اچھی صحت قدرت کا ایک اَن مول تحفہ، بہت بڑی نعمت ہے۔وہ جو قربان سالک بیگ کا ایک شعر ہے کہ ؎ ’’ تنگ دستی اگر نہ ہو سالک…تن درستی ہزار نعمت ہے‘‘۔تو اُس میں تَن درستی سے متعلق سو فی صد درست ہی کہا گیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ تنگ دستی پھر برداشت ہو سکتی ہے، غربت میں جیسے تیسے بھی انسان گزارہ کر لیتا ہے، مگر خرابیٔ صحت انسان کے لیے ایک عذاب کی سی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ ویسے جب ہم صحت و تن درستی کا ذکر کرتے ہیں، تو عمومی طور پر لوگ اس سے مُراد جسمانی صحت لیتے ہیں، حالاں کہ تن درستی دو الفاظ کا مرکب ہے، یعنی تن اور درستی۔ اس لحاظ سے تن درستی کا مطلب جسم کا درست ہونا ہے۔
بلاشبہ انسان کا جسم درست اور صحت مند ہونا چاہیے، مگر یہ صحت کا محدود اور ناقص تصوّر ہے۔ جدید طبّی سائنس میں صحت کا تصوّر بڑے ہمہ گیر انداز میں سامنے آتا ہے۔ عالمی ادارئہ صحت کے مطابق صحت اُس کیفیت کا نام ہے، جس میں ایک انسان جسمانی، ذہنی اور سماجی اعتبار سے درست ہو۔ محض جسمانی ضعف یا بیماری کی غیرموجودگی کی بنیاد پرکسی شخص کو صحت مند قرارنہیں دیا جاسکتا۔ صحت مند ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انسان تینوں تناظر میں درست اور متوازن ہو۔ جسمانی، ذہنی اور سماجی توازن ہی انسانی صحت کی بنیاد ہے۔
گو کہ کسی بھی فرد کے مکمل صحت یاب ہونے کا مطلب نہ صرف جسمانی، بلکہ ذہنی/دماغی صحت بھی ہے، مگر افسوس کہ دُنیا بَھر کے بیش تر افراد ذہنی صحت کے درست مفہوم سے نابلد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ذہنی صحت کے اصولوں پر دھیان دیا جاتا ہے، نہ ذہنی امراض کی درست اور بروقت تشخیص ہوپاتی ہے۔سو،ذہنی صحت کی اہمیت اُجاگر کرنے کے لیے عالمی ادارۂ صحت اور ورلڈ فیڈریشن آف مینٹل ہیلتھ کے اشتراک سے ہر سال 10اکتوبر کو ’’دماغی صحت کا عالمی یوم‘‘ منایا جاتا ہے۔
پہلی باریہ دِن 1992ء میں ایک تھیم منتخب کرکے منایا گیا اور تب سے تاحال یہ دِن ہر سال مختلف تھیمز یا سلوگنز کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ اِمسال یہ یوم جس تھیم کے ساتھ منایا گیا، وہ "Making Mental Health And Well-Being For A Global Priority" ہے۔ یعنی دماغی صحت اور تن درستی کو عالمی ترجیح بنائیں۔ یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی تشخیص شدہ نفسیاتی مرض میں مبتلا نہ ہو، تو کیا اس کی ذہنی صحت کو اطمینان بخش قرار دیا جا سکتا ہے؟ تواس کا جواب کچھ وضاحت کا متقاضی ہے۔ نفسیاتی مرض نہ ہونا بلاشبہ بہت ضروری ہے، مگر کئی اہم محرّکات اور حقائق بھی ہمارے پیش نظر رہنے چاہئیں۔ محض نفسیاتی مرض کی غیرموجودگی کافی نہیں ۔ عالمی ادارئہ صحت اور ماہرینِ صحت کا خیال ہے کہ اچھی ذہنی صحت کا حامل اُسی شخص کو قرار دیا جا سکتا ہے، جس میں درج ذیل خُوبیاں بدرجۂ اتم موجود ہوں۔
٭اپنی صلاحیتوں سے اچھی طرح واقف ہو۔
