پاکستان تحریکِ انصاف نے اسلام آباد کے لیے لبرٹی چوک لاہور سے اپنے لانگ مارچ کا آغاز کر دیا۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان لبرٹی چوک پر موجود کنٹینر پر سوار مارچ کی قیادت کر رہے ہیں، شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور دیگر رہنما ان کے ہمراہ ہیں۔
اس موقع پر چیئرمین پی ٹی آئی نے لانگ مارچ کے شرکاء سے ناصرف خطاب کیا بلکہ ان سے حلف بھی لیا۔
خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ میرے لیڈر قائدِ اعظم نے انگریزوں سے آزادی دلائی تھی، وقت آ گیا ہے کہ ملک کی حقیقی آزادی کا سفر شروع کریں۔
انہوں نے کہا کہ یہ مارچ سیاست یا ذاتی مفادات کے لیے نہیں، بھارت تو روس سے سستا تیل لے سکتا ہے، غلام پاکستانیوں کو اس کی اجازت نہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ ہم اس ملک کی حقیقی آزادی کا سفر شروع کریں، میرا مارچ سیاست یا الیکشن کے لیے نہیں، ذاتی مفادات کے لیے نہیں، مقصد صرف ایک ہے کہ اپنی قوم کو آزاد کروں۔
ان کا کہنا ہے کہ نہ لندن، نہ واشنگٹن، پاکستان کے فیصلے ملک میں ہوں، ہمیں کوئی حکم نہ دے کہ روس سے سستا تیل لینے کی اجازت نہیں، اس حکومت کی جانب سے 50 سال میں ریکارڈ مہنگائی اب کی گئی ہے۔
سابق وزیرِ اعظم نے کہا کہ اس حکومت نے 1100 ارب روپے کی کرپشن کے کیسز معاف کرائے، ہینڈلرز سمجھتے ہیں کہ مسلط چوروں کو قبول کر لیں گے، یہ قوم ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہے، چوروں کو قبول نہیں کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ اعظم سواتی کو برہنہ کرکے تشدد کیا گیا، اعظم سواتی نے تشدد کرنے والے دو لوگوں کا نام لیا ہے۔
عمران خان کا مزید کہنا ہے کہ شہباز گِل کو پولیس اٹھا کر لے گئی تھی، شہباز گِل کو بھی برہنہ کر کے تشدد کیا گیا، ان کی تصویریں بنائیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے یہ بھی کہا کہ اپنے ملک اور اداروں کی خاطر چپ ہوں، شہباز شریف کی طرح بھگوڑا نہیں ہوں، میں نے اس ملک سے جانا نہیں، جینا مرنا اس ملک کے لیے ہے۔
دوسری جانب مارچ کے حوالے سے اسلام آباد کیپٹل پولیس نے وفاقی دارالحکومت میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی ہے، داخلی راستوں پر ناکے متحرک کر دیے گئے ہیں۔
پی ٹی آئی کی جانب سے لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کے روٹ کا اعلان کیا گیا ہے، لاہور کے لبرٹی چوک سے لانگ مارچ شروع ہو کر اچھرہ، مزنگ اور داتا دربار سے ہوتا ہوا آزادی چوک پہنچے گا۔
آزادی چوک لاہور سے لانگ مارچ کے شرکاء جی ٹی روڈ پر مرید کے، کامونکی اور گوجرانولہ سے ہوتے ہوئے ڈسکہ اور سیالکوٹ پہنچیں گے۔
سیالکوٹ سے لانگ مارچ واپس سمبڑیال کے راستے وزیر آباد جی ٹی روڈ پہنچے گا اور وہاں سے گجرات، لالہ موسیٰ اور کھاریاں سے ہوتا ہوا جہلم پہنچے گا۔
جہلم کے بعد لانگ مارچ گوجر خان میں پڑاؤ کرتا ہوا پہلے راولپنڈی پھر وہاں سے اپنی منزل اسلام آباد پہنچے گا۔
کراچی اور کوئٹہ سے لانگ مارچ کے قافلے آج جبکہ جنوبی پنجاب، ملتان اور خیبر پختون خوا سے قافلے بدھ کو اسلام آباد کے لیے روانہ ہوں گے، تمام قافلے 4 نومبر کو اسلام آباد پہنچیں گے۔
اُدھر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے لانگ مارچ کیلئے ہر رکن اسمبلی کو 1 ہزار افراد لانے کا ٹاسک دے دیا، قیادت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ایک ہزار افراد نہ لانے والے اراکین اسمبلی کے خلاف کارروائی ہوگی۔
پی ٹی آئی ذرائع کا کہنا ہے کہ لانگ مارچ میں کارکنوں کو کھانے پینے کی اشیاء ساتھ لانے کی ہدایات بھی کی گئی ہیں۔
خیبر پختون خوا میں بھی اراکینِ اسمبلی کو کم از کم 1 ہزار افراد لانے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں اور کہا گیا ہے کہ کوئی رکنِ اسمبلی مطلوبہ تعداد نہ لا سکا تو پارٹی اس کے خلاف کارروائی کرے گی۔
سیکریٹری اطلاعات پی ٹی آئی خیبر پختون خوا ظاہر شاہ طورو نے ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لانگ مارچ سے متعلق ارکینِ اسمبلی اور ضلعی تنظیموں کو ذمے دایاں سونپ دی گئی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ مارچ کے لیے خیبر پختون خوا سے قافلے 4 نومبر کو روانہ ہوں گے اور صوبے سے لاکھوں کارکنان لانگ مارچ میں شرکت کریں گے۔
ظاہر شاہ طورو نے کہا ہے کہ پشاور سے قافلے کی قیادت وزیرِ اعلیٰ محمود خان کریں گے جبکہ مردان سے عاطف خان اور صوابی سے قافلے کی قیادت اسد قیصر اور شہرام ترکئی کریں گے۔
دوسری جانب وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ ریاست کو غیر مستحکم کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، سرکاری ملازمین مارچ میں شامل نہیں ہو سکتے۔
وزارتِ داخلہ کے مطابق صوبائی حکومتیں سرکاری ملازمین کے لانگ مارچ میں شرکت نہ کرنے کو یقینی بنائیں، لانگ مارچ کے حوالے سے صوبائی حکومتیں آئین اور قانون کے مطابق عمل درآمد کریں۔
وزارتِ داخلہ نے پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے حوالے سے چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر کی حکومتوں، صوبائی چیف سیکریٹریز اور آئی جیز کو خط لکھ دیا ہے جس میں پی ٹی آئی کے لانگ مارچ سے عدم استحکام پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ تمام صوبائی حکومتیں اور سرکاری ملازمین آئین و قانون کے پابند ہیں۔
وفاقی وزارتِ داخلہ نے خط میں کہا ہے کہ کسی کو زبردستی وفاق پر چڑھائی کی اجازت نہیں دی جا سکتی، وفاق اور صوبائی حکومتوں کو آئین کے تحت اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہیے، آئین کے تحت ہر صوبہ وفاقی قوانین پر عمل درآمد کا پابند ہے، آئین کے آرٹیکل 149 کے تحت وفاق صوبوں کو ہدایات دے سکتا ہے۔
وزارتِ داخلہ کی جانب سے لکھے گئے خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تمام سرکاری ملازمین ریاستی قوانین کے تابع ہیں اور آئین کے تحت فرائض سر انجام دینے کے پابند ہیں، کسی سرکاری ملازم کو لانگ مارچ میں شرکت کی اجازت نہیں دی جائے گی، کسی قیمت پر آئین اور قوانین سے انحراف کی اجازت نہیں ہوگی۔