• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہلا خضر ، کراچی

رات کافی ہو چُکی تھی، گاؤں کے نمبر دار،چوہدری بشیر کے پوتے کی شادی کا فنکشن تھا، جہاں خواجہ سراؤں کو بھی بلایا گیا تھا۔انہی خواجہ سراؤں میں سُرخ رنگ کی لانبی فراک پہنے، ستاروں والا جالی دار دوپٹّا اوڑھے، پنکی کسی اداکارہ سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ کسی بڑے فنکشن میں یہ اُس کی پہلی پرفارمینس تھی۔ محفل شروع ہوئی تو پنکی کے ڈانس نے سب کے دل جیت لیے، وہ مسلسل ایک گھنٹے سے ناچےجا رہی تھی، اتنے میں گُرو ماں نے پرفارمینس ختم کرنے کا اشارہ کیاتو وہ وہیں رُک گئی۔

وہ پسینے میں شرابور تھی،چہرے پر تھکن کے آثار بھی صاف نمایاں تھے۔پنکی نے سر جُھکا کر سب کا شکریہ ادا کیا اور اپنی ٹولی کی جانب چل دی۔ ابھی وہ چند قدم ہی آگے بڑھی تھی کہ چوہدری بشیر نے اُس کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ چوہدری صاحب کی حرکت اُسے سخت نا گوار گزری۔ ’’لو بھئی، کُھسرے کو بھی غصّہ آرہاہے، کیا زمانہ آگیا ہے کہ اب ان لوگوں کی بھی عزّتِ نفس مجروح ہونے لگی ہے۔‘‘ چوہدری نے پنکی کو غصّے میں دیکھ کر زور دار قہقہہ بلند کرتے ہوئے کہا۔ پنکی کے لیے یہ فقرے اور رویّے اس لیے غیر معمولی تھے کہ آج سے پہلے وہ کبھی کسی پروگرام میں گئی تھی اور نہ ہی اپنی بستی سے باہر نکلی تھی۔

پھر گُرو ماں نے پنکی کو اپنی بیٹی بنا رکھا تھا، تو تمام بستی والے بھی اسے ہتھیلی کا چھالا بنائے رکھتے ۔دنیا کی حقیقت سے اَن جان پنکی آج کے فنکشن کے لیے بہت پُرجوش اور بےحد خوش تھی۔ اُسے کیا خبر تھی کہ وہ جس جگہ جانے کے لیے اتنی خوش ہو رہی ہے، وہاں اس کی عزّتِ نفس ہی تار تار کردی جائے گی۔ ’’مَیں کیسے انسانوں کے بیچ آگئی ہوں، یہ تو انسان لگ ہی نہیں رہے۔‘‘ پنکی اپنی ہی سوچوں میں گُم تھی کہ اچانک چوہدری بشیر نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا، پنکی کو چوہدری کی جرأت پر اتنا طیش آیا کہ اُس نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑوایا اور پھر وہی ہاتھ چوہدری کے گال پر جڑ دیا۔ بس پھر کیا تھا، سارا ناچ گانا وہیں رُک گیا ، سب پر جیسے سکتہ طاری ہوگیا۔ 

اس سے پہلے کہ کوئی کچھ کہتا، گُرو ماں گولی کی رفتار سے آگے بڑھی اورچوہدری کے قدموں میں گر گئی۔ ہاتھ جوڑ کر اس سے معافی مانگی اور بولی ’’چوہدری صاحب! اسے معاف کر دیں، سرکار! میری بچّی پہلی بار اتنی بڑی محفل میں آئی ہے، ابھی محفلوں کے ادب آداب سے یک سراَن جان ہے۔‘‘ دوسری طرف چوہدری کچھ بے یقینی کی سی کیفیت میں مبتلا، اپنا گال چُھپائے کھڑا تھا، جس پر پنکی کی انگلیوں کے نشان صاف نظر آرہے تھے۔لیکن پنکی کی قسمت اچھی تھی کہ چوہدری غصّے میں وہاں سے بس اتنا کہتے ہوئے چلا گیا کہ ’’آئندہ تم میں سے کوئی بھی مجھے اس محلّے میں نظر نہ آئے، ورنہ انجام کی ذمّے داری میری نہیں ہوگی۔‘‘یہ سُن کر گُرو ماں نے سب کو فی الفور چلنے کو کہا اور پنکی کا ہاتھ پکڑ کر باہر کی راہ لی۔