٭اس کے اندر اتنی استطاعت ہو کہ وہ روزمرّہ زندگی کے دبائو کا سامنا کر سکے۔
٭کوئی نہ کوئی فائدہ مند کام کرسکتا ہو۔
٭اس قابل ہو کہ معاشرے کو کوئی نفع پہنچا سکے۔
اس موقعے پر ہمیں ان علامات سے بھی آگاہ ہونا چاہیے، جن کی موجودگی ہمارے لیے تنبیہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ جب بھی کسی شخص میں بعض مخصوص علامات محسوس ہوں، تو ہمیں خبردار ہوجانا چاہیے کہ ایسے شخص کی ذہنی صحت متاثر ہو سکتی ہے یا پھر وہ کسی نفسیاتی مرض میں بھی مبتلا ہو سکتا ہے۔
مثلاً اگر کسی فرد میں معمول سے زیادہ فکر، پریشانی،خوف اور بے چینی پیدا ہو جائے، مختلف معاملات میں غیر ضروری طور پر شک و شبہ کرے، مسلسل غم زدہ اور اُداس نظر آئے، مزاج میں معمول سے ہٹ کر تبدیلی محسوس ہو (یہ تبدیلی یاسیت، غیر معمولی مسّرت، غصّے اور چڑچڑے پَن کی شکل میں ظاہر ہوسکتی ہے)، پہلے بہت ملن سار اور زندہ دِل ہو، پھریک دَم ہی سماجی دُوری اختیار کرلے اور تنہائی پسند ہوجائے، بھوک اور نیند کے معاملے میں ڈرامائی تبدیلی واقع ہو(جو کمی و بیشی دونوں صُورتوں میں ہو سکتی ہے)،تو ہمیں اس پر بَھرپور توجّہ دینی چاہیے۔ عین ممکن ہے کہ ایسا شخص کسی نفسیاتی مرض میں مبتلا ہوچُکا ہو یا مستقبل قریب میں مبتلا ہوجائے۔یوںتو نفسیاتی امراض کی ایک طویل فہرست ہے، مگر چند اہم اور عام امراض کا ذکر ضروری ہے۔مثلاً:
٭یاسیت :(Depressive Disorder): اس مرض میں مبتلا فرد شدید اُداسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ کسی کام میں اس کا دِل نہیں لگتا۔ اپنا وجود بے مقصد اور بے قیمت محسوس ہوتا ہے۔ خودکُشی کے خیالات آتے ہیں۔
٭گھبراہٹ:(Anxiety Disorder)اینزائٹی کے شکارا فراد بے چینی، فکرمندی، ڈر اور خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ مریض کئی جسمانی طبّی تکالیف کی بھی شکایت کرتا ہے، جن میں دِل کی دھڑکن بڑھنا، ہاتھ پائوں ٹھنڈے ہو جانا، لرزہ طاری ہونا اور پسینے کا غیرمعمولی اخراج وغیرہ شامل ہیں۔ پھرگھبراہٹ یا انزائٹی کی بھی مزید کئی اقسام ہیں۔
٭شیزوفرینیا(Schizophrenia) : یہ ایک بے حد خطرناک مرض ہےکہ اس میں انسان کی شخصیت ،سوچ، رویّے اور گفتگو میں شدید بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔مریض کو عجیب و غریب قسم کے اوہام ہوتے ہیں۔ اُسے یہ یقین ہو جاتا ہے کہ لوگ اس کے خلاف ہو چُکے ہیں اور مختلف سازشوں میں مصروف ہیں۔ بعض اوقات آوازیں سُنائی دیتی ہیں، مگر بولنے والا فرد موجود نہیں ہوتا۔
٭دوقلبی مزاج کا بگاڑ (Bipolar Affective Disorder): اس مرض میں مبتلا فرد کو دو قسم کے دورے پڑتے ہیں، جو چند دِنوں سے لے کر کئی ماہ تک طویل ہو سکتے ہیں۔ کبھی وہ یاسیت کا شکار ہوجاتا ہے، تو کبھی بالکل مخالف سمت میں چلا جاتا ہے، جہاں انتہائی سرخوشی کا عالم اس پر طاری ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو انتہائی عظیم ہستی سمجھنے لگتا ہے اور بہت زیادہ متحرّک ہو جاتا ہے۔ بعض لوگوں کا مزاج انتہائی جارحانہ ہوجاتا ہے اور وہ دوسروں پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔
