• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہاولپور کا شمار پاکستان کے اُن پرسکون اور محبت بھرے شہروں میں ہوتا ہے جہاں کی میٹھی سرائیکی اور میٹھے لوگ کبھی نہیں بھلائے جاسکتے۔ یہ فنکاروں، تخلیق کاروں اور ہنرمندوں کا شہر ہے۔ اس کی نوابی اہمیت اپنی جگہ لیکن یہ آج بھی علم و ادب اور ثقافت کے رنگوں میں رنگا ہوا ہے۔ یہاں کی اسلامیہ یونیورسٹی ملک کی ممتاز یونیورسٹیز میں شمار ہوتی ہے اور اسے اِس مقام تک لانے میں وائس چانسلر انجینئر ڈاکٹر اطہر محبوب کا بہت بڑا کردار ہے۔ میری ڈاکٹر صاحب سے چند ملاقاتیں ہیں لیکن ان کی علمیت اور نرم خو طبیعت کا حصار ایسا ہے کہ کبھی کبھی میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ ایسی باکمال شخصیت سے ملاقات میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی۔علم کا ایک سمندر ہے جو اُن کے اندر موجزن ہے۔ اٹھتے بیٹھتے ان کی ایک ہی خواہش ہے کہ ملک ترقی کرے، طلبا کو تعلیم کے اچھے سے اچھے مواقع فراہم کیے جائیں اور یونیورسٹیز کی فضا میں تحقیق اور مکالمے کی فضا کو فروغ دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے یہ دیگر سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اسلامیہ یونیورسٹی میں مختلف موضوعات پر سیمینارز کا انعقاد بھی کرتے رہتے ہیں۔ اس بار انہوں نے یہ ذمہ داری ڈاکٹر جام سجاد کو سونپی اور پاکستان کو درپیش معاشی اور سماجی مسائل کے حوالے سے سیمینار کا انعقاد کیا۔ جام سجاد میرے پرانے دوست بھی ہیں اور بذات خود بہت شاندار شخصیت کے مالک ہیں۔حس ِ مزاح کمال کی پائی ہے اورجس محفل میں بیٹھتے ہیں اسے کشت ِ زعفران بنا دیتے ہیں۔ لاہور سے دس پندرہ شخصیات کا بہاولپور جانا، ایک رات قیام کرنا، یونیورسٹی کا وزٹ اور پھر سیمینار میں شرکت، یہ جوئے شیر کوئی آسان کام نہیں۔ جام سجاد نے دو ماہ پہلے سے اس کی تیاری شروع کر دی تھی اور جتنا انہوں نے خود اس کام کو سر پر سوار کیا اتنا ہی میرا بھی جینا حرام کیے رکھا۔ بعض اوقات تو دن میں دس دفعہ ان کی کال یا میسجز آتے رہے۔اصل میں کام کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ اس کے ساتھ جڑ ا جائے۔ جام سجاد نے پہلے شخصیات کی لسٹ فائنل کی، پھر سب سے رابطہ کیا، سب کو کنفرم کیا اور پھر ایسا پروگرام ترتیب دیا کہ جو احباب ہمارے ساتھ بہاولپور گئے تھے وہ پھر بہاولپور کے ہی گن گاتے ہوئے واپس آئے۔ اسلامیہ یونیورسٹی کی پرشکوہ عمارت دوحصوں پر مشتمل ہے، ایک اولڈ کیمپس کہلاتا ہے اور دوسرا نیوکیمپس یا بغداد کیمپس۔ دونوں کیمپس دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ میری یہاں مالی، چوکیداروں اور کچھ ایسے اسٹاف کے لوگوں سے ملاقات ہوئی جن کا بظاہر یونیورسٹی کی تعلیمی سرگرمیوں سے براہ راست تعلق نہیں اس کے باوجود یہ لوگ بھی معترف نظر آئے کہ اسلامیہ یونیورسٹی ایسی کبھی نہیں تھی جیسی آج ہے۔ مجھے خود بھی یاد ہے بہت عرصہ پہلے غالباً 1989میں مجھے اسلامیہ یونیورسٹی آنے کا موقع ملا تھا، تب میں اباجی کے ساتھ یہاں آیا تھا اور اولڈ کیمپس تک جانے کیلئے ہم سائیکل رکشہ میں سوار ہوکر آئے تھے۔ بہاولپور کی نئی نسل شاید اس بات سے بے خبر ہو کہ یہاں ایک عرصہ تک سائیکل رکشہ چلتا رہا ہے۔ لیکن آج کا بہاولپور بہت مختلف ہے۔یہاں گاڑیاں ہیں، برینڈز ہیں، خوبصورت سڑکیں ہیں، باغات ہیں اور نور محل سمیت دیگر نوابین کے محلات ہیں۔لاہور سے مرشد یاسر پیرزادہ، اوریا مقبول جان، اشرف شریف، رضوان رضی، عباس تابش، فرخ شہباز وڑائچ، نعیم مسعود اور خاکسار جبکہ ملتان سے برادرم سجاد جہانیہ اور نسیم شاہد پہنچے۔ یارِ غار رانا ممتاز رسول ملتان سے اپنی سب مصروفیات پس پشت ڈال کر محض دوستوں کی محبت میں یونیورسٹی پہنچے اور ہمیشہ کی طرح دل جیت لیا۔ یونیورسٹی کی ٹیم نے جس انداز سے مہمانوں کو ویلکم کیا اس نے سفر کی ساری تھکن اتار دی۔ پہلی رات صوفی نائٹ کا اہتمام کیا گیاتھا جس میں طلباء نے ایسی شاندار آوازمیںپرفارمنس دی کہ ایک لمحے کو بھول گیا کہ یہ ابھی اسٹوڈنٹس ہیں۔ یوں لگ رہا تھا جیسے انتہائی پروفیشنل سنگرز اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہاں ڈی پی او بہاولپور عبادت نثار بھی موجود تھے۔ نہایت ینگ اور ہنستی مسکراتی شخصیت ہیں اور بہاولپور کو جرائم سے پاک رکھنے میں دن رات کوشاں ہیں۔ اگلے روز نیو کیمپس میں ڈاکٹر اطہر محبوب صاحب کی طرف سے ایک بریفنگ کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں تفصیل سے یونیورسٹی کی سرگرمیاں اور مستقبل کے پلان بتائے گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ یونیورسٹی میں داخلے کے وقت جو طلبا و طالبات منتخب ہوتے ہیں ان میں سے کئی معاشی مسائل کی وجہ سے فیس ادا نہیں کر پاتے ۔ایسے میں یونیورسٹی ان سے رابطہ کرتی ہے اور اُنہیں آمادہ کرتی ہے کہ آپ تعلیم نہ چھوڑیں ، فیس ہم ادا کریں گے۔ یونیورسٹی کا سیمینار ہال ہمیشہ کی طرح حاضرین سے بھرا ہوا ملا، اور حاضرین بھی جیتے جاگتے جو مکمل توجہ اور انہماک سے مقررین کو سنتے اور برداشت کرتے رہے۔عام طور پر ایسے سیمینارز میںوائس چانسلرز کچھ وقت کے لیے بیٹھتے ہیں اور پھر نکل جاتے ہیں لیکن ڈاکٹر اطہر محبوب شروع سے آخر تک نہ صرف موجود رہے بلکہ اختتامی کلمات میں تفصیلی طور پر یونیورسٹی کی سرگرمیوں اور آئندہ کے لائحہ عمل کا بتایا۔ شام کے وقت ہمیں نورمحل لے جایا گیا جہاں تھری ڈی لائٹس کے ذریعے انتہائی خوبصورت انداز میں نور محل کی تاریخ پر مبنی ڈاکیومنٹری پیش کی گئی۔بہاولپور نوابوں کے ساتھ ساتھ خوابوں کا بھی شہر ہے۔ یہاں کے لوگ خواب دیکھتے ہیں اور پھر اس کی تعبیر کیلئے جدو جہد کرتے ہیں۔آپ یہاں آئیں تو اسلامیہ یونیورسٹی کا ایک وزٹ بھی ضرور کریں۔ یہاں ہر وہ جدید تعلیم دی جارہی ہے جو شاید ابھی بڑے شہروں کی یونیورسٹیز تک بھی نہیں پہنچی۔اتنا شاندار ایونٹ منعقد کرانے پر ڈاکٹر اطہر محبوب، اسلامیہ یونیورسٹی کی انتظامیہ اور خصوصاً جام سجاد کا شکریہ جنہوں نے دِ لّی فتح کردکھایا۔

تازہ ترین