• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برخوردار سے اسلام آباد بات ہوئی تو اس نے کہا کہ یہاں کا موسم سر شام ہی بہت سر د ہوجاتا ہے خنکی بڑھ گئی ہے جو بتدریج سردی کے قالب میں ڈھل رہی ہے ،البتہ سیاسی اور انتظامی و سرکاری ماحول بہت گرم ہورہا ہے ۔ ایک معرکے کی تیاریاں ہورہی ہیں، جاسوس ،مخبر اور باخبر سب ہی اپنی اپنی خبریں پھیلارہے ہیں۔ مخالف کیمپ میں کیا کھچڑی پک رہی ہے؟ اس بارے میں تازہ ترین اطلاعات کو اکھٹا کرکے ان کا تجزیہ کرکے ،تبادلہ کرکے حکمت عملی میں کلیدی تبدیلیاں لائی جارہی ہیں۔ خدشات ہیں کہ بڑھتے ہی جارہے ہیں، ایک خوف پیدا کیا جارہا ہے ”اہل اسلام آباد “ کے ہر قیمت پرتحفظ کیلئے تمام ممکنہ اقدامات کیےجارہے ہیں، یہاں اسلام آباد اور راولپنڈی کے رہائشی مراد نہیں ہیں۔

کئی دنوں سے کہا جارہا تھا کہ کچھ ہونے والا ہے بڑی خبر آنے والی ہے ملکی سیاست میں بھونچال آرہا ہے ۔پہلے فیصل واوڈا نے” پنڈورا بکس“ کھولا جن کے” بیانِ مسلسل“ کو سرکاری ٹی وی نے بلا کم و کاست قوم کے سامنے ایسے پیش کیا جیسے قوم سے نشری خطاب فرمایا جارہا ہو ۔ اس کے اگلے ہی روز ملک کی عسکری تاریخ میں پہلی بار ہماری دنیا بھر میں جانی مانی جانے والی ایجنسی آئی ایس آئی کے چیف نے پاک فوج کے ترجمان کے ہمراہ پریس کانفرنس کی۔ پہلی بار انہیں قوم نے کسی پریس کانفرنس میں کافی دیر تک دیکھا ،سنا اور ان کے خیالات سے آگاہی حاصل کی ۔ کیا ہی محبِ وطن ،درد دل رکھنے والے اور دوربین نگاہ کی حامل شخصیت ہیں۔ نپے تلےانداز میں سوچ سمجھ کر جملے ادا کرتے ہیں ،باتوں میں قطعیت کی جھلک نمایا ں تھی۔ صاف کہا کہ رات کی تاریکی میں ہونے والی دو ملاقاتیں نتیجہ خیز نہ تھیں ۔ میری واضح پالیسی ہے کہ میری تشہیر نہ کی جائے، آج میں اپنی ذات کیلئے نہیں اپنے ادارے کیلئےآیا ہوں، میرے ا دارے کے جوانوں پر جھوٹی تہمتیں لگائی گئیں اس لیے آیا ہوں۔ہمارے شہیدوں کا مذاق بنایا گیا، اس میں دو رائے نہیں کہ کسی کو میر جعفر، میر صادق کہنے کی مذمت کرنی چاہیے، بغیر شواہد کے الزامات کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ جھوٹ سے فتنہ و فسادکا خطرہ ہوتو سچ کاچپ رہنا نہیں بنتا، میں اپنے ادارے، جوانوں اور شہدا کا دفاع کرنے کیلئے سچ بولوں گا۔میرا ادارہ اور ایجنسی کسی جماعت کے ساتھ نہیں۔ اس مٹی کی خاطر ہمارے بہت سے جوان شہید ہوئے ان کا بھی مذاق اڑایا گیا، مارچ میں میری ذات کے خلاف غلیظ مہم چلائی گئی، ملک کے مفاد کیلئے ضروری تھاکہ ہم اپنے ادارے اور خود کو سیاست سے باہر کر لیں۔ ہم پر بہت دباؤ تھا لیکن اس کے باوجود ہم اپنے آئینی کردار پر قائم رہے۔

ترجمان پاک فوج نے جو سب سے اہم بات کی اور دل میں گھر کر گئی وہ یہ تھی کہ ”ہم کمزور ہوسکتے ہیں، غدار اور سازشی نہیں “۔ اس سے بڑھ کر قوم کو اور کیا یقین دلایا جائے ۔یہ بھی کہا کہ ماضی کی غلطیوں کو بیس سال سے خون سے صاف کررہے ہیں۔ دونوں اصحاب کا یہی کہنا تھا کہ مارچ کے مہینے میں ہم پربہت دباؤتھا ، ہم نے فیصلہ کیا کہ خودکو آئینی کردار تک محدود رکھنا ہے، جنرل باجوہ چاہتے تو اپنے آخری چھ سات مہینے سکون سے گزار سکتے تھے لیکن جنرل باجوہ نے فیصلہ ملک اورادارے کے حق میں کیا، جنرل باجوہ اوران کے بچوں پرغلیظ تنقیدکی گئی ۔ اس وقت جو حکومت وقت تھی جو توسیع کو قانونی طور پر دینے کی مجاز تھی، انہوں نے آرمی چیف کو غیر معینہ مدت تک توسیع دینے کی پیشکش بھی کی ، اس وقت یہ پیشکش اس لیے کی گئی کہ تحریک عدم اعتماد کا معاملہ اپنے عروج پر تھا لیکن آرمی چیف نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا ۔ اگران کی نظر میں سپہ سالار غدار ہے تو ماضی قریب میں ان کی تعریفوں کے پل کیوں باندھتے رہے اورملازمت میں توسیع کیوں دینا چاہتے تھے اور آج بھی چھپ کر ان سے کیوں ملتے ہیں ؟ صحافی ارشد شریف وطن واپس آنے کی خواہش رکھتے تھے ، ان کی زندگی کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا، جب کہ کے پی حکومت نے تھریٹ الرٹ جاری کیا تو ہماری تحقیق کے مطابق ایسا کچھ نہیں تھا۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے انکشاف کیا کہ کینیا کے اپنے ہم منصب کے ساتھ رابطے میں ہوں،میرے منصب اور میرے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ مجھے پس منظر میں رہنا پڑتا ہے لیکن جب میرے ادارے کو بلاجواز تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے تو خاموش نہیں رہ سکتا۔

دو ٹوک الفاظ میں رجیم چینج، عمران خان اور فوج کے تعلقات اور بڑھتے ہوئے فاصلوں ، ارشد شریف کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہ ہونے اورخیبر پختونخوا حکومت کی سہولت کاری کیساتھ بیرون ملک بھجوانے سمیت چار ”عناصر “ کا نام لے کر بات کرنا ،یہ سارے عوامل اس طرف نشاندہی کرتے ہیں کہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکاہے ،جن کی کشتی منجدھار میں ہچکولے کھارہی ہے انہیں کوئی سہارا نہیں ملے گا۔یہ کہنا درست ہے کہ اسلام آباد ایک بار پھر اتھل پتھل ہونے کا متحمل نہیں ہوسکتا، جیسا کہ بار بار کرنسی نوٹ کے نئے ڈیزائن مارکیٹ میں نہیں لائے جاسکتے شاید اسی طرح حکومت بھی نہیں لائی جاسکتی ، یہ جیسی تیسی بھی ہے ،جن الزامات کا بھی بوجھ اٹھائے ہوئے ہے اب اسی کو برداشت کرنا ہوگا۔

تازہ ترین