٭شخصیت کا بگاڑ:(Personality Disorder): عمومی طور پر شخصیت کے بگاڑ میں مبتلا افراد کو نفسیاتی مریض نہیں سمجھا جاتا ،کیوں کہ یہ عام لوگوں کی طرح معاشرے میں زندگی گزارتے ہیں، مگر ان کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل عام افراد سے مختلف ہوتی ہے۔ نیز، وہ مختلف مسائل کا بھی شکار رہتے ہیں۔ اگرچہ ہر دَور ہی میں نفسیاتی عوارض موجود رہے ہیں، مگر اب ہماری مشینی زندگی نے ان میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ زندگی کی فطری سادگی اور دِل کشی معدوم ہو گئی ہے اور ہمارے مثبت جذبات و احساسات کو جدید آلات نے برباد کردیا ہے۔
اِسی لیے شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے کہا تھا ؎ ہے دِل کے لیے موت مشینوں کی حکومت…احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات۔بہرکیف، دُنیا بَھر میں نفسیاتی امراض میں غیر معمولی اضافے سےجب عالمی حلقوں میں بے چینی اور تحرّک پیدا ہوا، تو 2013ء میں ورلڈ ہیلتھ اسمبلی کا اہم اجلاس منعقد ہوا،جس میں 194اراکین مُمالک کے وزرائے صحت نے شرکت کی۔ اس موقعے پر عالمی ادارۂ صحت نے 2013ء تا 2020ء تک خصوصی منصوبہ بندی کا اعلان کیا۔ 2019ء میں منعقدہ اجلاس کے دوران اس منصوبے کو 2030ء تک توسیع دے دی گئی۔
اب پوری دُنیا میں اس 17سالہ منصوبے کے تحت ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں، جن کے ذریعے نفسیاتی امراض پر قابو پانے میں کچھ مدد مل سکے گی،مگر بات یہ ہے کہ نفسیاتی عوارض پر اُس وقت تک قابو نہیں پایا جا سکتا، جب تک ہمیں نفسیاتی امراض کی وجوہ کا علم نہ ہو۔ کوئی بھی نفسیاتی مرض لاحق ہونےکی وجہ جاننے کے لیے عموماً تین عوامل یا اسباب پر نظر رکھنی چاہیے۔
٭مرض کی طرف مائل کرنے والے عوامل: یہ عوامل ابتدائی زندگی کے ساتھ موجود ہوتے ہیں، جنہیں انگریزی میں Predisposing Factors کہا جاتا ہے۔ کسی بھی نفسیاتی مرض کو جنم دینے میں ان کا کرداراہم گردانا جاتاہے۔ ان میں سے کچھ عوامل موروثی ہیں، جب کہ کچھ کا تعلق انسان کے ماحول سے ہوتا ہے۔پیدایش سے لے کر سنِ بلوغت تک پائے جانے والے عوامل پر ماہرینِ نفسیات بطورِ خاص توجّہ دیتے ہیں۔٭مرض کا آغاز کرنے والے اسباب: یہ وہ اسباب ہیں، جو مرض کے آغاز کے وقت پائے جاتے ہیں اور بظاہر بیماری کو جنم دینے کا باعث بنتے ہیں۔
