’’بھارت کے آئین کی تمہید میں لکھا ہے۔ سوشلسٹ،سیکولراورڈیموکریٹک(جمہوری) ری پبلک، لیکن آزادی کے 75ویں سال میں یہ سوشلسٹ ہے نہ سیکولر اور نہ ہی جمہوریت ہے۔ ‘‘ یہ ہے بھارت کے ایک ماہر معیشت پروفیسر پرناب پردھان کی تحقیقی تحریر کی ابتدا۔ پرناب 1979سے امریکی یونیورسٹیوں میں اکنامکس کی تدریس میں مصروف ہیں۔ یہ بہت ہی جامع تحریر مؤقر برطانوی جریدے New Left Review کے 136 ویں شُمارے میں شامل ہے۔ میں اپنے آپ کو عالمی تبدیلیوں سے با خبر رکھنے کیلئے اس رسالے کا باقاعدہ خریدار ہوں۔ اس کے علاوہ 150سالہ امریکی جریدے Atlantic۔ ایک اور امریکی میگزین Political Psycology ۔ کا بھی خریدار ہوں۔ ان کے ڈاک سے موصول ہونے پر اسی طرح خوش ہوتا ہوں جیسے بچپن میں جھنگ میں تعلیم و تربیت اور ’کھلونا‘ آنے پر۔
۔۔۔۔۔
آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں سے دوپہر کے کھانے پر ملنے کا دن۔ یہ ایک نسل سے دوسری نسل کو علم کی وراثت منتقل کرنے کی گھڑی بھی ہوتی ہے۔ ا
آج ہم اپنی گفتگو اپنے ہمسائے مگر ازلی دشمن بھارت کے بارے میں اسی مذکورہ بالا تحریر کے حوالے سے مختص رکھیں گے۔ چین کے جنگی ماہر کا زریں قول ہے۔ Know Your Enemy۔ ’اپنے آپ کو پہچانو۔ اپنے دشمن کو پہچانو۔‘ پورا قول کچھ اس طرح ہے:
’’اپنے دشمن کو جانو۔ اپنے آپ کو جانو۔ پھر سو جنگوں میں بھی شکست نہیں کھائو گے۔ جب آپ اپنے دشمن کے بارے میں بے خبر ہیں۔ لیکن اپنے بارے میں جانتے ہیں تو ہارنے جیتنے کے امکانات برابر ہیں۔ اگر آپ دشمن اور اپنے دونوں کے بارے میں بے خبر ہیں تو ہر جنگ میں شکست یقینی ہے۔‘‘
ہم بھارت کو عسکری۔ سیاسی۔ سفارتی اور اقتصادی طور پر اپنا دشمن تو سمجھتے ہیں لیکن اس کو صحیح طور پر جاننے کے لیے ہمارے ہاں باقاعدہ ادارے نہیںہیں۔ میڈیا سے صرف کشمیر کے حوالے سے تو رپورٹیں جاری کی جاتی ہیں لیکن اہم شعبوں معیشت۔ زراعت۔ شاہراہوں۔ پلوں۔ ٹیکنالوجی۔ تعلیم۔ صحت میں بھارت کی کامیابیاں۔ ناکامیاں ہمارے ہاں تجزیہ نہیں کی جاتیں۔ خاص طور پر 2014 سے نریندرمودی کی متعصب۔ مسلمان دشمن۔ اقلیت مخالف۔ ہندو انتہا پسندی کے حوالے سے پاکستانیوں کو با خبرنہیں رکھا جا رہا۔ میں نے کوشش کی تھی۔ ایک کتاب ’بھارت میںبلیک لسٹ‘ میں شملہ سے آگرہ مذاکرات تک کا احاطہ کیا۔ پھرتعلیم کے شعبے میں بھارتی پیش رفت پر ’ترقی کرتا دشمن‘ کتاب لکھی۔ یہ توخیر برسبیل تذکرہ تھا۔ پرناب پردھان بڑی اہم کتابوں کے مصنّف ہیں۔ چین اور بھارت کی معیشت کے بارے میں ’جنات کی بیداری‘۔ پھر ’کرپشن اورترقی‘۔ پھر ’عدم مرکزیت اور احتساب۔‘
میرے خیال میں تو پرناب پردھان کی ہر تحقیق پر ہماری نظر ہونی چاہئے۔ ان کی زیر تبصرہ تحریر ’نیا بھارت‘ کا اختتام انہوں نے بڑی جرأت سے یہ کیا ہے، ’ہندی۔ ہندو۔ ہندوستان کا منصوبہ‘۔ جس میں دنیا کی سب سے بڑی اقلیت 20کروڑ مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے وقار اور حقوق پامال کیے جارہے ہیں۔ ہندو اکثریت پر انحصار کرکے مذہب سے بھری قوم پرستی پھیلائی جارہی ہے۔ ریاستوں پر مرکزی حکومت کی یلغار ہے۔ سپریم کورٹ 2014 سے اب تک خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ مودی کو لوگوں کے آئینی حقوق کی بیخ کنی کی اجازت دے رہی ہے۔ مودی نے مملکت اور مذہب کے درمیان جو اصولی فاصلہ ہوتا ہے اس کو ختم کردیا ہے۔
