• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

کانگریس اور مسلم لیگ کی متذکرہ سیاسی ابلاغی کشمکش کے دوران ہی یورپ میں ہٹلر کے جرمن نیشنلزم کے غلبے اور یورپی کالونیئل پاورز کے تحفظ جو جنگ عظیم اول و دوم میں جاری تھیں، جس طرح ان میں فریقین کو جدید طرز کے پروپیگنڈے (سائیکلو جیکل وار فیئر ) پرمبنی ابلاغی معاونت حاصل تھی۔ اسی طرح کانگریس اور مسلم لیگ کی تحریک آزادی و قیام پاکستان کی سیاسی کشمکش میں انہیں برصغیر کی ہر دو عوامی سیاسی قوتوں کو ہندو اور مسلم صحافت کی بھرپور ابلاغی معاونت سے ہی لڑ ی جا رہی تھیں۔ ہماری تاریخ کا یہ باب سنہری ہے کہ مسلم صحافت کی ابلاغی جدوجہد میں کانگریس ، مسلم لیگ سیاسی کشمکش میں مسلم لیگ ہی مکمل سرخرو ہوئی جس نے ہندوستان کو آزاد کرانے میں ہی نہیں بلکہ تقسیم کراکے مسلمانان برصغیر کا نیا وطن بنانے کے دو عظیم اور تاریخ ساز اہداف حاصل کئے جبکہ کانگریس ہندوستان کو آزاد کرنے میں تو اپنا سیاسی ہدف حاصل کر سکی لیکن مسلم لیگ کے مقابل تقسیم اور قیام پاکستان کو نہ روک سکی اس تاریخی حوالے سے ہم پاکستانیوں کے لیے ہوش کے ناخن لینے کا وقت ہے کہ آج 75سال بعد ہمارے حساس اور سرگرم نیشنل کمیونیکیشن فرنٹ کی ابتر حالت ہماری بحیثیت قوم خصوصاً قومی کمیونیکیشن کے جملہ ذرائع عامہ (فقط میڈیا ہی نہیں) کے ذمے داران کی شدت سے توجہ کی متقاضی ہے ۔

اب بڑا اور علمی سوال یہ ہے کہ یہ ’’نیشنل کمیونیکیشن فرنٹ ‘‘ کیا ہے ؟ اس کی کوئی عملی شکل ہے اور یہ اصطلاح ماس کمیونیکیشن ڈسپلن کے لٹریچر میں استعمال ہوتی ہے ؟ جو اب اس اصطلاح کی ’’عملی شکل ‘‘ تو کمیونیکیشن کے اسکالرز اور طلبہ پر خاصی واضح ہے جسے اصطلاح کے سہارے پاپولر درجے پر عام کرنا ہماری بڑی قومی ضرورت ہے جہاں تک نیشنل کمیونیکیشن فرنٹ (یا اسے ’’سیکٹر‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے ) کا تعلق سے یہ بطور اسٹوڈنٹ آف میڈیا اینڈ کمیونیکیشن ناچیز کی اختراع ہے جو آج کی مجموعی قومی زندگی اور تاریخ میں انسانی تہذیب کے ارتقاء(ترقی عامہ ) میں ابلاغ ( کمیونیکیشن ) کے وسیع تر اور ناگزیر نتیجہ خیز معاون کے کردار کے مکمل عیاں ہونے اور اس پر طویل ذاتی سوچ بچار (سیلف برین اسٹارمنگ ) سے اخذ ہوئی۔ مکمل اور بہترین نتائج کے حصول کے لئے سیاسی تحاریک مجموعی قومی ترقیاتی عمل اور گڈگورننس میں نیشنل کمیونیکیشن فرنٹ کی ابلاغی اہمیت ناگزیر ہونے میں جدید برصغیر کی تاریخ سے متذکرہ کیس اسٹڈی تو ہمارے خطے (جنوبی ایشیا) کا ایک اہم باب ہے۔ مسلم لیگ کے قیام سے تشکیل پاکستان تک جب ہماری تاریخ کا یہ روشن باب لکھا جا رہا تھا تو سیاسی جدوجہد میں یہ غلام نوآبادیاتی دنیا میں سیاسی جدوجہد کو نتیجہ خیز ابلاغی معاونت کا آغاز (GENESIS) تھا۔ اسی کے متوازی اسی دورانیے میں کوسوں دور نئی اور جمہوری ظہور پذیر دنیا، امریکہ میں یہ وسیع تر سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے ابلاغی معاونت امریکہ کو عظیم آزاد اور جمہوری مملکت بنانے کے بعد اسے دنیا میں متعارف کروانے اور خود باکمال متحدہ امریکی قوم کی تشکیل کے بعد بحراوقیانوس کے اس پار ہسٹری رچ روایتی آباد دنیا سے متعارف کرانے کے مشن میں ابلاغی معاونت کے بڑے ذرائع قائم کرنے کے تجربات ریاست اور سول سوسائٹی دونوں میں شروع ہوئے۔ اس مقصد کے لئے ’’فرسٹ چرچ آف کرائسٹ سائنٹسٹ‘‘ کے زیر اہتمام روزنامہ ’’کرسچن سائنس مانیٹر‘‘کا آغاز 1908 میں کیا گیا جبکہ 1906 میں مسلم لیگ قائم ہوئی تو اسے چار عشروں سے جاری سرسید کی علی گڑھ علمی تحریک کی منظم ابلاغی معاونت حاصل ہوگئی، جس میں اس وقت کا محدود مسلم جرنلزم ہمرکاب ہوکر غلام برصغیر میں مسلمانوں کے سیاسی حقوق کے حصول اور قومی تشخص اجاگر کرنے کے لئے ابلاغی معاونت کا تاریخ ساز ذریعہ بنا۔ ’’کرسچن سائنس مانیٹر‘‘ میں کرسچن کا لفظ بہت معنی خیز ہے جو سیکولر اور جمہوری امریکہ کے پروان چڑھنے پر قومی سیاست میں مذہب کے حوالے پر چوکس رہنے کا عکاس ہے۔ جبکہ برصغیر میں مسلم جرنلزم کا مقصد ہندو اکثریت اور فرنگی راج میں اپنے تشخص کے گم ہونے کے خدشات اور اس کے عملی سیاسی ازالوں سے عبارت ہے۔