انہیں انگریزی زبان میں Precipitating Factors کہا جاتا ہے۔ اگرچہ اس قسم کے عوامل تمام افراد کی زندگی میں موجود ہوتے ہیں ،لیکن ہر فرد مختلف انداز میں ان کے اثرات قبول کرتا ہے۔ ان کا تعلق قوّت ِ برداشت، شخصیت اور کردار کی تعمیر اور ماحول سے ہوتا ہے۔٭بیماری کو طوالت دینے والے اسباب: انہیں انگریزی میں Perpetuating Factors کہا جاتا ہے۔ یہ مرض کی تشخیص اور علاج کے ضمن میں خاصی اہمیت رکھتے ہیں، جنہیں قطعاً فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ بعض اوقات مریض میں اوّل الذکر دونوں عوامل معدوم ہوچُکے ہوتے ہیں یا ان پر کام یابی سے قابو پالیا جاتا ہے، مگرچوں کہ مرض کو طول دینے والے عوامل اپنا کام جاری رکھتے ہیں، تو ان کے نتیجے میں مریض کی مکمل صحت یابی مشکل امر بن جاتی ہے۔
ان تینوں اقسام کے عوامل کو سہ جہتی یعنی جسمانی، نفسیاتی اور سماجی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ موجودہ دَور میں صرف نفسیاتی ہی نہیں، بلکہ ہرمرض کو اسی تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ دُنیا بَھر میں نفسیاتی عوارض پائے جاتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ مریضوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ترقّی یافتہ مُمالک جیسے یورپ اور امریکا وغیرہ میں نفسیاتی بیماریوں کے علاج کے لیے نہ صرف جگہ جگہ معیاری اسپتال اور طبّی مراکز قائم کیے گئے ہیں، بلکہ لوگ بھی بڑی تعداد میں علاج کی غرض سے ان اسپتالوں اور طبّی مراکز کا رُخ کرتے ہیں۔
ایک جائزے کے مطابق امریکا میں ہر فرد زندگی میں کم ازکم ایک بار نفسیاتی امراض کے معالج سے رابطہ ضرور کرتا ہے۔ اس حوالے سے تیسری دُنیا کے مُمالک، خصوصاً پاکستان کی صُورتِ حال خاصی تشویش ناک اور ناگفتہ بہ ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے جاری کردہ حالیہ اعدادو شمار کے مطابق پوری دُنیا کے تقریباً ایک ارب افراد کسی نہ کسی ذہنی مرض میں مبتلا ہیں۔ اہم تر بات یہ ہے کہ ان میں سے ہرساتواں فرد نوجوان ہے۔ عالمی ادارے کے مطابق کورونا وائرس کی وبا کے پہلے سال میں یاسیت اور گھبراہٹ(ڈیپریشن اینڈاینزائٹی) جیسے عوارض کی شرح میں25فی صد سے زائد اضافہ ہوا۔
عالمی ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ نفسیاتی امراض میں مبتلا 70فی صد افراد کو وہ تعاون نہیں مل پاتا، جس کی انہیں ضرورت ہوتی ہے۔ کم آمدنی والے مُمالک میں صرف12 فی صد مریض ہی اپنا علاج کرواپاتے ہیں،جب کہ ڈیپریشن کے مریضوں کے حوالے سے جاری کردہ اعدادوشمار صُورتِ حال کی سنگینی میں مزید اضافہ کررہےہیں، کیوں کہ زیادہ آمدنی والے مُمالک میں ڈیپریشن کے صرف 23فی صد مریضوں کو علاج کی سہولتیں میسّر ہیں، جب کہ درمیانی اور کم آمدنی والے مُمالک میں یہ شرح صرف تین فی صد ہے۔
اگر پاکستان کا جائزہ لیا جائے، تو خاصی پریشان کُن صُورتِ حال نظر آتی ہے کہ یہاں نفسیاتی امراض، کُل بیماریوں کا 4فی صد حصّہ ہیں، جب کہ ڈھائی سے تین کروڑ افراد ایسے ہیں، جنہیں نفسیاتی بیماریوں کے علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں مجموعی طور پر نفسیاتی امراض کے معالجین کی تعداد پانچ سو سے ایک ہزار کے درمیان ہے، جو مریضوں کی نسبت بہت ہی کم ہے۔اس ضمن میں عالمی ادارۂ صحت کے مطابق پاکستان میں ہر 5لاکھ افراد کے لیے صرف ایک نفسیاتی امراض کا معالج موجود ہے۔
