آخر اسحاق ڈار نے پاکستان آنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔لیکن اب بہت دیر ہو چکی ہے۔اسحاق ڈار سے شدید اختلاف رکھنے والے افراد بھی ان کی بعض خوبیوں کے معترف ہیں۔لوگ انہیں معاشی جادوگر بھی کہتے ہیں۔انہوں نے مسلم لیگ نون کے دور حکومت میں معیشت کو درست سمت پر رکھنے کیلئے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔میاں نواز شریف جب دو تہائی اکثریت سے اقتدار میں واپس آئے تو اسحاق ڈار ہی حکومت کے اصل کرتا دھرتا تھے۔معاشی فیصلوں سے لیکر سیاسی فیصلوں تک ہر جگہ ڈار کا طوطی بولتا تھا۔وہ صحیح معنوں میں وزیراعظم نواز شریف کے نفس ناطقہ تھے۔پاکستان کے معاشی معاملات پر ان کی دسترس کا یہ عالم تھا کہ جب انہیں چیلنج دیا گیا کہ وہ ڈالر کو ایک خاص حد کے اندر مقید کر دیں تو انہوں نے طویل عرصہ ڈالر کی قیمت کو بڑھنے سے روکے رکھا۔کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ مصنوعی طریقے سے ڈالر کی قیمت قابو کرتے تھے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کے فیصلوں کی وجہ سے پاکستان میں مہنگائی کے طوفان کے سامنے بند باندھا جاتا رہا۔اس وقت ملک کے معاشی حالات درست سمت میں چل رہے تھے۔انہیں بطور وزیر خزانہ، وزیر اعظم کا مکمل اعتماد حاصل تھا۔ملک کے اندر سیاسی استحکام تھا۔اور بیرونی طور پر بھی کوئی غیرمعمولی چیلنجز درپیش نہ تھے۔2017 میں پانامہ پیپرز کے بعد پیدا ہونیوالے بحران کے دوران وہ بیرون ملک چلے گئے لیکن مختلف حوالوں سے میڈیا پر نظر آتے رہے۔2022 ءکے شروع میں جب شہباز شریف لیلائے اقتدار کی زلف کے اسیر ہوئے،تب ملک کے معاشی حالات یکسر بدل چکے تھے۔کرونا نے ملکی معیشت کا بھرکس نکال دیا تھا۔ایف اے ٹی ایف کی تلوار سر پر لٹک رہی تھیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ مفتاح اسماعیل کے غیر دانشمندانہ فیصلوں نے ملک کو ایک گہری کھائی کی طرف دھکیل دیا۔وہ ڈالر جو اسحاق ڈار کی مٹھی سے نکلتا نہیں تھا آج اس کی اڑان قابو میں نہیں آرہی۔ مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آچکا ہے۔ بجلی اور گیس کے بلوں نے عوام کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔ اشیائے خورونوش عوام کی دسترس سے باہر ہو چکی ہیں۔راقم نے انہی کالموں میں آج سے چند ماہ پیشتر عرض کیا تھا کہ اب بھی وقت ہے کہ اسحاق ڈار آئیں اور ملکی معیشت کو سنبھالا دیں۔لیکن حکومت نے انہیں پاکستان لانے کا فیصلہ کرنے میں بہت دیر کردی۔ایک طرف ملکی معیشت کا کوئی سر پیر معلوم نہیں،دوسری طرف سیلاب نے نے معیشت کی ریڑھ کی ہڈی توڑ کے رکھ دی ہے کہ سیلاب کی وجہ سے فصلیں تباہ ہو کر رہ گئی ہیں جس سے غذائی بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ملکی معیشت کے اشاریے مایوس کن صورت حال کا پتہ دے رہے ہیں،آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کیلئے سافٹ کارنر دکھائی نہیں دے رہا،ان حالات میں میاں نواز شریف کے ترکش کا بہترین تیر اپنے اہداف حاصل کر سکے گا؟یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر ذی شعور شخص پوچھ رہا ہے. ماضی میں کمائی گئی نیک نامی شہباز شریف کی حکومت کے غلط فیصلوں کی بھینٹ چڑھ جائے گی؟