(گزشتہ سے پیوستہ )
ذکر ہو رہا تھا کوئین میری اسکول و کالج کا۔ یہ تعلیمی ادارہ کسی زمانے میں رائل فیملی کے بچوں کے لئے بنایا گیا تھا پہلے اس کا نام وکٹوریہ ہائی اسکول تھا۔ 1911ء میں لارڈ مائونٹ بیٹن کی خواہش پر اس ادارے کو رائل فیملیز کے بچوں کے لئے مخصوص کیا گیا اور اس کا نام ملکہ کوئین میری کے نام پر کوئین میری اسکول و کالج کر دیا گیا ملکہ کوئین میری 26مئی 1867ء کو پیدا ہوئی تھی اور 1953ء میں ان کی وفات ہوئی تھی،بہت خوبصورت ملکہ تھیں اور اس کی ایک رنگین تصویر کے نیچے یہ درج ہے :
QUEEN MARY (1867-1953) MARY OF TECK SERVED AS QUEEN MARY (1910-1936) CONSORT TO KING GEORGE 5
کہا جاتا ہے کہ اس تاریخی تعلیمی ادارے میں پرنسپل کی رہائش گاہ جس کو لیڈی شہاب الدین کا محل بھی کہتے ہیں، یہاںملکہ کوئین میری ٹھہرا بھی کرتی تھیں ،کہتے ہیں کہ اس کی شادی کی تقریبات اسکول کے ہال میں ہوئی تھیں ویسے ہم نے ان کی دو اور تصاویر اسکول کے لان میں بیٹھے ہوئے بھی دیکھی ہیں، ملکہ الزبتھ ملکہ کوئین میری کی پوتی تھیں ملکہ الزبتھ کا ایک پورا سویٹ گورنر ہائوس لاہور میں ہے جو ہم نے دیکھا ہوا ہے، کیا خوبصورت سویٹ ہے آج بھی اس میں فرنیچر اور دیگر سامان اسی طرح پڑا ہوا ہے ملکہ کوئین میری نے اسکول و کالج کا بے شمار مرتبہ وزٹ کیا ویسے وہ لاہور میں 1908ء میں آئی تھیں کوئین میری اسکول میں آج بھی وہ پرانی سیڑھیاں موجود ہیں جو پچھلے 60برس سے بالکل درست حالت میں ہیں اور کام دے رہی ہیں بقول آسیہ نورین سیکشن ہیڈ اس تاریخی اسکول کے اندر گوروں کے زمانے میں کئی اہم میٹنگز ہوا کرتی تھیں۔کیا اسکول و کالج تھا جس کو ہماری سیاسی حکومتوں خصوصاً ن لیگ کی حکومت نے تباہ وبرباد کر دیا۔جتنے سفارشی داخلے یہاں پر اس زمانے میں ہوئے کسی دور حکومت میں نہیں ہوئے اور اس وجہ سے اسکول کا ڈسپلن خراب ہوا۔ ایک زمانہ تھاکہ کیامجال ہے یہاں پر کوئی سفارشی داخل ہو سکے ۔ڈسپلن کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ مرکزی وزیر تعلیم محمد علی ہوتی اپنی بیٹی کو ہوسٹل مقررہ دن سے پہلے لینے آ گئے تو چوکیدار نے ملنے نہ دیا پھر کچھ روز بعد محمد علی ہوتی اس کالج کے کانووکیشن میں بطور مہمان خصوصی آئے تو انہوں نے کہا کہ اس چوکیدار کو بلایا جائے جو گرلز ہوسٹل پر ڈیوٹی کرتا ہے، چنانچہ اس چوکیدار کو بلایا گیا وہ ڈرا اور سہما ہواا سٹیج پر آیا کہ اب اس کی شامت آئے گی مگر محمد علی ہوتی نے اس چوکیدار کو شاباش دی اور انعام بھی دیا اور کہا کہ اس طرح کے ایماندار لوگ ہمارے معاشرے کی ضرورت ہیں یہ واقعہ آج سے کوئی پچیس برس قبل ہمیں اس چوکیدار نے خود سنایا تھا یہ چوکیدار بڑا غصے والا تھا لیکن اپنی ڈیوٹی پوری کرتا تھا ۔محمد علی ہوتی ایوب خان کے زمانے میں مرکزی وزیر تھے ۔