• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک سیلاب کی تباہ کاریوں کی زدمیں ہے۔ ساڑھے تین کروڑ سے زائد لوگ دربدر ہیں۔ مکانات ، مال مویشیوں اور فصلوں کی تباہی و بربادی سے اربوں روپے کےنقصانات کا اندازہ لگایا جا رہاہے۔دوسری طرف مہنگائی عروج پر اور عام آدمی کی زندگی محال ہے۔ معاشی طور پر اس وقت ملک بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ لیکن قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ ملکی معیشت کو اس نہج تک پہنچانے والے اب بھی باز نہیں آرہے۔ ان کو نہ سیلاب کی وجہ سے کروڑوں لوگوں کے دربدر ہونے کی پروا ہے اور نہ ہی ملکی معیشت کو اس حال تک پہنچانے پر کوئی شرمندگی ہےبلکہ ایسی ناگفتہ بہ صورتحال میں تعاون اور حالات کی بہتری کے لئے ملک و قوم کا ساتھ دینے اور کوششیں کرنے کے بجائے مزید خرابی پیدا کرنے کی کوششیں کررہے ہیں، جو نہایت افسوسناک ہے۔

بلاشبہ اس تشویش ناک صورتحال میں ہم سب کو انفرادی اور اجتماعی کوششیں کرنی چاہئیں کہ حسبِ استطاعت نہ صرف اپنے سیلاب زدہ بہن بھائیوں کی مدد کریں بلکہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے ملکی معاشی صورتحال کی بہتری کے لئے حکومت کے ساتھ تعاون کریں۔ یہ کسی سیاسی جماعت یا کسی مخصوص حکومت کے لئے ہرگز نہیں بلکہ وطنِ عزیز اور متاثرین کے لئے ہم سب کا قومی فریضہ ہے۔ لیکن یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ ایسے وقت اور ان نامساعد حالات میں عمران خان نہ صرف یہ کہ سیاست سیاست کھیل رہے ہیں بلکہ ملک کو افراتفری اور معیشت کو مزید کمزور کرنے کے درپے ہیں۔ سیلاب زدگان کی مدد کے بجائے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے لوگوں سے حلف لے رہے ہیں کہ وہ ملکی معیشت کو مزید کمزور کرنے اور سسٹم کو برباد کرنے کےلئے افراتفری پھیلانے میں ان کا ساتھ دیں۔ حلف دینے والے بھی یا تو سادہ لوح ہیں یا وہ بہکاوے میں آ گئے ہیں۔

