• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

29اکتوبر2021ءکا دن میری زندگی کا روگ بن گیا۔ یہ وہ دردناک اور المناک دن ہے جس نے میری اور میری زوجہ کی زندگی کو ہمیشہ کے لئے تاریک کردیا۔ یہ وہ منحوس دن ہے جس دن میرا جوان بیٹا ہم سے ہمیشہ کیلئے بچھڑ گیا۔ جس کا جوان بیٹا ہمیشہ کے لیے بچھڑ جائے، وہی یہ درد محسوس کرسکتا ہے ،جس سے میں دوچار ہواہوں۔ اللہ کریم یہ غم کسی کو نہ دکھائےلیکن جن کا بھی جوان بیٹا ہے وہ ایک لمحہ کیلئے یہ تصور کریں کہ وہ اگر ایسے حالات سے خدانخواستہ دوچار ہوجائیں توان کا کیا حال ہوگا؟ اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے۔ یقین کریں باپ کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ یہ وہ غم ہے جوساری زندگی کا روگ بن جاتا ہے۔کہنا توآسان ہے لیکن اس غم اوردرد کو برداشت کرنا ممکن نہیں۔یہ غم انسان کو زندہ لاش بنادیتا ہے۔ میرے سامنے یہ بات بالکل غلط ثابت ہوئی کہ وقت ہرزخم کا مرہم ہے اور آہستہ آہستہ انسان کو سکون وقرار آجاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس غم میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوا ہے۔

میرے جوان بیٹے کو ہم سے جدا ہوئے ایک سال گزر گیا لیکن دن اور رات میں ایک لمحہ ایسا نہیں گزرا جب ہمیں چین آیا ہو۔ اس تمام عرصہ میں ہر لمحہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کہ یہ آج کا واقعہ ہو۔ کیسے کوئی وہ وقت بھول سکتا ہے اور اس غم اوردرد میں کیسے کمی آسکتی ہے ،وہ کیسے زندگی میں خوش رہ سکتا ہےاور اس وقت کو کیسے فراموش کرسکتا ہے، جب اس کو اچانک جوان بیٹے کے بارے میں یہ خبر ملی ہو کہ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہا ۔ وہ وقت، وہ لمحہ جب اس نے اپنے جوان بیٹے کے لاشے کو دیکھا۔ بے شک اللہ تبارک تعالیٰ نے جتنی بھی زندگی لکھی ہے،والدین اپنی وہ زندگی گزارتے تو ہیں لیکن حقیقت میں وہ زندگی نہیں گزارتے بلکہ زندگی ان کو گزارتی ہے۔ یقین کریں کہ ایسے ماں باپ زندگی سے اکتا چکے ہوتے ہیں لیکن اللہ کے مقررکردہ وقت نے تو پورا ہونا ہوتا ہے۔ ایسے ماں باپ زندہ بھی ہوتے ہیں اور زندگی بھگتانے کے لئے کچھ کام بھی کرتے ہیں لیکن یہ صرف ان کو ہی پتہ ہوتا ہے کہ وہ یہ سب کیسے کرتے ہیں۔ ان کے لیے زندگی ہماری طرح ایک بوجھ بن جاتی ہے۔ یہ وہ غم ہے جس کو بس وہی سمجھتے ہیں جواس سے دوچار ہوتے ہیں یا جوان بیٹوں کے والدین ایسے حال کا تصور کرلیں۔ یہ درد الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔نہ کہیں جانے کو دل کرتا ہے نہ کسی سے بات کرنے اورملنے کو جی چاہتا ہے۔

جوان بیٹا ہی نہیں چلاجاتابلکہ اس کے ساتھ تمام خوشیاں بھی چلی جاتی ہیں اور ایسا ہمیشہ کے لئے ہوتا ہے۔ ذرا غور کریں کہ آپ کی زندگی سے ہمیشہ کے لئے خوشیاں رخصت ہوجائیں۔ خواہشات مر جائیں۔نہ آپکی کوئی خوشی رہے نہ دنیا کی کوئی خواہش رہے نہ دنیا سے کوئی دلچسپی رہے، بس ہمہ وقت ایک ناقابل بیان غم آپ کے دل ودماغ پر حاوی رہے تویہ کیسی مشکل زندگی ہوگی۔ میں یہ کالم کیسے تحریر کررہا ہوں یہ میں ہی جانتا ہوں۔ یہ میری زندگی کا دوسرا مشکل ترین کالم ہے، پہلا کالم میں نے اپنے بیٹے کے بچھڑنے کے چند ماہ بعد لکھا تھا اور آج یہ دوسرا مشکل ترین کالم ہے۔ زیادہ دکھ تو اس بات کا ہے کہ میں کسی بھی قیمت پر اور کسی بھی طرح اس کو واپس نہیں لاسکتا۔ذرا سوچیں کہ ہم کس کرب سے دوچار ہیں کہ اب اس کی واپسی کی نہ کوئی آس ہے نہ امید ۔ اور دیکھیں کہ ہم پھر بھی زندہ ہیں۔ بہت کوشش کی اور اس کوشش میں ناکامی کے بعد بھی دل کو تسلی دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہر بار ناکامی کا ہی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اب عمر جدائی میں تڑپ کر ہی کٹے گی

روٹھے ہیں وہ ایسے کہ منایا نہیں جاتا

یہ سوز محبت ہے نہ دو اشک کے چھینٹے

اس آگ کو پانی سے بجھایا نہیں جاتا

ہمیں دوست احباب جو بلاشبہ ہمارے ہمدرد ہیں اور عزیز واقارب تسلی دیتے رہتے ہیں، یہ ان کی مہربانی ہے لیکن کیا کریں یہ ہمارے بس میں نہیں ہے کہ ہم دل ودماغ کو اطمینان دلا سکیں۔ کسی نے سچ کہا ہے،

سورج سر مژگاں ہے اندھیرے نہیں جاتے

ایسے تو کبھی چھوڑ کے بیٹے نہیں جاتے

تو جانب صحرائے عدم چل دیا تنہا

بچے تو گلی میں بھی اکیلے نہیں جاتے

جو پھول سجانا تھے مجھے تیری جبیں پر

بھیگی ہوئی مٹی پہ بکھیرے نہیں جاتے

میری تمام دوست احباب ، ہمدردوں اور جوان بیٹوں کے والدین سے التماس ہے کہ میرے بیٹے محمد علی شاہ کے لیے ایک بار سورۃ فاتحہ اور تین بار سورۃ اخلاص (ہربار بسمہ اللہ الرحمٰن الرحیم) کے ساتھ تلاوت کردیں اور اس سب کا اجروثواب اس کا نام لے کر اس کو ہدیہ کردیں، اس کو بخش دیں اور اس کے لئے دعائے مغفرت کردیں۔ اللہ کریم آپ سب کو اس کا اجر عطافرمائے۔آمین ثم آمین۔

داغ غم جدائی دل سے مٹا نہ پائے

دنیا کو بھول بیٹھے ان کو بھلا نہ پائے

کوشش تو بہت کی پر ناکام ہی رہے

تازہ ترین