• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے حالات میں مجھے تیمور لنگ کا دلی پر حملہ کرنے کا شوق یاد آیا جوجنون کی حد تک ایسا تھا کہ پہلے وہ بہت دن تک (مارچ کے لئے نہیں) اپنی فوج اور آلات حرب کی تیاری کرتا رہا۔ اسے سمر قند سے دلی کے فاصلے کا اندازہ تھا، درمیان میں آنے والے پہاڑی راستے، صحرا، دریا، سب چیزیں اس کے ذہن میں تھیں۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ انڈیا پر حکومت کرنے والوں کے پاس بہت سے ہاتھی بھی ہیں۔ تیمور کے پاس گھوڑے تھے۔ وہ موسم کا انتظار بھی کرتا رہا اور اپنی سپاہ کے حوصلے بڑھاتا رہا ،ہرات کے علاقے پہ فتح کا جھنڈا لہرانے کے بعد برصغیر کی جانب بڑھا۔ منگولوں پر حکومت کرنے والے تیمور نے ہندوستان اور خاص کر دلی کو فتح کرنے کی ضد میں لاکھوں لوگوں کو مروا کر، دلی میں سروں کے مینار بنا کر آخر کو اپنا خواب پورا کیا ۔ بہت استادی دکھائی کہ انڈین ہاتھی جو اس کے سامنے اور لشکر کے سامنے آیا اس نے حکم دیا کہ ان کی سونڈیں کاٹ ڈالو۔ ہاتھیوں کی سونڈیں کٹ گئیں تو وہ پریشان ہو کر تیمور کی فوجوں کے سامنے ڈھے گئے۔ اس کے بعد امیر تیمور کو فاتح جہاں کا خطاب دیا گیا مگر جو کچھ کیا، تاریخ نے اس کا حساب بھی خوب لیا۔

تاریخ میں تیمور کو فتوحات کے حوالے سے یاد نہیں کیا جاتا بلکہ سروں کا مینار بنانےکے لئے یعنی بدذہنی یا بد نیت ۔ یہیں مجھے اورنگ زیب کا وہ زمانہ بھی یاد آتا ہے جوکہنے کو تو مغل بادشاہوں میں سب سے زیادہ حکومت کرنے کا زمانہ قرار پاتا ہے۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ ادھر مرہٹے جگہ جگہ سر اٹھا رہے تھے اور ہمارے نصاب میں لکھا گیا ہے کہ آخری عمر میں وہ لوگوں کے لئے ٹوپیاں سی کر اپنی روزی کماتے تھے۔ تاریخ داں یہ بھی لکھ رہے ہیں کہ آخری عمر میں ایک معشوقہ کے جنون میں ایسے فنا تھےکہ حکومت کی طنابیں ہاتھ سے نکلتی جا رہی تھیں۔

اب میں مسولینی اور ہٹلرکی فوجوں کی چڑھائی کے بار ے میں، ان کے انجام سے پہلے ان کے آغاز کو آج کے خود ساختہ لانگ مارچ کا میں کبھی مائو کے لانگ مارچ سے تقابل نہیں کروں گی کہ ایسا لانگ مارچ تو دل گردے اور حوصلےکی بات ہے جو چھ سال تک جاری رہا۔ اس دوران کئی سخت جانوں کو پیچش کی بیماری بھی ہو گئی مگر لانگ مارچ جاری رہا۔

