سابق وزیرِ خارجہ اور پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ یہ مراسلہ کہاں سے آیا، یہ حقیقت قوم کے سامنے آ چکی ہے، یہ معاملہ دوبارہ اٹھانے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے؟
ملتان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آج وفاقی کابینہ نے ایک سمری منظور کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ نیشنل سیکیورٹی کو بریچ کیا گیا، یہی لوگ کچھ عرصہ قبل سائفر کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ لَو نے پاکستانی سفیر سے گفتگو کی، مجھے جب پتہ چلا تو تشویش ہوئی کہ اندرونی معاملات میں مداخلت ہوئی، اس حوالے سے وزیرِ اعظم اور کابینہ کو اعتماد میں لیا۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم نے سائفر کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے نیشنل سیکیورٹی اجلاس طلب کیا، ایک سفارش سامنے آئی کہ ڈی مارش کیا جائے، دفترِ خارجہ کی ہدایت کے مطابق واشنگٹن اور اسلام آباد میں اس کو ڈی مارش کیا گیا، ہمارا ایسا کوئی مقصد نہ تھا کہ کسی ملک سے تعلقات خراب کریں۔
سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ غیر ملکی مداخلت پر اپنے ملک کا دفاع کرنا ہمارے فرائض میں تھا، ہم نے پارلیمنٹ کی خود مختاری تسلیم کرتے ہوئے مراسلہ اسپیکر قومی اسمبلی اور چیف جسٹس پاکستان کو بھیجا، آج اتنے عرصے بعد حکومت کو خیال کیوں آیا؟
ان کا کہنا ہے کہ مراسلہ وزیرِ اعظم ہاؤس سے غائب ہونے کے ذمے دار کون ہیں، 22 اپریل کو شہباز شریف نے اس مراسلے کی حقیقت کو تسلیم کیا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی پاسداری نہ کرنے پر شہباز شریف کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، وزیرِ اعظم ہاؤس کی گفتگو پبلک ہوئی، کیا اس معاملے کی تفتیش نہیں ہونی چاہیے؟
سابق وزیرِ خارجہ کا مزید کہنا ہے کہ ملک کو امپورٹڈ حکومت سے نجات دلانا ضروری ہے، عمران خان نے پارٹی ممبرز اور کارکنوں کو تیار رہنے کا کہا ہے، انہوں نے جج صاحبہ کی عدالت میں جا کر معافی بھی مانگی، ان کے وارنٹِ گرفتاری جاری ہونے کی بنیاد کیا ہے؟
پی ٹی آئی رہنما نے یہ بھی کہا کہ معاشی طور پر ملک کا ستیاناس ہو چکا ہے، یہ لوگ سیاسی طور پر بند گلی میں ہیں، اسلام آباد میں کسانوں کا مارچ جاری ہے، ملک میں نئی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی۔