قارئین کرام! خصوصاًدنیائے ابلاغ کے قومی اسٹیک ہولڈرز خواہ یہ حکومت ہو یا آزاد و کنٹرولڈ مین اسٹریم اور سوشل میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے میڈیا سیل ہوں یا پیمرا، آئی ایس پی آر اور وزارت خارجہ کا ایکسٹرنل پبلسٹی ونگ یا ترجمان اور ہمارا مجموعی سفارتی ابلاغ یہ سب ہمارا جدید دنیا میں نیشنل کمیونیکیشن فرنٹ ہے۔ ان سب کی ابلاغی معاونت کے حوالے سے خدمات کی اپنی اپنی تخصیص ہے، لیکن قومی دفاع و سلامتی، سیاسی و معاشی استحکام، فلاح عامہ معاشرتی رویوں اور امن عامہ کے حوالے سے بحیثیت مجموعی ان سب کا ایک کامن ایجنڈا بھی جو سب سے بنیادی اور مقدم ہے۔ چونکہ ان ہی کے ابلاغ معاونت کی فراہمی سے قومی سطح کا وہ نیشنل کمیونیکیشن فلو (قومی ابلاغی بہائو) بنتا ہے، جو ہر وقت سائنسی حوالے سے تلاطم میں رہتا ہے اور اس کا اتار چڑھائو سائنس کا معاملہ ہے، اس لئے یہ ہماری قومی زندگی کا بے حد حساس اور اہم سیکٹر ہے جو کسی صورت دفاع و سلامتی، سیاسی و معاشی استحکام و ترقی اور قومی اخلاق اور رویوں کی تشکیل کے حساس شعبوں سے کم نہیں، لیکن اس کی حاضر صورتحال بے حد پیچیدہ، شدید بیمار اور تشویشناک ہوگئی ہے جو بحران کوبڑھا رہی ہے۔ اس کی اصلاح، پاکستانی معاشرے کے ہر شعبے اور خود ہمارے نیشنل کمیونیکیشن فرنٹ کی یکساں قومی، ادارہ جاتی اور انفرادی ضرورت ہے۔ سو اس کوسمجھنا اور بیماری کی تشخیص و علاج جملہ اقسام کے قومی بحران در بحران کے مداوے کا ناگزیر تقاضا بن گیا۔ سو اسے مزید سمجھنے اور کیا ترک اور کیا اختیار کرنے اور کیسے کرنے؟ جیسے سوالوں کے جوابات کے لئے ’’آئین نو‘‘ کے موضوع پر باہمی تبادلہ خیال کا متقاضی یہ سلسلہ ہائے تحریر جاری رہے گا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین