں رہے، کہیں اس نجومی کا نام جہاںگیر بدر تو نہیں؟‘‘جہاںگیر بدر پیپلز پارٹی کے صفِ اوّل کے راہ نما تھے اور وٹو صاحب کے مخالف۔
وٹوصاحب نے اُسے جہاںگیر بدر کی سیاسی قیاس آرائی سمجھا۔ کچھ ایسی ہی پیش گوئی معروف صحافی چوہدری غلام حسین نے بھی وٹو صاحب کو سُنائی تھی، جسے اُنھوں نے نظر انداز کردیا تھا۔ مطیع کی پیش گوئی کے دو ماہ کے اندر وٹو صاحب کا اقتدار ختم ہوگیا۔ اس پیش گوئی سے چند ماہ پہلے 1994ء میں گورنر پنجاب چوہدری الطاف کا ایک دوست مطیع کو ہاتھ دِکھا کر اُس کی آسٹروپامسٹری سے متاثر ہو چُکا تھا۔ اُس نےچوہدری صاحب سےمطیع کا تذکرہ کیا۔ چوہدری صاحب نے مطیع کو گورنر ہاؤس بُلالیا۔ مطیع نے کئی گھنٹے، تعطّل کے ساتھ، اُن کا ہاتھ دیکھا۔
چوہدری صاحب کی ایک خُوبی یہ تھی کہ وہ اپنے دل کی بات کسی پر آشکار نہیں کرتے تھے لیکن مطیع کی ایک بات کی انھوں نے موقعے پر پرُزور تردید کی۔ مطیع نے اُ ن سے کہا تھا کہ اُن کی ہاتھ کی لکیروں کے مطابق، اُن کی شادی کسی معروف اور امیر خاندان میں ہوئی ہے تو چوہدری صاحب نے پرُزور تردید کی۔ اس موقعے پر ان کے مشترکہ دوست مرزا محمود جہلمی بھی موجود تھے۔ انھوں نے مطیع کی بات کی تائید کرتے ہوئے بتایاکہ قائداعظم کے ساتھی راجا غضنفر علی بےاولاد تھے۔ اُنھوں نے اپنی دو چھوٹی سالیوں کو گود لیا تھا، جو بعد ازاں ان کی وارث ٹھیریں۔ اُن میں سے چھوٹی سالی کی شادی چوہدری الطاف سے ہوئی۔
کسی دوسرے خاندان کے مقام کا فیصلہ اس بات پر بھی منحصر ہوتا ہے کہ تعیّن کرنے والا خود کہاں کھڑا ہے۔ اب جب کہ چوہدری الطاف خود گورنر کے اعلیٰ عہدے پر پہنچ چکے ہیں، اِس لیے اُنھیں راجا غضنفرکا گھرانا اہم نظر نہیں آتا، جو اُس وقت بھی کسی عام آدمی کی نظر میں بڑا باوقعت تھا۔ مطیع الرحمان چوہدری الطاف کا ہاتھ دیکھ کر باہر نکلا تو آفتاب اقبال نے متجسّس ہو کر اُسے کُریدا۔ مطیع نے ان کا ذاتی احوال امانت جان کر بتانے سے معذرت کرلی۔ البتہ کچھ ردّوکد کے بعد اُس نے فقط اتنا بتایا کہ چوہدری صاحب کی عُمر کی لکیر خاصی شکستہ ہوچُکی ہے اور اُسے خوف ہے کہ مُلک جلدہی ایک عُمدہ سیاست دان سے محروم ہوجائے گا۔