کسی زمانے میں گُرو ماںخود بھی ایک بہترین رقاصّہ تھی،نام انجمن تھا۔ پھر ایک محفل میں کسی بد معاش نے اُس کے ساتھ زبردستی کی کوشش کی، تو طیش میں آکر انجمن نے اُسے تھپّڑدے مارا، جس پر اُس آدمی نے انجمن کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا۔ وہ روتی تڑپتی رہی، مگر کوئی اس کی مدد کو نہ آیا اور آتا بھی کیسے کہ اس سماج نے خواجہ سراؤں کو کب انسان تسلیم کیا ہے،جو اب کرتے۔ اور… آج جب پنکی نے چوہدری کو تھپّڑمارا تو گرو ماں کو اپنا ماضی یاد آگیا ۔ وہ بےحدسہم گئی تھی، وہ نہیں چاہتی تھی کہ کوئی اس کی پنکی کی بھی شکل بگاڑ دے اور وہ دوسری ’’انجمن‘‘ بن جائے۔

’’کیا یہ پنکی کوئی شہزادی ہے یا آسمان سے اُتری ہے، جو اس کے لیے نئے اصول و ضوابط بنیں گے، کسی نے ہاتھ پکڑ لیا تو کیا یہ تھپّڑ ہی مار دے گی۔ اس طرح تو ہمارا کام ہی چوپٹ ہو جائے گا۔‘‘ شبنم غصّے میں آگ بگولا ہو رہی تھی۔ خواجہ سراؤں کی بستی کا اصول تھا کہ جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہوتا، کسی کو کوئی شکایت ہوتی، تو فیصلہ پنچایت کرتی ۔ اسی لیے پنکی کی رات والی حرکت پر اگلے روز ہی پنچایت بلا لی گئی تھی۔ ’’کوئی سمجھاؤ ،ان نئے بچّوں کو کہ اگر ہم ذرا ذرا سی باتوں پر لوگوں کوطمانچے مارنے لگے، تو نوبت فاقوں تک آ پہنچے گی۔‘‘ ایک بڑی عُمر کا خواجہ سرا بولا۔ اسی طرح ایک ایک کر کے سب نے اپنی رائے کا اظہار کیا، کسی نے پنکی کے حق میں بات کی، تو اکثریت نے خلاف۔ لیکن اس دوران گُرو ماں بالکل خاموش، کسی گہری سوچ میں گُم تھی۔دوپہر تک اس معاملے پر بحث و تکرارہوتی رہی ، پھر بالآخر اسے پنکی کی پہلی غلطی سمجھ کر معاف کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

’’کوئی نہیں جانتا کہ پنکی کی رگوں میں کتنےامیر باپ کا لہو دوڑ رہا ہے۔ آج اگر میری پنکی اپنے گھر میں ہوتی، تو کیسی شاہانہ زندگی گزار رہی ہوتی، لیکن جب اپنوں ہی نےقبول نہ کیا، تو غیروں سے کیا گلہ ۔اس کی پیدائش پر جب اس کے باپ کو معلوم ہوا کہ جڑواں بیٹیوں میں سے ایک خواجہ سرا ہے، تو وہ اس روتی بلکتی ،ننّھی سی جان کو ماں کی گود سے چھین کر میری گود میں ڈال گیا۔ قدرت نے تو اسے گھر، خاندان اور شناخت کے ساتھ پیدا کیا تھا، پر اس کے اپنےسگے باپ ہی نے اسے ٹھکرا دیا۔‘‘ پنچایت سے لَوٹنے کے بعد انجمن گھنٹوں ماضی کی باتیں سوچتی رہی۔’’گُرو ماں!خدا کے واسطےمجھے میرے ماں، باپ کا پتا بتا دو۔ بس ایک بار ان سے مل کر آجاؤں، پھر ساری عُمر تیرے قدموں میں بیٹھی رہوں گی۔‘‘