پرناب پردھان کی 20سے زیادہ صفحات پر یہ مبسوط تحریر عالمی معیاری اصولوں کے تحت نئے بھارت کا تجزیہ کرتے ہوئے گواہی دے رہی ہے کہ شاہراہوں کا جال توبچھایا گیا ہے جو شہروں کو آپس میں ملارہی ہیں ۔ لیکن بھارت میں بستے انسانوں کو آپس میں ملانے والی شاہراہیں اور پل مسمار کردیے گئے ہیں۔ بی جے پی نریندرمودی کو ایک مسیحا اور سورما ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ اس کے لیے اربوں روپے صَرف کیے جارہے ہیں۔ سوشل میڈیا کو بطور خاص استعمال کیا جارہا ہے۔ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ معیشت میں چین بہت آگے نکل گیا ہے ۔ ایک شخص کو ہر مرض کی دوا قرار دینے سے بھارت بطور ریاست ناکام ہوتا جارہا ہے۔ بھارت کی پیش رفت میں رکاوٹوں کا مطالعہ کرتے ہوئے پرناب کا کہنا ہے کہ انفر اسٹرکچر (شاہراہیں، پل، بندرگاہیں، ایئر پورٹ، ٹرانسپورٹ) صحت، تعلیم کے شعبے لڑکھڑارہے ہیں۔ ہر اختیار کو مرکز میں مرتکز کرنے کی شعوری کوششوں نے ریاستوں کو بے دست و پا کردیا ہے۔ ان میں صرف اپوزیشن پارٹیوں کی سرکار والی ریاستیں نہیں بی جے پی کی ریاستی حکومتیں بھی شامل ہیں۔ ریاستوں کے اختیارات یکطرفہ طور پر ختم کیے جارہے ہیں۔ ریاست کی اہلیت ایک فرد کی حاکمیت کے آگے سرنگوں ہورہی ہے۔ ریاستیں بلدیاتی اداروں کے مالیاتی اختیارات سلب کررہی ہیں۔ کورونا میں مرکزی حکومت نے بہت زیادہ سختی کا مظاہرہ کیا۔ ریاستوں کی مشاورت کے بغیر لاک ڈائون لگایا، جس سے لاکھوں نوجوان بے روزگار ہوئے۔ حقیقت یہ ہے کہ صحت عامہ میں بھارت بہت سے افریقی ممالک سے بھی پیچھے رہ گیا ہے۔ اعلیٰ عہدے مرکز اور ریاستوں میں سیاسی آقائوں کے منظور نظر افراد کو ملتے ہیں۔ وہ بیورو کریٹس مملکت کے وفادار ہونے کی بجائے اپنے سیاسی سرپرستوں کے وفادار ہیں بلکہ بی جے پی کے بھونپو بن گئے ہیں۔ پرناب نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پربھی سخت تنقید کی او رکہا ہے کہ اس کے نتائج بہتر نہیں نکلیں گے۔پرناب نے افسوس ظاہر کیا ہے کہ کشمیر پر یکطرفہ کارروائی پر دوسری ریاستوں نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ ’بیٹی بچائو۔ بیٹی پڑھائو‘ اسکیم کے بجٹ کا 80 فی صد اس کی تشہیر پر صرف کردیا گیا۔
مودی کی اس جمہوریت دشمن، سیکولر ازم مخالف، مسلمان کش پالیسیوں میں آر ایس ایس بازوئے شمشیر زن بنی ہوئی ہے۔ چھوٹی ہندو ذاتوں میں مودی کو دیوتا کا درجہ دینے کیلئے ان کے بینک اکائونٹ میں ہر ماہ براہ راست رقم بھیجی جا رہی ہے۔ انہیں گیس سلنڈراوربیت الخلا مفت فراہم کیے جارہے ہیں۔
پرناب کا حتمی تجزیہ یہ ہے کہ کسانوں کے احتجاج کے بعد مودی کو اپنے یکطرفہ ’کسان قوانین‘ واپس لینے پڑے ہیں۔ اسی طرح ڈیجیٹل ٹیکنالوجی جو اس وقت مودی کا قد بڑھانے میں استعمال ہو رہی ہے۔ وہ دوسری طرف عام بھارتیوں کو متحد کرنے اور مزاحمت منظّم کرنے بھی مدد کر رہی ہے۔ بھارت کے دوبارہ سوشلسٹ اور سیکولر ہونے کا تو امکان نہیں ہے مگر جمہوریت اپنا راستہ بنائے گی اور شخصی آمریت زیادہ دیر نہیں چل سکے گی۔