اِس گفت گو کے دس روز بعد چوہدری صاحب فوت ہوگئے۔ یہ واقعہ آفتاب اقبال نے روزنامہ خبریں میں شائع ہونے والے اپنے کالم ’’حسبِ حال‘‘ بہ تاریخ 25 جولائی 1997ء میں رقم کیا ہے۔ چوہدری الطاف کی وفات سے قریباً چار برس نو ماہ بعد 1999ء کی بات ہے کہ اُس وقت کے اسپیکر پنجاب اسمبلی، پرویز الٰہی نے مطیع کو ہاتھ دیکھنے کے لیے مدعو کیا۔ مطیع نے اُن کے ہاتھ کی لکیریں دیکھ کر آسٹروپامسٹری کی مدد سے دعویٰ کیا کہ اُن کا اقتدار تین ماہ میں ختم ہو جائے گا۔ ’’پرویز الٰہی نے یہ پیش گوئی سُن کر کوئی زبانی ردِعمل تو ظاہر نہیں کیا، مگر اُن کے انداز ایسے تھے، جیسے اُنھیں میری بات پر یقین نہ آیا ہو۔‘‘ مطیع نے مجھے بتایا تھا۔
اُس وقت میاں نواز شریف کے اقتدار کا سُورج نصف النہار پرتھا، اُنھیں تین چوتھائی اکثریت حاصل تھی، تین صوبوں میں اُن کی حکومت تھی اور بظاہر فوج بھی اُن کے ساتھ تھی۔ اِن حالات میں ایسی پیش گوئی دیوانے کی بَڑ سے زیادہ اہمیت نہ رکھتی تھی۔ پرویز الٰہی کاحساب لگانے کے بعد مطیع نے اُن اخبارات سےرابطہ کیا اور اپنی پیش گوئی شائع کرنے پر اصرار کیا، جہاں اس کے کالم، انٹرویو اور مضامین چَھپتے رہتے تھے۔ اُن اخبارات نے اس پیش گوئی کی اشاعت پر اپنی ساکھ داؤ پر لگتے دیکھ کرشائع کرنے سے احتراز کیا۔ تین ماہ کے اندر طیارہ کیس میں میاں نواز شریف کی حکومت چلی گئی اور ساتھ ہی پنجاب حکومت کی بھی بساط لپٹ گئی، جس کے پرویز الٰہی اسپیکر تھے۔
ایک جانب مطیع کے قدموں کی چاپ اقتدار محل کی غلام گردشوں میں سُنی جاتی تھی تو دوسری جانب ہم دونوں اب تک لاہور چھاؤنی ریلوے اسٹیشن کی بینچز پر شاموں کو بیٹھے قُلیوں کے قدموں کی چاپ سُنتے تھے۔ مجھے ملنے وہ میرے گھر بھی چلا آتاتھا۔ ہم دونوں چہل قدمی کرتے اسٹیشن جا پہنچتے۔ اُس کی متجسّس طبیعت اُسے عاملوں، صوفیوں، نجومیوں وغیرہ تک لے جاتی اور زیادہ تر وہ مایوس لوٹتا۔ ایک مرتبہ وہ ایک صوفی صاحب سے ملنےنکلسن روڈ جا پہنچا، جہاں وہ اپنے ایک مرید کے ہاں آئے ہوئے تھے۔
حُکم تھا کہ وہ سَر ڈھانپ کر نیم تاریک کمرے میں داخل ہو، سو، اُس نے سَرپر رومال باندھ لیا۔ اندر ایک ادھیڑ صوفی بیٹھے تھے۔ انھوں نے سگریٹ کی ایک پنّی ہاتھ میں لے کر اُس کے دو ٹکڑے کیے، مطیع اور اُس کے دوست کو دَم کیا، ہاتھ دھونے کے لیے پانی دیا، ہاتھ دھونے کے بعد پنّی کا ایک ایک ٹکڑا دونوں کے ہاتھوں میں دےدیا، آنکھیں بند کرکے مطیع کو اپنا گھر، جب کہ دوست کو مسجد تصوّر کرنے کا کہا اور آیت کریمہ کا وِرد شروع کردیا۔ چند ہی لمحوں میں مطیع کو اپنی انگلیاں جلتی ہوئی محسوس ہوئیں، جب کہ دوست آنکھیں بند کیے پنّی کا ٹکڑا تھامےمزےسے بیٹھا تھا۔