پنکی نے ایک بار پھر اپنے والدین سے ملنے کی ضد پکڑ لی۔ لیکن گُرو ماں جانتی تھی کہ اپنوں سے ملنے کا اُبال اسے سوائے دُکھ کے اور کچھ نہ دےگا۔ ’’گُرو ماں! تم کچھ بولتی کیوں نہیں؟ تم نے تو مجھے ماں بن کر پالا ہے، میری کوئی فرمائش کبھی رَد نہیں کی، تو یہ التجا بھی سُن لو،رحم کرو میرے حال پر…‘‘پنکی کے آنسو دیکھ کر بالآخر ممتا کی ماری گُرو ماں کا دل پسیج گیا اور اس نے اس شرط پر کہ وہ اسے اپنے ساتھ لے کر جائے گی، پنکی کو اس کے والدین سے ملوانے کی ہامی بھر لی۔ یہ سُن کر پنکی تو جیسے خوشی سے جھوم ہی اُٹھی، ’’گُرو ماں! تو سچ مُچ میری ماں ہے…‘‘ ایک طرف پنکی خوشی سے ناچ رہی تھی، تو دوسری طرف گُرو ماں کے چہرے پرکئی اَن جانے اندیشے تھے۔

وہ دونوں اگلے روز شہر کے بڑے حکیم سے دوا لینے کے بہانے بستی سے نکلیں، لیکن جب پنکی کے والدین کے گاؤں پہنچیں تو پتا چلا کہ وہ تو کراچی جا چُکےہیں۔ یہ سُن کر پنکی کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں، مگر گُرو ماں بھی زبان کی پکّی تھی۔ ایک جاننے والے سے پنکی کے والدین کا پتا لیا اور پنکی کو لے کےکراچی جانے والی گاڑی پر سوار ہو گئی۔ دونوں اگلے روز کراچی پہنچیں، اسٹیشن پر ناشتا کیا اور رکشے سے پنکی کے والدین کے گھر کے لیے روانہ ہوگئیں، چوں کہ دونوں نے برقعہ اوڑھ رکھا تھا، اس لیے کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ دئیے گئے پتے پر پہنچیں تو پتا چلا کہ اُس گھر میں تو شادی ہے۔ 

دروازہ کُھلا تھا اور کیٹرنگ والے گھر کے صحن میں سامان رکھ رہے تھے، سب ہی کاموں میں مصروف تھے، تو کسی نے ان کی طرف خاص توجّہ بھی نہیں دی اور وہ دونوں برآمدے سے ہوتی ہوئی اندر جا پہنچیں، جہاں پیلے جوڑے میں ملبوس ایک لڑکی کو دیکھ کر دونوں ہی حیرت زدہ رہ گئیں کہ دلہن کے نین نقش، رنگ روپ ہو بہو پنکی جیسا تھا۔ گُرو ماں سمجھ گئی کہ یہ دلہن یقیناً پنکی کی جڑواں بہن ہے۔’’خالہ جی! آپ کو کس سے ملنا ہے؟‘‘ ملازمہ نے پوچھا۔’’مَیں سنجیدہ بی بی کے گاؤں سے ہوں، انہی سے ملنے آئی ہوں۔‘‘ گُرو ماں نے بِنا گھبرائے جواب دیا۔ اور کچھ ہی دیر بعد کمرے سے درمیانی عُمر کی ایک خاتون باہر آگئیں۔ ’’بہن! معاف کیجیے گا، مَیں نے آپ کو پہچانا نہیں۔‘‘ سنجیدہ بی بی نے کہا۔ ’’مَیں انجمن ہوں، باجی۔