مفتاح اسماعیل کے فیصلوں کے اثرات سے ملک نکل پائے گا؟مسلم لیگی قیادت کی شیروانی پہننے کی جلدی نے نہ صرف مسلم لیگ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا بلکہ اس کیساتھ ساتھ ملک کو بھی سنگین خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔شہباز شریف کی ٹیم کی نالائقی کی داستانیں جابجا زبانِ زدعام ہیں۔ان حالات میں اسحاق ڈار شاید ہی کوئی کرشمہ دکھا سکیں۔تاہم نیک تمنائیں انکے ساتھ ہیں کہ شائد وہ معیشت کو آکسیجن فراہم کر سکیں۔دوسری طرف سیاسی میدان میں درجۂ حرارت بڑھ چکا ہے،عمران خان مقبولیت کی معراج کی طرف مسلسل گامزن ہیں،وہ جلسوں کی نصف سنچری مکمل کر چکے ہیں،ہر گزرتا دن ان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ کر رہا ہے،پاکستان کے وہ علاقے جو روایتی طور پر مسلم لیگ نون اور نواز شریف کا گڑھ سمجھے جاتے تھے وہاں سے اب عمران خان کی مقبولیت کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ عمران خان کی گھن گرج نے انکے حامیوں کے جذبوں کو گرما دیا ہے۔پس پردہ جو بھی کھیل کھیلا جا رہا ہو اس سے قطع نظر،اس وقت زمینی حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کا بیانیہ ملک کے طول وعرض میں مقبول ہو چکا ہے،اقتدار سے محرومی سے قبل عمران خان پاکستان کے سب سے غیر مقبول لیڈر شمار کیے جاتے تھے لیکن آج ان کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔میں نے کئی بڑے بوڑھوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ بھٹو کے بعد اب شہرت اور قبول عام عمران خان کا مقدر بن چکا ہے۔اسحاق ڈار کیلئے یہ انتہائی مشکل ٹاسک ہوگا کہ وہ ان سخت اور مشکل سیاسی حالات میں معیشت کی ڈگمگاتی کشتی کو سنبھالا دے سکیں۔مبینہ آڈیو لیک نے مسلم لیگ نون کے رہنما ؤں کی ساکھ پر ایک سوالیہ نشان لگا دیا ہے،منظر عام پر آنیوالی گفتگو سے یہی بات واضح ہوئی ہے کہ سب لیڈروں کو اپنے ذاتی کاروبار کی فکر ہے۔ملک سیلاب میں ڈوبے یا آفات کا سامنا کرے انہیں اپنے کاروباری مفادات عزیز ہیں۔ان آڈیو لیکس نے مسلم لیگ کے تشخص کو نقصان پہنچایا ہے جس کا خمیازہ انہیں الیکشن کے وقت بھگتنا پڑے گا۔دونوں بڑی جماعتوں کی باہمی کشاکش کے دوران ملکی معیشت وینٹی لیٹر پر جا چکی ہے لیکن شاید ہی کسی سیاستدان نے ان بگڑتے حالات پر بات کی ہو۔اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ معیشت کو سنبھالنا کسی ایک جماعت کے بس کی بات نہیں رہی۔میثاق معیشت اس وقت پاکستان کی ضرورت ہے۔تمام سیاسی جماعتوں کی باہمی اعتماد سازی سے ایسی معاشی پالیسیاں وضع کرنا ناگزیر ہو چکا ہے،جو حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود تسلسل کیساتھ جاری رہ سکیں۔
کالم کے آخر میں،میں معروف صحافی جناب حامد میر کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے سیلابی صورتحال سے قوم کو آگاہ رکھا۔سیلاب متاثرین کو کیپیٹل ٹاک کا حصہ بنایا۔اپنی جان خطرے میں ڈال کر سیلاب متاثرین کی آواز بنے۔اس عمل سے نہ صرف انہوں نے اپنے وقار میں اضافہ کیا ہے بلکہ جنگ اور جیو کے لیے بھی نیک نامی کمائی ہے۔