پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ حسن نواز کس رائل فیملی کا پڑپوتا ہے، کیا حسن نواز ایلون مسک کا بھائی ہے؟
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نواز شریف بتائیں انہوں نے کیسے این آر او 2022ء حاصل کیا، اب این آر او 22 ہو رہا ہے۔
فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ان فیملیز کو 1100 ارب روپے جا رہے ہیں اور سسٹم خاموش ہے، میری دعا ہے اب کوئی ایسا شخص ہو کہ جو ان رہنماؤں کے اثاثوں کی تفصیل سامنے لائے۔
’’پاکستان کی سیاست 6 ماہ میں نیچے گئی ہے‘‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سیاست 6 ماہ میں نیچے گئی ہے، آڈیو لیکس نے پوری دنیا میں پاکستان کا مذاق بنا دیا، یہ کہاں سے لیک ہو رہی ہیں، کون کر رہا ہے؟ اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔
فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ جو کل دہشت گرد تھے آج انہیں عہدے تقسیم کیے جا رہے ہیں، وفاق اور صوبوں میں حکومت چلانے میں موجودہ حکمراں ناکام ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ تھوڑا سا کوئی مہذب ملک ہوتا تو یہاں پر استعفوں کی لائن لگ چکی ہوتی، اس وقت سیاسی رہنماؤں کی تبدیلی سے ریاستی پالیسیوں میں حیران کن بدلاؤ ہے۔
’’نواز شریف نے کبھی براہِ راست بات نہیں کی‘‘
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اصل وارث پاکستان کے عوام ہیں، جمہوری جدوجہد سے پاکستان بنا اور جمہوری عمل سے ہی آگے بڑھے گا، نواز شریف نے کبھی براہِ راست بات نہیں کی، نہ کبھی انٹرویو دیا۔
سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ بلاول کا اپنا خرچہ بلین ڈالرز ہے اور جرمنی سے ملین ڈالرز کی امداد ملنے پر خوش ہو رہے ہیں، صدر کے خطاب کے دوران حکمران جماعت احتجاج کرتی ہے، پاکستان کے سب سے بڑے سیاسی لیڈر پر مقدمے درج ہو رہے ہیں، عوام کا سب سے مقبول لیڈر 144 کے مقدموں کا سامنا کر رہا ہوتا ہے۔
’’صدر اور وزیرِ اعظم کے دفاتر کی آڈیو لیکس ہو رہی ہیں‘‘
فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ملک کے تمام اہم دفاتر کا وقار مجروح کیا جا رہا ہے، صدر اور وزیرِ اعظم کے دفاتر کی آڈیو لیکس ہو رہی ہیں، رانا ثناء اللّٰہ مفرور ہیں، گرفتاری پیش کریں اور پھر ضمانت کرائیں، ملک میں غربت بڑھ گئی ہے کہ ڈکیتیوں چوریوں کے واقعات صبح شام پیش آ رہے ہیں۔
تحریکِ انصاف کے رہنما نے کہا کہ اسلام آباد پولیس کا رانا ثناء اللّٰہ کو شیلٹر دینا کسی صورت جائز نہیں، اداروں کو ملکی حفاظت اور سالمیت کے اقدام کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ اس کرپٹ مافیا کے محافظ بنیں۔
’’بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی ختم ہو گئی‘‘
سابق وزیرِ اطلاعات کا مزید کہنا ہے کہ کراچی ماضی میں دہشت گردی کا مرکز بن گیا تھا، شہرِ قائد میں اسٹریٹ کرائم بہت بڑھ گئے تھے، کراچی کو امن آسانی سے نہیں ملا، اس کے لیے بہت قربانیاں دی گئی ہیں، شہر کو دوبارہ دہشت گردوں کے حوالے کیا جاتا ہے تو ہم مذمت کریں گے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی ختم ہو گئی ہے، کل سروے میں آیا ہے کہ صرف 1 فیصد لوگ پیپلز پارٹی کے حامی ہیں، سروے کے مطابق ملک میں 2 تہائی لوگ کہتے ہیں کہ فوری الیکشن کرائے جائیں، اس وقت ملک میں سیاست اور حکومت کا بحران ہے۔