صوفی صاحب نے انکشاف کیا کہ چوں کہ مطیع نے اپنا گھر تصوّر کیا تھا، جو ناپاک روحوں کا مسکن ہے، اِس لیے اُس کا ہاتھ جل اُٹھا، جب کہ دوست نے مسجد کا تصوّر کیاتھا جہاں ناپاک روحوں کا داخلہ ممکن نہیں ہے، اِس لیے وہ ٹھیک رہا۔ یہ سُن کر مطیع الرحمان کے جسم کے رونگٹےکھڑے ہوگئے۔ (برسبیلِ تذکرہ، محمّد خالد اختر نے اپنی ایک تحریرمیں ایک ایسے کردار کا تذکرہ کیا ہے، جس کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے اور تھوڑی دیر کھڑے رہنے کے بعد بیٹھ جایاکرتے تھے)۔
بہرحال، مطیع کی پریشانی دیکھتے ہوئے صوفی صاحب نے اُسے حکم دیا کہ وہ سات گز کورا لٹّھا اور ایک فٹ لمبا، نو انچ چوڑا ہرن کی کھال کا ٹکڑا لے کر آئے۔ اُن پر مقدس آیات لکھنا تھیں۔ صوفی صاحب نے بتایا کہ وہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ مِل کر لٹّھے پر سوا لاکھ مرتبہ آیت کریمہ تحریر کرتے ہیں، ہرن کی کھال پر کالے علم کی کاٹ لکھتے ہیں اور اُنھیں لپیٹ کر جمعرات کی صبح کاذب دریا میں کمر تک پانی کے اندر جا کر بہا آتے ہیں۔ یہ عمل متواتر سات مرتبہ کرنا پڑتا تھا۔ اس میں اچھا خاصا خرچا آرہا تھا۔ مطیع کو اپنے گھر کی فکر پڑ گئی، جہاں برُی اور ناپاک روحوں کا بسیرا تھا۔
اُس نے طے کرلیا کہ وہ اپنے گھرانے کو بلاؤں اور مصیبتوں سے بچانے کے لیے مطلوبہ رقم کا بندوبست کرہی لے گا۔ بعد ازاں، مطیع کے دوست نے اُسے بتایا کہ ایک پنّی کا جل جانا اور دوسری کا ٹھیک رہنا ایک معمولی شعبدہ ہے۔ ایک مخصوص کیمیکل نمی کے ساتھ مِل کر جَل اُٹھتا ہے۔ مطیع کو جو پنّی دی گئی تھی، اُس پر کیمیکل لگا ہوا تھا۔ اُس نے جب گیلے ہاتھوں سے اُسے تھاما، تو وہ جل اٹھا۔ دوسری جانب دوست کو سادہ پنّی دی گئی تھی، جس پر کیمیکل نہیں لگا ہوا تھا۔ اُسے یقین دلانے کے لیے دوست بازار سے وہ کیمیکل خرید کرلایا اور عین وہی تجربہ دُہرادیا۔
لاہور ہی میں واقع کوڑے پنڈ میں ایک پیر سائیں انڈوں کی حاضری دیتے تھے۔ وہ اپنے مریدین اور سائلین کو انڈا لانے کا حُکم صادر فرماتے۔ کوئی سائل یا مرید انڈا لے کر آتا تو وہ اس پر جھاڑ، پھونک، منتّر، دَم کرتے اور اُس کے سامنے انڈا توڑتے۔ انڈے سے زنگ آلود سوئیاں وغیرہ برآمد ہوتیں۔ سائل کو بتایا جاتا کہ وہ سوئیاں عمل کرکے اس کے دشمنوں نے قبرستان میں دَبا رکھی تھیں جنھیں انڈے میں حاضر کردیاگیا۔ اُسے باورکروا دیا جاتا کہ بد اثرات دُور کرنا ازحد ضروری ہے،جس کے لیے پیر سائیں کو عمل کرنا پڑے گا۔ بعد ازاں، مطیع پر اس عمل کی حقیقت کُھلی۔ درحقیقت انڈے کو خالص سِرکے میں دو انچ تک ڈبو دیا جاتا، جس سے وہ نرم پڑجاتا اور اس میں سوئیاں داخل کر دی جاتیں۔