ایک طرف نفسیاتی امراض کے ماہرین کا فقدان ہے، تو دوسری طرف نفسیاتی مریضوں کی تعداد میں ہوش رُبااضافہ ہو رہا ہے۔ شیزوفرینیا جیسا خطرناک مرض دُنیا کی ایک فی صد آبادی میں پایا جاتا ہے۔ اگر کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ نفوس پر مشتمل ہے، تو ان میں سے ڈھائی لاکھ افراد شیزوفرینیا کے مریض ہیں۔
پوری دُنیا میں عمومی گھبراہٹ کی بیماری جنرلائزڈ اینزائٹی ڈِس آرڈر میں 4فی صد افرادمبتلا ہیں۔ مجموعی طور پر دُنیا کے تیس فی صدافراد اینزائٹی میں مبتلا ہیں۔ کم و بیش دس فی صد یاسیت یا ڈیپریشن کی بیماری کا شکار ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہاں عوام الناس میں شعور و آگہی کا فقدان پایا جاتا ہے۔ زیادہ تر افراد نفسیاتی بیماری کو سفلی علم، تعویذ، کالے جادو اور جنّات کے اثرات کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ ایسے مریض علاج کے لیے کسی سند یافتہ معالج کے پاس جانے کی بجائے مزارات پر چلےجاتے ہیں یا کسی جعلی عامل، پیر فقیر اور روحانی معالجین سے رابطہ کرتے ہیں۔ بعض مزاروں پر نفسیاتی مریضوں کو علاج کی غرض سے درختوں سے باندھ دیا جاتا ہے یا زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے۔
یہ امر بھی افسوس ناک ہے کہ ہمارے یہاں زیادہ تر افراد ہر نفسیاتی مرض کو پاگل پَن یا دیوانگی سے تعبیر کرتے ہیں۔ اگر ڈیپریشن کے مریض کو علاج کے لیے ماہرِ امراضِ نفسیات کے پاس بھیجا جائے، توعمومی طور پریہی جواب ملتاہے، ’’ہم کوئی پاگل نہیں ، جو نفسیاتی علاج کروائیں۔‘‘ نفسیاتی امراض کے معالج کے پاس جانا معاشرے میں بہت بڑا عیب سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر لڑکیوں کے معاملے میں والدین حد درجہ حسّاس ہوتے ہیں۔ لڑکیوں کے نفسیاتی علاج کو پوشیدہ رکھا جاتا ہے، تاکہ ان کی شادی کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے۔ سو، ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلے معاشرے میں نفسیاتی امراض سے متعلق رائج غلط سوچ کی بیخ کنی کی جائے۔
نفسیاتی مرض میں مبتلا مریضوں کو ہتک آمیز رویّوں سے بچانے کے ساتھ ان کی عزتِ نفس اور خود آگاہی بہتر کرنے کی حتیٰ الامکان کوشش کی جائے۔پھر سب سے اہم، ہمیں معاشرے میں یہ شعور بھی اُجاگر کرنا ہوگا کہ نفسیاتی مرض قطعاً کوئی عیب نہیں۔ نفسیاتی ِامراض قابل ِعلاج ہیں اوران کا علاج اتنا ہی ضروری ہے، جتنا جسمانی امراض کاہوتا ہے، تاکہ ذہنی امراض کے مریض اور ان کے اہلِ خانہ ماہرینِ نفسیات سے رجوع کرنے میں کسی قسم کی عار محسوس نہ کریں۔ (مضمون نگار، نفسیاتی امراض کے ماہر ہیں۔رفاہ انٹرنیشنل اسپتال، اسلام آباد میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔نیز، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) پنجاب کے جنرل سیکرٹری بھی ہیں)