• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’ہا آریٹس‘ اسرائیل کا سب سے پرانا اور معتبر اخبار ہے ، عالمی مبصرین اِس اخبار کو سنجیدگی سے دیکھتے ہیں اور اِس میں شائع ہونے والی خبروں، کالموں اور مضامین کو اکثر بین الاقوامی میڈیا میں نمایاں جگہ ملتی ہے ۔ گزشتہ دنوں اِس اخبار میں ایک مضمون شائع ہوا جس کا عنوان تھا کہ بھارت میں قوم پرست ہندوؤں نے مسلمان اداکاروں کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے ۔مضمون نگار لکھتا ہے کہ عامر خان کی نئی فلم ’لال سنگھ چڈھا‘ ٹام ہینکس کی ’فارسٹ گمپ‘ سے متاثر ہو کر بنائی گئی ، انڈیا کے دو سو مقامات پر اِس کی شوٹنگ ہوئی ، اِس پورے کام میں دس برس لگے اورفلم پرکُل بائیس ملین ڈالر لاگت آئی ، یوں یہ فلم انڈیا کی پندرہ سب سے مہنگی فلموں میں سے ایک بن گئی۔یہ فلم 11اگست کو ریلیز ہوئی مگر اِس سے پہلے ہی انڈیا کے قوم پرست ہندوؤں نے اِس کا بائیکاٹ کر دیا اور جب فلم سینما ہالز میں لگی تو احتجاج کرنے والے بھونپو لے کر وہاں پہنچ گئے اور فلم بینوں کو ہال میں جانے سے منع کیا کیونکہ اُن کے خیا ل میں عامر خان ایک بھارت مخالف اداکار ہے ، دوسرے لفظوں میں ’بولے تو‘ مسلمان ہے جسے پاکستان چلے جانا چاہیے۔اِس بائیکاٹ کانتیجہ یہ نکلا کہ لال سنگھ چڈھا انڈیا میں بمشکل چھ ملین ڈالر اور دیگر ممالک سے ساڑھے سات ملین ڈالر اکٹھے کر سکی اور یوں یہ فلم بری طرح ناکام ہوگئی ۔عامر خان کی فلم کا یہ حشر ہونا معمولی واقعہ نہیں ، نیوز ویک اور فوربز میگزین عامر خان کو دنیا کا سب سے بڑا فلمی اداکار قرار دے چکے ہیں ، اس کی فلمیں سو سے ڈیڑھ سو ملین ڈالر آسانی سے کما لیتی ہیں ، دنگل نے تو تین سو ملین ڈالر سے بھی اوپر کمائے تھے۔ مضمون نگارلکھتا ہے کہ دوسری طرف ’کشمیر فائلز ‘ جیسی پروپیگنڈا فلم ہے جس نے بیالیس ملین ڈالر کمائے کیونکہ اِس فلم کی کہانی 1990میں کشمیر سے ہندوؤں کی ہجرت کے گرد گھومتی ہے اور یوں بھارت کے ریاستی بیانیےسے ہم آہنگ ہے، اسی لیے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شا نے لوگوں کویہ فلم دیکھنے کے لیے کہا اور انڈیا کی سات ریاستوں میں سرکار نے اِس کا ٹیکس بھی معاف کر دیا۔مضمون نگار مزید لکھتا ہے کہ قوم پرست ہندوؤں کی مخالفت اور بائیکاٹ سے شاہ رُخ خان اور سلمان خان کی فلمیں بھی بہت متاثر ہوئی ہیں، شاہ رُخ کی آنے والی فلم ’پٹھان ‘ کا ابھی سے بائیکاٹ شروع ہوگیا ہے ، یو ٹیوب پر اِس کے خلاف ویڈیوز اپ لوڈ کی جارہی ہیں جہاں لاکھوں لوگ شاہ رخ، سلمان اور عامر کو گالیاں دے رہے ہیں ۔ یہ تینوں خان جوکبھی بالی وڈ پر راج کرتے تھے ، اب بی جے پی سرکار میں انتہا پسند ہندوؤں کی نفرت کا شکار ہیں اور اِن کا مستقبل خطرے میں ہے۔