جب سائل انڈا لے کر آتا تو پیر صاحب کمال چابک دستی سے انڈا تبدیل کردیتے اور یوں یہ کرشمہ وجود میں آجاتا۔ مطیع اِسی طرح کے کرتب دکھانے والے مختلف جعلی پیروں کی حقیقت بیان کرتا۔ ایک پیر، سائل کے کپڑوں پر تھوکتے تو ان میں آگ لگ جاتی۔دراصل پیر صاحب منہ میں فاسفورس رکھتے تھے، جو نمی کی وجہ سے آگ نہیں پکڑتا تھا۔ جب تھوکتے تو وہ ہوا میں آکر آگ پکڑ لیتا۔ ایسے سنگ دل پیر بھی گزرے ہیں، جو سادہ لوح معتقدین کو تیار کرلیتے کہ وہ قبروں میں سے مُردے نکال لائیں، دس بارہ برس کے بچّوں یا کنواری بچیوں کا خون کردیں اور رات رات بھر قبروں میں جاکر لیٹے رہیں۔
عمومی طور پر ان پیروں کی کرامات کا معیار اسکولوں میں جادو کے کھیل دکھانے والے شعبدہ بازوں سے زیادہ نہیں تھا، البتہ مطیع کی ملاقات گنتی کے چند حقیقی طور پر نیک صوفیوں اور بزرگوں سے بھی رہی۔ بقول اُس کے، وہ ایسے عاملوں سے بھی ملا، جو کالا جادو کرتے تھے اور کارگر عملیات کا علم رکھتے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ مطیع سے جیل کے قیدی بھی رابطہ کرتے تھے اور اپنے ہاتھوں کے خاکے یا پرنٹ بھیجتے تھے۔ اُنھی میں سے سزائے موت کے ایک قیدی کے جذباتی خط نے اُسے اِس درجے متاثر کیا کہ وہ اُسے ملنے خود سینٹرل جیل، کوٹ لکھپت جا پہنچا۔
وہاں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل چوہدری مجید اُسے بہت عزت سے ملے۔ مطیع نے غلام حسین شاہ نامی قیدی سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی، جو کال کوٹھڑی میں بند تھا۔ کسی طرح ملاقات کا انتظام ہوگیا۔ غلام حسین چونتیس پینتیس برس کا جوان آدمی تھا۔ اُس کے ہاتھ میں قتل کرنے کی علامات تھیں اور نہ ہی سزائے موت کی کوئی نشانی۔ غلام حسین اپنے بَؐری ہوجانے کی پیش گوئی سے اتنا خوش نہ تھا، جتنی اُسے یہ فکر کھائے جارہی تھی کہ قید ہونے سے پہلے اُس نے ایک لڑکی سے محبّت کی دوسری شادی کی تھی، جو اَب اس سے لاتعلق ہوگئی تھی۔
اُس کی لاتعلقی اور بے وفائی غلام حسین کو کھائے جارہی تھی۔ جب مطیع نے دریافت کیا کہ اُس کے کیس کی پیروی کون کررہا ہے، تو اُس نے بتایا کہ اُس کے پانچ بچّوں کی ماں، اُس کی پہلی بیوی۔ ایک بات مطیع کے لیے حیران کُن تھی۔ اُن دنوں مُلک میں بے نظیر بھٹو کا دوسرا دَورِحکومت تھا۔ پیپلزپارٹی کا دَور جیل کےقیدیوں کےلیےنعمت تھا۔انھوں نے مطیع کو بتایا کہ بی بی کے دَورِحکومت میں قیدیوں کو کئی سہولتیں دی گئیں، صرف چھے قیدیوں کو پھانسی دی گئی اور اُنھیں تنگ نہیں کیا جاتا تھا۔ اُنھوں نے مطیع کو یہ بھی بتایا کہ پیپلزپارٹی کے پہلےدورِحکومت میں سزائےموت کےسیکڑوں قیدیوں کی سزا کو عُمر قید میں تبدیل کردیاگیا تھا۔