برسوں پہلے آپ لوگوں نے اپنی ایک قیمتی امانت میرے سپرد کی تھی، کچھ یاد آیا آپ کو؟‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے اپنے اور پنکی کے چہرے سے نقاب اُلٹ دیا۔’’یہ آپ کی بیٹی پنکی ہے۔ اس بدنصیب پربس دن رات آپ لوگوں سے ملنے کی دُھن سوار رہتی ہے۔ اس نے رو رو کر، قسمیں دے کر مجھے مجبور کیا کہ آپ سے ایک بار ملوا دوں۔‘‘ گُرو ماں نے بات جاری رکھی، دوسری طرف پنکی تو بس اپنی ماں کو ٹُکر ٹُکر دیکھے جارہی تھی، اس کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ زور سے اپنی ماں سے لپٹ جائے۔ ایک سانس میں اُسےاپنے سارے دُکھڑے سنادے، اسے بتائے کہ وہ بھی اپنے بابا کے گھر رہنا چاہتی ہے۔

ایک پُرسکون، عزّت دار زندگی گزارنا چاہتی ہے،اُسے لوگوں کی میلی نظروں اور گندے فقروں سے نفرت ہے۔ وہ بہت کچھ کہنا چاہتی تھی، پر اس سے پہلے کہ پنکی کچھ کہتی، اس کی ماں نے اپنا دوپٹّا اُس کے قدموں میں رکھ دیا اور زارو قطار رونے لگی۔ ’’مَیں جانتی ہوں کہ تم میرے ہی وجود کا حصّہ ہو،پر مَیں تمہیں اپنا نہیں سکتی، میری بچّی تُو یہاں سے چلی جا۔ 

آج تیری بہن کا نکاح ہے، کسی کو تمہاری حقیقت پتا چل گئی تو قیامت آجائے گی۔تمہاری پرچھائیں بھی اس پر پڑ گئی تو اس کی زندگی برباد ہو جائے گی۔خدا کا واسطہ! یہاں سے چلی جاؤ۔ ‘‘وہ ہاتھ جوڑے جانے کیا کچھ بولے جا رہی تھیں اور پنکی کے دل و دماغ میں جیسےآندھیوں کے جھکڑ چل رہے تھے۔جس ماں سے ملنے کا خواب وہ برسوں سے دیکھ رہی تھی،آج ملی بھی تو اُس نے پنکی کو سینے سے لگانے کے بجائے اُس کے وجود ہی کو دھتکار دیا۔پنکی نے ڈبڈبائی آنکھوں سے ماں کو دیکھا، چہرے پہ نقاب ڈالااور گُرو ماں کا ہاتھ پکڑکے، تیزی سے باہر نکل آئی۔

پھر… کتنی ہی دیر وہ دونوں ایک پارک میں چُپ چاپ بیٹھی رہیں۔ رو رو کر پنکی کی آنکھیں سُوج گئی تھیں۔ اتنے میں دُور سے کچھ شورسا سنائی دیا۔ وہ ایک بڑا ہجوم تھا،کچھ لڑکیاں گا رہی تھیں، ’’لے کے رہیں گے آزادی،باپ سے چاہیے آزادی، بھائی سے چاہیے آزادی، ہمیں گھر کی چار دیواری میں قید کرنا بند کرو‘‘۔ پنکی اور گُرو ماں حیرت سے ان لڑکیوں کو دیکھ رہی تھیں۔ اُن کے جاتے ہی پنکی نے گُرو ماں سے سوال کیا ’’گُرو ماں! اللہ نے انہیں گھر، خاندان، تحفّظ سب تودیا ہے، تو پھر انہیں کون سی آزادی اور سکون چاہیے؟‘‘ مگرگُرو ماں کے پاس پنکی کے کسی سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔ اُس نے خاموشی سے پنکی کا ہاتھ پکڑا اور ریلوے اسٹیشن کی جانب چل دی۔