جب بی جے پی حکومت میں آئی تو دیگر فلمی ستاروں کے ہمراہ عامر خان اور شاہ رُخ خان بھی نریندر مودی سے ملے، اُن کے ساتھ سیلفیاں لیں، اُن کی مدح سرائی کی اورعندیہ دیا کہ’ انہیں منزل نہیں رہنما چاہیے ‘ اور مودی کی صورت میں انہیں وہ رہنما مل گیاہے۔عامر خان ویسے تو پیدائشی مسلمان ہیں مگر ذاتی معاملات میں بالکل سیکولر ہیں ، انہوں نے کرن راؤ سے شادی کی جو ایک پیدائشی ہندو خاتون تھیں، بعد میں اِن دونوں کی طلاق ہوگئی ۔ پیدائشی مسلمان یا ہندو لکھنا اِس لیے ضروری ہے کہ ہمیں علم نہیں کہ اب وہ کس قسم کے مذہبی رجحانات رکھتے ہیں ، شاعر اور لکھاری جاوید اختر کے برعکس عامر خان نے خود کوعلانیہ ’ملحد‘ نہیں کہا جبکہ جاوید اختر اپنے ملحد ہونے کا برملا اعتراف کرتے ہیں ۔اسی طرح عامر خان کی بیٹی ارا خان نے بھی پچھلے دنوں ایک ہندو نوجوان نوپور شکارے سے منگنی کی ، نوپور بھی ہندو گھرانے میں پیدا ہوا، وہ عامر خان اور سشمیتا سین کا ذاتی فٹنس ٹرینر (فارسی میں بولے تو ’مربی تناسب اندام‘ ) ہے۔شاہ رُخ خان کی بیوی گوری خان بھی ہندو ہے ، شاہ رُخ خان خود کو مسلمان کہتے ہیں ، اُن کے بچے البتہ دونوں مذاہب کو مانتے ہیں ، شاہ رُخ خان کی زندگی پر جو فلم بنی اُس میں دکھایا گیا کہ اُن کے گھر میں ہندو دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں ہیں جن کے آگے بچے ماتھا ٹیکتے ہیں ۔سلمان خان کے بارے میں زیادہ تحقیق نہیں کی لیکن اُن کا حال بھی مختلف نہیں، اپنے طرز زندگی سے وہ کبھی عملی مسلمان نہیں لگے۔ اِن تمام باتوں کے باوجود ’’مرے کچھ کام نہ آیا یہ کماِل نَے نوازی ‘‘والی بات بالی وڈ کے تینوں خانز پر صادق آتی ہے ۔اِس کے برعکس ہمارے پاس ایک مثال دلیپ کمار کی ہے ۔دلیپ صاحب کبھی شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادارنہیں بنے اور نہ ہی انہوں نے اپنی مسلمانیت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی، اپنے عقیدے کے ضمن میں انہوں نےکبھی معذرت خواہانہ طرز عمل اختیارنہیں کیا اورنہ ہی اپنے ہم عصر ہندو اداکاروں سے زیادہ محب وطن انڈین بننے کی کوشش کی۔وہ ڈنکے کی چوٹ پر پاکستان آتے تھے اور پاکستان سے اپنی جذباتی وابستگی کا اظہار بھی کرتے تھے ۔ ہاں ،اُس وقت بی جے پی کی حکومت نہیں تھی اور نہ ہی مسلمانوں کے خلاف نفرت اپنے عروج پر تھی مگر بہرحال بمبئی میں بال ٹھاکرے کا راج تو تھا ۔جبکہ دوسری طرف ہمارے یہ کنگ خان ہیں جو نہ صرف اپنی مسلمانیت کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اپنی حب الوطنی کا ثبوت بھی بڑھ چڑھ کر دیتے ہیں لیکن بہرحال آخری تجزیئے میں وہ مسلمان ہیں اور یہ بات انہیں، آر ایس ایس کے انتہا پسند ہندوؤں کی نظر میں، قابل نفرت بنانے کے لیے کافی ہے۔ بٹوارے کے وقت جب فسادات اپنے عروج پر تھے تو منٹو نے بھی بمبئی سے لاہور آنے کا فیصلہ کیا، اُس کے ہندو دوست نے شراب کی بوتل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’تمہیں کیا فکر ہے، سالے ویسے بھی تم کون سے مسلمان ہو؟‘ اِس پر منٹو نے تاریخی جملہ کہا کہ’’اتنا مسلمان ضرور ہوں کہ کسی ہندو کے ہاتھوں مارا جا سکوں ۔‘‘ شاہ رخ، عامر اور سلمان خان چاہے ہندو عورتوں سے شادی کریں، اپنے گھروں میں مورتیاں سجائیں یا بھارت ماتا کی جے ہو کے نعرے لگائیں، وہ بہرحال اتنے مسلمان ضرور رہیں گے کہ کسی قوم پرست ہندو کی نفرت کا نشانہ بن سکیں۔ ہم یہاں پاکستان میں بیٹھ کر بٹوارے کے حق میں اتنا مضبوط مقدمہ نہیں بنا سکتے جتنا مضبوط مقدمہ آر ایس ایس کے غنڈے پاکستان کے حق میں بنادیتے ہیں۔ ہمیں آر ایس ایس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔

تازہ ترین