اس وقت عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا ہے۔ جلدی الیکشن ان کا مسئلہ نہیں ہے۔ جلدی الیکشن کے شور غوغا کے پیچھے جو مقاصد ہیں وہ بھی یہی ہیں کہ کسی طرح حالات کی کایا پلٹ جائے اوروزارت عظمی کا ہما ایک دفعہ پھر ان کے سر پر بیٹھ جائے ۔ وہ بلا شرکت غیرے اقتدار کے مالک ہوں، جس کو چاہے جیل میں بھجوائیں ، جس کی مرضی وڈیو چینلوں پر چلوائیں ، جس پر نظر کریں اس کا میڈیا ٹرائل شروع ہو جائے ۔ اور ایسے ماحول میں وہ فیصلہ جو اس ملک میں بدقسمتی سے جمہوریت کی کنجی ہے وہ فیصلہ بھی ان کے حوالے کر دیا جائے ۔ پھر وہ اپنی مرضی کا چیف منتخب کریں۔ من مانی کریں ۔کھل کھیلیں ۔ لیکن اب بہت دیر ہو چکی ہے۔
وہی لوگ جو عمران خان کو لانے کا سبب بنے تھے وہی اب خان صاحب سے سب سے زیادہ نالاں نظر آتے ہیں۔ اب وہی اس کمبل سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اب کمبل ان کی جان کو آ گیا ہے۔ ان کے گھر والوں کے ذہنوں تک پہنچ گیا ہے۔ اس لئے کہ انہیں گزشتہ پانچ برس سے ایک ہی کہانی سنائی گئی ہے۔ ایک ہی قصہ بارہا دہرایا گیا ہے۔ خلافت کی مثالیں دے کر عمران خان کی شبیہ دکھائی گئی ہے۔ ایک ایسی سوچ تخلیق کی گئی ہے جس کا پہلے وجود نہیں تھا۔ ایک کردار تخلیق کیا گیا ہے جو پہلے کہانی میں موجود نہیں تھا۔ المیہ اب یہ ہے کہ اس ڈرامائی کردار کا تقاضا ہےکہ مجھے ہر کہانی کا حصہ بنایا جائے۔ ہر ڈرامے میں وہ ہیرو کا کردار ادا کرے۔ تمام کردار اس کی معاونت کریں اگر ایسا نہیں ہو گا تو وہ ڈرامائی کردار کہانی کے سب کرداروں کو عریاں کر دے گا۔ ان کی کمزوریوں اور کجیوں کو اس طرح عیاں کرے گا کہ خود چاہے وہ لازوال ہو نہ ہو مگر دوسروں کو زوال کی طرف دھکیل دے گا۔ کہانی کے اس خود ساختہ ہیرو کو اس بات کا علم نہیں کہ اب کہانی ایک نئے موڑ پر آ کھڑی ہوئی ہے۔ نئے کردار آنے والے ہیں۔ نئے کرداروں کے آنے کا خوف ہی خان صاحب کا سب سے بڑا خوف ہے۔ نئے کرداروں کا مطلب یہ ہے کہ ان پر ماضی کی غلطیوںکا ملبہ نہیں ہو گا۔ وہ ایک نئے صفحے پر نئی کہانی لکھیں گے۔ اس میں شاید وہ ماضی کے اوراق پھاڑ دیں۔ ماضی کے کرداروں سے اجتناب کریں۔ ایک صلح جو ، امن پسند کردار کو سامنے لائیں جو نفرت کی داستان پرامن کے مکالموں کا مرہم رکھے۔
یہی خوف خان صاحب کو نچلا نہیں بیٹھنے دیتا۔ کبھی وہ مارچ کا اعلان کرتے ہیں، کبھی مارنے مرنے کی بات کرتے ہیں، کبھی شہرِ اقتدار کو نذر آتش کر کے معصوم بن جاتے ہیں۔ کبھی ایک آزاد ملک میں اک نئی جنگِ آزادی کی بات کرتے ہیں۔ لیکن حالات کی باگ اب خان صاحب کے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔ ان پر چند باتیں واضح کر دی گئی ہیں ۔ الیکشن جلدی نہیں ہو رہے، اہم تعیناتی کا فیصلہ وزیر اعظم کرے گا اور اس میں ان کے مشورے کی کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں ہے۔ ادارے اب نیوٹرل ہو گئے ہیں، اس نیوٹرل ہونے کی سب سے بڑی وجہ خان صاحب کا دور اقتدار ہے جس میں صرف نااہلی اورناکامی پاکستان کا مقدر رہی ہے۔ خان صاحب سمجھ رہے ہیں کہ ترپ کا پتہ اب بھی ان کے پاس ہے۔ انہیں ادراک نہیں کہ ترپ کا پتہ چلا جا چکا ہے۔ اب ان کے ہاتھ خالی اور دامن میں دشنام کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
اب سے کچھ دنوں کے بعد نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا فیصلہ ہو چکا ہو گا۔ یہ موضوع پرانا ہو گیا ہو گا ۔ یار لوگ نئے صاحب کی مدح و تحسین میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہوں گے۔ کس کے نام کا قرعہ نکلے گا؟ یہ اس وقت چند افراد کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ لیکن ایک بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ نتیجہ خان صاحب کی خواہشوں کے برعکس ہو گا۔ وہ جس ساتھی کو ملا کر کھیلنا چاہتے ہیں وہ کھیل سے باہر ہو چکا ۔کیا اس سے آنے والے صاحب کی سوچ پر کوئی فرق پڑے گا ؟ کیا پرانا کھیل پھر شروع ہو گا یا کھیل کے نئے اصول وضع ہوں گے؟ایک بات کا ادراک اب اس ملک میں سب کو ہونا چاہئے کہ خان صاحب نئی تقرری کے بعد چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ اس تقرری کو پہلے وہ متنازع کر چکے ہیں جو اس ملک کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ وہ اس تنازعے پر مزید پٹرول چھڑکیں گے۔ نئے آنے والے افسرکو کئی محاذوں پر لڑنا ہو گا۔ عمران خان کے انتشار کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ نیوٹرل رہنے والے فیصلے پر ثابت قدم رہنا ہو گا۔ اپنے ادارے کی دیکھ ریکھ اور امیج میں اضافہ کرنا ہو گا۔ جوانوں کو حوصلہ دینا ہو گا۔ جن اپنے ہی لوگوں کو گزشتہ پانچ سال میں الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ہپناٹائز کیا گیا ان لوگوں کی درست ذہن سازی کرنا ہو گی۔ میڈیا کو آزاد کرنا ہو گا۔ اس سماج سے نفرت کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ تشدد اور انتشار کا ہر سطح پر قلع قمع کرنا ہو گا۔ یہ سب وہ اقدامات ہیں جن سے خان صاحب کو سخت اختلاف ہے۔ پی ٹی آئی مستقبل کی ق لیگ بنتی نظر آ رہی ہے جس کا حلقۂ اثر مشرف کے رخصت ہونے کے ساتھ ہی ہر الیکشن میں کم ہوتا گیا۔