وزیر اعظم ہائوس میں اہم حکومتی شخصیات کے مابین ہونے والی مشاورتی گفتگو پر مبنی دو آڈیو ٹیپس ، ڈارک ویب پر سامنے آنے سے نہ صرف قومی سلامتی کے معاملات کے حوالے سے سنگین سوالات پیدا ہو گئے ہیں بلکہ سنجیدہ ذہنوں میں اس خدشے نے بھی جگہ بنائی ہے کہ اگر وزیر اعظم ہائوس ہیکروں کی دستبرد سے محفوظ نہیں تو دوسرے حساس دفاتر اور اہم مقامات کیسے ناقابل رسائی ہوں گے؟ وزیر اعظم شہباز شریف نے معاملے کی فوری تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ اگرچہ اس کی تہہ تک پہنچنے اور ذمہ داروں کا کھوج لگانے کا کام آئی بی کے سپرد کیا گیا ہے، اور دوسری ایجنسیاں بھی اس ٹاسک میں شامل ہوں گی لیکن حکومت مخالف حلقوں نے اسے ہوا دے کر اپنے حق میں پوائنٹ اسکورنگ کی بلاجواز مہم شروع کر دی ہے۔ ایک آڈیو میں وزیر اعظم اور کسی سرکاری افسر کی آواز یں سنائی دے رہی ہیں جو بھارت سے پاور پلانٹ کے باقی حصوں کے حصول کیلئے مریم نواز کے داماد کے تقاضے سے متعلق ہیں۔ دوسری آڈیوپی ٹی آئی ارکان قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری اور وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی کارکردگی اور اسحاق ڈار کو یہ ذمہ داری سونپنےکے بارے میں ہے۔ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور دوسری حکومتی شخصیات کے نزدیک آڈیوز میں ایسی کوئی قابل اعتراض بات نہیں جو قانون کی گرفت میں آ سکے لیکن پھر بھی یہ سوالات ضرور پیدا ہوئے ہیں کہ کیا وزیر اعظم ہائوس اتنا غیر محفوظ ہے کہ وہاں کی جانے والی گفتگو کہیں اور بھی سنی جا سکتی ہے؟ کیا ایسی صورت حال میں وزیر اعظم ہائوس میں قومی سلامتی کے حساس ترین معاملات پر کوئی اجلاس ہو سکتا ہے؟ کیا حکومت اور وزیر اعظم یہاں پالیسی سازی پر کوئی اجلاس کر کے اس کی رازداری کی توقع کر سکتے ہیں؟ کیا وزیر اعظم ہائوس میں ایسا خفیہ ریکارڈنگ سسٹم ہے جسے حکومتی عہدیدار بھی نہیں جانتے؟ پھر یہ سوالات بھی جواب طلب ہیں کہ وزیر اعظم ہائوس کی جاسوسی کون کر رہا تھا؟ گفتگو کو کس نے لیک کیا؟ اگر وزیر اعظم ہائوس میں ہونے والی گفتگو لیک کی جا سکتی ہے تو قومی سلامتی سے متعلق دوسرے حساس دفاتر اور مقامات کا کیا حال ہو گا؟۔ تشویش کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہیکر نے آڈیوز ڈارک ویب پر کھلے بندوں فروخت کیلئے پیش کر دی ہیں۔ دوست، دشمن، جو چاہے خرید لے حکومتی ترجمانوں کے مطابق مریم نواز کے داماد نے پاور پلانٹ کی مشینری کا بھارت سے سودا اس وقت کیا تھا جب اس سے تجارت پر پابندی نہیں تھی۔ ابھی 60فیصد مشینری آئی تھی کہ عمران حکومت نے پابندی لگا دی جس پر باقی ماندہ حصوں کیلئے انہوں نےروس سے رابطہ کر لیا۔ اسلئے یہ کوئی غیر قانونی بات نہیں آڈیو میں خود وزیر اعظم بھی مریم نواز کو سمجھانے کی بات کر رہے ہیں کہ بھارت سے مزید مشینری نہیں خریدی جا سکتی جو ملکی پالیسی کے عین مطابق ہے۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کی چھان بین سے پتہ چل جائے گا کہ وزیر اعظم ہائوس میں ہونے والی گفتگو کیسے ریکارڈ ہوئی، کس نے کی اور اس کے پس پردہ محرکات کیا تھے؟ لیکن یہ بات سنجیدہ غور و فکر اور موثر اقدامات کی متقاضی ہے کہ وزیر اعظم ہائوس کی سکیورٹی کیسے بریک ہوئی؟ یہ ملک کا سب سے بڑا اہم ترین دفتر ہے اگر یہ بھی غیر محفوظ ہے تو حکومت اور متعلقہ ادارے کیا کر رہے ہیں؟ اپوزیشن کو بھی معاملے کی نزاکت کا احساس کرنا چاہئے حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ آج جو لوگ اپوزیشن میں ہیں وہ کل حکومت میں بھی آ سکتے ہیں اور انہیں بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اس لئے وہ بات کو اچھالنے کی بجائے مسئلے کے حل میں حکومت کا ساتھ دیں، ملک اور قوم کا مفاد اسی میں ہے۔ سیاست بازی کیلئے موضوعات اور بھی ہیں، اس معاملے پر سیاست نہ کی جائے۔