لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے کہا ہے کہ عدالتوں کے کئی فیصلے اچھی سی پینٹنگ کے سوا کچھ بھی نہیں۔
لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے دوسرے اور آخری روز موسمیاتی تبدیلیاں اور پاکستان میں سیلاب کے موضوع پر مختلف سیشن ہوئے۔
کانفرنس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ آئین میں محفوظ زندگی کا تصور ہے، ایسی زندگی جو ماحولیاتی خطرات سمیت ہر طرح کے خطروں سے محفوظ ہو۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، آئین کا آرٹیکل 9 زندگی گزارنے کی ضمانت دیتا ہے، ہم نے فیصلہ کیا ہے عملی طور پر کچھ کیا جائے۔
جسٹس شاہد کریم نے مزید کہا کہ مساجد کے پانی کے ضیاع پر نوٹس لیا، اس پانی کو محفوظ کیا گیا، داتا دربار مسجد کا پانی محفوظ کیا گیا، اس سے منٹو پارک سیراب کیا جاتا ہے، گاڑیاں دھونے سے ضائع پانی بھی استعمال میں لایا جا رہا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں سے واسا کو پیسہ دلوایا، واسا اب ہاؤسنگ سوسائٹیز سےبراہِ راست چارجز وصول کر رہا ہے، مال روڈ اور لارنس روڈ پر برساتی پانی کے لیے زیرِ زمین واٹر ٹینک بنایا گیا۔
عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں اسکولوں کے نصاب، پاکستان اور بھارت سے متعلق سیشن میں بھارتی مصنفہ ریٹا منچندہ نے بھارت میں تعلیم سے متعلق اظہارِ خیال کیا۔
ریٹا منچندہ نے بھارتی نظامِ تعلیم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کرناٹکا کے ایک اسکول میں حجاب کا مسئلہ سامنے آیا، طالبہ کو اسکول آنے سے روک دیا گیا بلکہ امتحان میں بھی نہیں بیٹھنے دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی طالبہ کو امتحان میں روکنے کا معاملہ عدالت میں بھی گیا، تعلیم سے متعلق پالیسی بہت اہمیت رکھتی ہے، پاکستان اور بھارت کے وجود میں آنے کے بعد تعلیم کے چیلنجز سامنے آئے ہیں۔