• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تیرا یہ ڈارنا ،تیرا یہ دھمکانا اس بات کا ثبوت ہے کہ تحریک انصاف کے نامعلوم کردار اپنا کام کر رہے ہیں،ہاں!تحریک انصاف کے ویسے تو کئی کردار ہیں لیکن کچھ کردار ایسے ہیں کہ ہر کوئی دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتا رہا ہے اوریہ کوشش کر بھی رہاہے کیونکہ ان کرداروں کی خواہش ہے کہ دوسرے کردار کی نہیں،بلکہ میری زیادہ بلے بلے ہو لیکن جس گھر میں سارےہی چوہدری ہوں اس گھر کی زیادہ دیرتک خیر نہیں ہوا کرتی۔ان کرداروں کی کئی بار ملاقات ہوئی ،کئی بار وعدے لئے اوردئیے گئے لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے،کیونکہ ملاقات کرنے والےایک سے زائد کردار گارنٹی دینے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہیں ،ادھر ایک کردارہامی بھر کرآتا ہے تو دوسرے جلسے میں نیا محاذ کھل جاتا ہے کیونکہ جس کی خوشی ،بہتری یا پھر خوشامد کے لئے یہ کردار اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں اسے کوئی بات ہضم ہی نہیں ہوتی۔اب ان کرداروں پردونوں طرف یعنی جہاں ملاقات کی جاتی ہے اور جہاں آکر ملاقات کی اطلاع دی جاتی ہےپرکوئی اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں ،اسی لئے میرے کپتان نے جس رات خاص مقام پر، خاص شخصیت کی فرمائش پر ،خاص پاور والی شخصیت سے ملاقات کی ، اگلی صبح اسی مقام پر جلسہ عام میں کہا کہ یہ ہوتے کون ہیں ،ان کی جب کال آئے، تو آگے سے کھری کھری سنائیں اور ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ خبردار ! کسی نے اگر مجھے بائی پاس کر کے ملاقات کی ،لیکن کپتان کی بڑھکوں کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ رابطوں کے پل ٹوٹ گئے ہیں ۔ہاںملاقاتیں کرنے والوں کو ہمیشہ تسلی دی جاتی ہیں کہ پریشان نہ ہوں ،ہم مجبور ہیں جمہوری تسلسل پوری طاقت سے جاری وساری ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ جو ہوا یا کیا گیا، بہرحال اب صورت حال یہ ہے کہ تحریک انصاف کے تمام کردار اپنی اپنی دوڑ ، برتری، کارکردگی زیادہ سے زیادہ دکھانے کے چکر میں جہاں اپنا نقصان کر رہے ہیں وہاں تحریک انصاف کا بھی نقصان ہورہا ہے ۔عمران خان صاحب کو تمام کردار یہ بات واپسی پر ضرور بتاتے ہیں کہ ہم ٹمپریچر بہت زیادہ دیکھ کر آئے ہیں ،جواب میں عمران خان بھی یہ کہتے ہوئے پائے گئے ہیں کچھ نہیں ہوتا میں نے پوری دنیا گھومی ہے ،میں ان کی نفسیات کو سمجھتا ہوں جتنا زیادہ سخت مؤقف ان کے ساتھ اختیار کیا جائے گا اتنا ہی زیادہ تحریک انصاف کا فائدہ ہوگا جتنی زیادہ نرمی برتی جائے گی اتنی ہی زیادہ دیر سے ٹیبل پر آئیں گے۔ ایک کردارجب دوسرے سےاوردوسرا تیسرے کردار سے ملتا ہے تو یہ ضرورکہتا ہے کہ ہاں کپتان کی اس بات میں وزن ہے کیونکہ مسلم لیگ ن کے سربراہ کو سخت پالیسی اپنانے کی بنیاد پر ہی ریلیف ملا تھا ۔