اُن میں سے بہت سے قیدی مطیع کو ملے۔ اُنھی دِنوں مَیں عملی زندگی میں آگیا اور روزگار مجھے سیال کوٹ لے گیا۔ مَیں نے وہاں پانچ برس سے زیادہ کا یادگار اور دل نشیں عرصہ گزارا۔ ایک مرتبہ مطیع نے مجھے فون کیا اور سیال کوٹ آنے کی خواہش ظاہرکی۔ مَیں نے اُس دَور میں سیال کوٹ کے سب سے بہتر ’’تاج ہوٹل‘‘ کے مالک، عزیز دوست، ملک ریاض سے درخواست کر کے اُس کی عُمدہ رہایش کا خصوصی رعایت پر انتظام کروادیا۔
چند روز میں شہر بھر میں بینر لگ گئے۔ ’’بین الاقوامی شہرت یافتہ، آسٹرو پامسٹ، مسٹر خان عالمی دَورے سے واپسی پر سیال کوٹ میں۔‘‘ عالمی دَورہ تو دُور کی بات ہے، اُس مردِدرویش نے تو شاید کبھی برصغیرسے باہر قدم نہ دھرے تھے۔ بہرحال، وہ ہوٹل میں اپنے دوستوں کے ساتھ جا فروکش ہوا۔ پہلی شام میری اُس سے ملاقات ہوئی تو اس کے ساتھ لاہور سے آنے والے دوست اور سیال کوٹ کے پرانے شناسا پیٹیز، بسکٹ، کیک چائے وغیرہ سے شوق فرما رہے تھے۔ کلائنٹس نے پہلے سے وقت لے رکھا تھا۔ اگلے روز سے لوگ آنے لگے۔ ایک بندہ اندر جاتا تو چار باہر لابی میں انتظار کررہے ہوتے۔
رات کو احباب کی محفل جم جاتی۔ مَیں دخل در معقولات سے گریز کے لیے پہلے روز کے بعد اُس کے ہاں نہیں گیا۔ ایک صبح تاج ہوٹل کے مالک، ملک صاحب کا فون آیا اور اُنھوں نے بتایا کہ مطیع واپس چلا گیا ہے۔ مَیں نے ملک صاحب سے پوچھا کہ آیا اُس کا دَورہ کام یاب رہا، تو اُنھوں نے بتایا کہ دَورہ تو کام یاب رہا، مگر جو کمایا، وہ ہوٹل کے اخراجات اور دوستوں پر ’’موقع‘‘ ہی پر خرچ کردیا۔ مَیں نے تاسف سے کہا کہ مطیع کو یار باشی لے بیٹھے گی۔
ایک مرتبہ ایک خاتون اپنا ہاتھ دکھانے مطیع کے پاس آئی۔ مطیع کے بقول اس خاتون کے ہاتھ پر ہندو علوم کے مطابق وہ علامت موجود تھی، جو اُن لوگوں کے ہاتھ پر ہوتی ہے، جنھیں پچھلے جنم کی یاد رہتی ہے۔ اُس نے جھجکتے ہوئے خاتون سے اِس کا تذکرہ کیا، تو وہ بے چین ہو کر بول اٹھی کہ اُسے جھلکیوں میں کچھ ایسا نظر آتا ہے، جیسے وہ ایک وسیع و عریض خشک میدان میں ہے، جہاں دو قبائل میں جنگ چِھڑی ہوئی ہے۔ (جاری ہے)