عوام کو سوچنا چاہئے کہ مہنگائی اور ملکی معیشت کو اس حال تک پہنچانے کی بنیاد کس نے رکھی ہے؟ اقتدار کو جاتا دیکھ کر آئی ایم ایف سے کیا گیا معاہدہ کس نے توڑا، جس کی وجہ سے مہنگائی میں مزید اضافہ اور ملکی معیشت دگرگوں ہوگئی۔ سی پیک اور چین کے ساتھ معاملات میں رکاوٹ کیوں پیدا کی گئی۔ سائفرکے معاملے پر واویلا مچا کر اور امریکہ کو اس جھوٹے معاملے میں ملوث کرنے کی کوشش کی گئی جس کی خود امریکہ نے کئی بار تردید بھی کی۔ آڈیوز سے اب اس ڈرامے کی قلعی بھی مکمل طور پر کھل گئی ہے۔ روس سے سستا تیل خریدنے کی بات کی مگر روس نے خود تردید کرتے ہوئے اس کو جھوٹ قرار دیا۔ برطانیہ سے پچاس ارب کی واپسی اور اس میں سے نقد، سینکڑوں کنال اراضی اور ہیروں کی وصولی کے ناقابلِ تردید ثبوت سامنے آگئے۔ چینی اور گندم اسکینڈلز میں نہ صرف ملک کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا بلکہ روزمرہ ضرورت کی ان دونوں چیزوں کی قلت اور مہنگائی میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ کورونا کے دوران جب دنیا میں تیل سپلائی کرنے والے ممالک مفت تیل فراہم کرنے کی پیشکش کر رہے تھے توانہوں نے تیل حاصل نہیں کیا بلکہ اس کے بعدجب تیل مہنگا ہوا تو اس کا سودا کیا گیا جس کی وجہ سے ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئیں۔ ایل این جی معاہدے میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ سستے نرخوں پر ایل این جی معاہدہ کرنے والے پر مقدمات بنائے گئے۔ بیرونی ممالک سے سفارتی تعلقات اس حد تک کمزور ہوگئے کہ پاکستان کا اعتبار خطرے میں پڑ گیا۔ اندرونی طور پر سیاسی انتقام کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا گیا اور چور ڈاکو کو ورد بنایا گیا۔ نیب کو بطور انتقامی ہتھیار بری طرح استعمال کیا گیا ۔ کے پی میں احتساب کے دفتر کو تالا لگادیا گیا، کئی عزت دار لوگوں کو رُسوا کیا گیا ۔ پنجاب میں من پسند، فرمائشی،تابعدار اور نااہل لوگوں کو مسلط کیا گیا، جس کی وجہ سے وہاں کرپشن کا بازار گرم ہوگیا۔ غرض یہ کہ بہتی گنگا میں ہر منظورِ نظر نے خوب ہاتھ دھوئے۔ لیکن جو چھتری کے نیچے رہا وہ ہر قسم کی احتسابی بارش سے محفوظ رہا۔ اس بڑے صوبے کے وسائل اور انتظامی معاملات کو مفتوح علاقہ سمجھ کر تاراج کیا گیا۔

اس جماعت کے جلسوں کے بارے میں تو سب جانتے ہیں، اخلاقیات کا جس طرح جنازہ نکالا گیا وہ بھی ایک مثال ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بعض حکومتی ارکان کی طرف سے بدزبانی اور دھمکیوں کا طوفانِ بدتمیزی برپا کیا گیا۔ اس ملک اور معاشرے کی اقدار کو برح طرح پامال کیا گیا۔ اس پر بھی بس نہیں کیا گیا بلکہ اداروں کی توقیر کو مذاق بنایاگیا۔ سوشل میڈیا اور بیرونِ ملک حواریوں کے ذریعے ملک کے اہم ترین اداروں اور شخصیات کے بارے میں توہین آمیز بیانات اور نعروں کے ذریعے ان اداروں کو بدنام اورکمزور کرنے کا مذموم سلسلہ شروع کیا گیا۔ جلسوں میں تقاریر کے دوران بھی بدتہذیبی اور دھمکی آمیز بیانات دیئے گئے۔ عمران خان کی عادت ہے کہ وہ پہلے گریبان پکڑتے ہیں اور پھنسنے کی صورت میں پائوں پکڑتے ہیں۔ اپنی بات سے مکر جانے کو یوٹرن سمجھتے ہیں۔ وہ ایک طرف اسلام آباد پر چڑھائی کی بات کرتے ہیں اور لوگوں کو ورغلا کر حلف لے رہے ہیں جب کہ دوسری طرف اس اسمبلی میں واپس جانے کی تیاری کررہے ہیں جس میں جانے کو گناہ کہتے رہے۔ آئندہ ضمنی انتخابات میں دس حلقوں سے خود حصہ لینے کے لئے کاغذات جمع کرانے اور بڑھک مارنے کے بعد ان انتخابات کو رُکوانے عدالت چلے گئے۔ دراصل ان کو خود بھی سمجھ نہیں آرہی کہ وہ آگے کیا کریں؟لانگ مارچ کی بڑھک بھی گلے میں ہڈی بن گئی ہے جس کی ناکامی کا ان کو پورا یقین ہے ان کویہ بھی معلوم ہے کہ اس کےاثرات کیا ہوں گے؟ ریاست کو محفوظ رکھنا ریاستی ادارے جانتے ہیں۔ قوم پریشان نہ ہو۔ تبدیلی بھی قریب ہے۔

تازہ ترین