دوسری طرف کپتان کو ایک ہی فکر ہے اور ایک ہی کام کرنے والا ہے کہ پارٹی میں جن لوگوں کو کالز آئیں بس وہ ادھر ادھر نہ ہونے پائیں اور جو لوگ زیادہ سے زیادہ ہماری پارٹی میں داخل ہونا چاہتے ہیں، ان کو پارٹی میں شامل کرتے جائیں تاکہ مقبولیت کاگراف نیچے نہ آئے اور لوگوں کے ذہنوں میں اس بات کو مستحکم کرنے کی کوشش کی جائے کہ اس وقت بھی تحریک انصاف ہی سب سے مقبول جماعت ہے اور جو ہمارا بیانیہ مارکیٹ میں کامیاب ہو چکا ہے اسی کی تصدیق میں لگے رہیں ۔ امریکی اوربرطانوی دوست اورسوشل میڈیا کے لوگوں کو اس بات کی کھوج میں لگائے رکھیں کہ روز یا ہفتہ یا پندرہ دن بعد ہمارے بیانیے کی سچائی کے اوپر کوئی نئی بات تلاش کر کے مجھے دیتے رہیں ۔تمام نامعلوم کرداروں کو کپتان اکٹھانہیں ملتا اور ہر کردار کو یہ کہا جاتا ہے کہ شاباش آپ بہت اچھا کام کر رہے ہیں ،مجھے آپ کی کہیں بھی خاص جگہ پر خاص ضرورت پڑ سکتی ہے ۔جو خبریں میں نے آپ کو بتائی ہیں یا آپ نے مجھ سے شیئر کی ہیں یہ آوٹ نہ ہونے پائیں ، خان صاحب کہتے ہیںکہ اہم اجلاسوں میں خاص باتوں کو اشاروں میں کریں یا پھر لکھ کر کریں کیونکہ ٹیپ کرنےکی صلاحیت بہت زیادہ ہے ۔

سب نامعلوم کردار ایک صوبے سے بھی تعلق نہیں رکھتے بلکہ کئی صوبوں کے لوگ اپنے اپنے سنٹر انچارج کے ذریعے اس پر کام کر رہے ہیں ،چالاک ،ہوشیار اور لومڑی کی چال چلنے والےنامعلوم کردار سب کو پتر(بیٹا) دے کر روانہ کرتے ہیں اور پتر دینے کا سلسلہ جاری وساری ہے ۔ حالات کی نزاکت بلکہ حالات کی سختیوں سے تنگ آ جانے والے لوگ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ حالات نارمل ہونے کا نام نہیں لے رہے ۔اجہتاد کالم ایک سے زائد بار کہہ چکا ہے کہ جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی صاحب یہ فائل بنا کر گئے ہیں کہ اگلے 30 سال الیکشن پانچ سال کے بعد ہی ہوں گے جس نے جو تبدیلی لیکر آنی ہے وہ پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ذریعے لیکر آئے ،لیکن میرا وجدان یہ کہتا ہے کہ اگر کپتان عمران خان صاحب نے لانگ مارچ کی کال دی بھی ،تو شائد وہ کامیاب نہ ہو لیکن الیکشن اپنے وقت پر ہی ہوں گے ، ہاں البتہ اللہ کی حکمتوں کے سامنے تمام تدبیروں کی کوئی حیثیت نہیں ۔

میلاد مصطفیٰ کا مہینہ ہے سیرت مصطفیٰ ﷺ کو اپنانا وقت کی ضرورت ہے ۔توآج ہم پاکستان کے ایک سیرت نگارڈاکٹر پیر طارق شریف زادہ کی بات کرتے ہیں، آپ چکوال کے معروف دینی و صوفی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ حافظ قرآن، فاضل درس نظامی ،مصنف ،شاعر ، خطاط ،مصور اورپی ایچ ڈی’’پراجیکٹ مینیجمنٹ‘‘ امریکہ سے ہیں،دنیا بھر میں سینکڑوں سیمینارز،ٹی وی پروگرامز میں سیرت النبی ﷺ، اسلاموفوبیا، بین المذاہب ہم آہنگی، تصوف اور اقبالیات پہ پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ حلقہ دروداور صوفی ادیب اشفاق احمد رحمہ اللہ کی جاری کردہ ماہانہ’’مجلس زندہ دلاں‘‘جیسی فکری نشست کا اہتمام مسلسل کررہے ہیں۔ڈاکٹر پیر طارق شریف زادہ سے کام جس طرح حکومت اور عوام کو لینا چاہیے نہیں لیا جار ہا ۔

تازہ ترین