اس تاریخی اسکول میں ایک ہندو چوکیدار پرس رام تھا جس کو بابا مونڈو بھی کہا جاتا تھا، پاکستان بننے کے بعد بھی وہ اس اسکول و کالج سے نہ گیا اور ساٹھ برس تک یہاں ڈیوٹی کی ہم نے اس کا انٹرویو بھی کیا تھا، وہ کہتا تھا کہ مجھے اس تعلیمی ادارے سے پیار ہو چکا ہے ہم نے خود دیکھا تھا کہ وہ صبح چھ بجے ہر کلاس روم کو خود چیک کرتا اور اس کا دروازہ کھولا کرتا تھا ۔ چابیوں کا ایک بہت بڑا گچھا اس کے پاس ہوتا تھا ،بڑا ایماندار آدمی تھا اس کے زمانے میں اسکول، کالج میں کسی بچی کی کبھی کوئی چیز گم نہیں ہوتی تھی ،کیسے کیسے لوگ تھے اب بھی اس ادارے میں زرین خان نامی چوکیدار پچھلے 43برس سے بڑی ایمانداری سے ڈیوٹی کر رہا ہے۔پرس رام کے سر پر سفید رنگ کی پگڑی ہوتی تھی اور نیلے رنگ کا پتلا سا کوٹ گرمی سردی میں پہنا کرتا تھا ۔رنگ اس کا بہت پکا تھا نیچے پاجامہ پہنا کرتاتھا اور پائوں میں گرگابی (مکیشن) پہنا کرتا تھا۔اس طرح اس کالج کی ڈائریکٹر اسپورٹس مس گلشن 1971ء سے اس کالج کے ساتھ منسلک ہیں کیا کیا دور انہوں نے دیکھے ہیں۔
عزیز قارئین !پچھلے کالم میںبات ہو رہی تھی اس اسکول و کالج کے تیراکی کے تالاب کی ۔اس سوئمنگ پول پر طالبات کی تیراکی کے مقابلے رات کو ہوا کرتے تھے، کیا سماں ہوتا تھا جس میں کبھی کبھار غیر ملکی مہمان بھی ہوتے تھے ۔پورا سوئمنگ پول رنگ برنگی لائٹوں سے سجایا جاتا تھا اور لائوڈ اسپیکرز پر دلچسپ نعرے بازی اور تبصرے ہو رہے ہوتے تھے۔
پھر سوہنی مہینول کا خاکہ یا ڈرامہ پیش کیا جاتا تھا اور سوہنی کاکچے گھڑے کے ساتھ سوئمنگ پول میں ڈوبنے کا منظر پیش کیا جاتا تھا، کیا خوبصورت ڈرامے، مشاعرے اورتقریری مقابلے اور پھر مس کوئین میری کا مقابلہ ہوتا تھا جو طالبہ پڑھائی میں لائق اور شخصیت کے اعتبار سے بھی اچھی ہوتی تھی اس کو اس سال کی مس کوئین میری کا ٹائٹل دیا جاتا تھا ،ہم بھی کبھی کبھار سوئمنگ پر یہ مقابلے دیکھنے چلے جاتے تھے، اس سوئمنگ پول پرڈائیونگ بورڈ لکڑی کا نہیں بلکہ سیمنٹ کا تین اسٹاپ والا ڈائیونگ بورڈ بنا ہوا تھا ،ہر طالبہ اپنی مرضی کے مطابق تیراکی کے تالاب میں چھلانگ لگا یا کرتی تھی \\۔دلچسپ بات یہ ہے کہ بڑی بچیوں کے تیراکی کے تالاب کے ساتھ چھوٹے بچوں کے لئے بھی ایک تالاب تھا جہاں پر چھوٹے بچے سوئمنگ کیا کرتے تھے ارے بابا انگریز نے کیا کیا چیزیں بنا لیں اور ہم نے سب کچھ تباہ کر دیا۔
پھر کیا ہوا سوئمنگ پول کے ساتھ واقع میاں ممتاز دولتانہ کا محل فروخت ہو گیا وہاں پر دو دو مرلے کے تین منزلہ مکان اور دکانیں بن گئیں ان کی کھڑکیاں سوئمنگ پول کی طرف کھلتی ہیں اور یوں یہ خوبصورت تاریخی سوئمنگ پول تباہ وبرباد ہو گیا پھر کسی نے اس طرف توجہ نہ دی ۔پروفیسر ڈاکٹر بشریٰ متین مرحومہ جب تک پرنسپل رہیں انہوں نے اس اسکول و کالج میں اس سوئمنگ پول اورا سپورٹس کی ہر سرگرمی کو جاری رکھا اور یہاں کی طالبات نے قومی سطح پر انعامات بھی حاصل کئے اگلی دفعہ آپ کو ملکہ کوئین میری کے بارے میں کچھ بتائیں گے۔
(جاری ہے)