پاکستان میں لانگ مارچ بے نظیر بی بی کی یاد ہے پوری قوم کی کہ اس دن میری والدہ جو واہ میں تھیں، ان کا انتقال ہوا تھا ۔میں لاہور میں تھی، اس زمانے میں آج کے وزیر اعظم، پنجاب کے سربراہ تھے۔ بمشکل ایک دوست مجھے ایئر پورٹ چھوڑ کر گئی۔ نہ لاہور ایئر پورٹ پر نہ اسلام آباد ایئر پورٹ پر نہ فلائٹ ، نہ گاڑی، نہ ٹیکسی کچھ بھی نہ تھا۔ میں پھر بھی اتر کر دفتروں کی سمت چل دی وہ بھی سب بند تھے۔ ایک پولیس آفیسر البتہ ایک کمرے میں بیٹھا تھا۔ شکر ہے اس زمانے میں لوگ ہمیں پہچان لیتے تھے(آج نہیں)۔ میرے رونے سے وہ پریشان ہو کر اٹھا، مجھے تسلی دیتے ہوئے بٹھایا۔ میری والدہ کے بارے میں خبر سن کر وہ خاموش بیٹھ گیا۔ کسی کو فون کیا اور مجھے تسلی سے بیٹھنے کا کہہ کر میرا بیگ لے کر چلا گیا۔ گھنٹہ گزر گیا۔ میں پریشان ہو کر باہر نکلی دیکھا تووہ دوڑتا ہوا آرہا تھا۔ میرا ہاتھ پکڑ کر جہاز میں بٹھا دیا۔ اب اسلام آباد اتری تو بہت سی فوجی اور پولیس کی گاڑیاں گزر رہی تھیں۔ ہر ایک سے گزارش کی، معذرت کر کے چلے گئے۔ اتفاقاً ایک بوڑھا ٹیکسی ڈرائیور آیا۔ میں نے روتے ہوئے کہا جوکرایہ مانگو گے دوں گی۔ مجھے واہ تک لے چلو۔ اس بزرگ نے پنڈی سے واہ تک کے لئے راستہ تلاش کرنے کو جگہ جگہ دیہات کے بیچ سے سڑک تک پہنچنا چاہا۔ ہر جگہ بڑے بڑے پتھر رکھے تھے۔ آخر ٹیکسلا کے پاس سڑک نظر آئی۔ میں پیدل چلتی واہ کے گیٹ پر پہنچی اور بھائی جان کو وائر لیس پر اطلاع دی ، سب لوگ میرے انتظار میں تھےاور یوں میں نے اماں کو الوداع کہا۔

اس کے بعد، ملک میں ابتری، لاقانونیت کے ساتھ لانگ مارچ کی فصل میں دھرنے بھی شامل ہو گئے۔ جماعت اسلامی نے ٹرین کے ذریعہ لانگ مارچ کیا اور عمران خان لمبے لمبے دھرنوں میں لانگ مارچ کی طرح ہر روز شام کو ارشاد فرما کر گھر چلے جاتے تھے۔البتہ مولانا فضل الرحمان کے لانگ مارچ کے شرکا سخت بارش اور سردی میں بیٹھے رہے۔ جیسے لال مسجد والوں کو ہفتوں تک دیگیں پہنچائی جاتی رہیں۔اسی طرح مولانا کے دھرنے کے شرکا استقامت سے بیٹھے رہے اور ان کی خاطر تواضع بھی ہوتی رہی ۔ بلاول نے بھی لانگ مارچ کا ٹریلر چلایا تھا۔ یاد میں یہ بھی باقی ہے مگر اچانک لبرٹی چوک سے روانہ ہونے والے لانگ مارچ کے چلتےکانوائے میں کہیں کہیں کچرا آجاتا ہے۔ کبھی اس کو نکالنے کے لئے ایک دوسرے سے جھگڑنا پڑتا ہے اور کبھی داتا صاحب فرماتے ہیں آج کے لیے بس، کل جم غفیر لے کر روانہ ہونا۔ وہ ہمیشہ ہی خواجہ فرید کی طرح سارے بزرگان دین کا احترام کرتے ہوئے، اگلے دن کا وعدہ کر کے 50پش اپس لگانے کے لئے چلا جاتا رہا۔ سندھ بلوچستان کے لوگ سناتے رہے کہ پاکستان کے 94اضلاع سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ 47لاکھ 80 ہزار مکانات تباہ ہوئے ہیں۔ لوگوں کی چھتوں کی بحالی کے لئے 582ارب کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں 17ہزار 285اسکول تباہ ہوئے ہیں اور ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتیں ضدم ضدی کسی ایک موت پر 50,50لاکھ فوراً دے دیتی ہیں۔ ان کی زرعی زمینیں ابھی فصل بونے کے لئے سوکھی نہیں ہیں۔ یہ بالکل تاریخ دہراتے ہوئے بے نظیر وزیر اعظم تھیں اور نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب۔ بے نظیر لاہور جاتیں تو گورنر ہائوس تک محدود رہتیں اور اب شہباز صاحب کا بھی یہی حال ہے ۔ ویسے بھی پنجاب کا چیف منسٹر رعب ڈالنے کو کچھ کہہ سکتا ہےہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ دنیا یہ مضحکہ خیز مارچ اور تعلقات میں کھینچ تان کا سلسلہ، کب تک دیکھے گی کہ سردیوں کے لئے بقول سیوا رام ستھر، اس وقت تھرپارکر اور عمر کوٹ کی خواتین بھی SPO کے تعاون سے بھومیکا اور گائیتری جیسی خواتین، تمام تھر پارکر میں زرعی بحالی کے لئے کام کر رہی ہیں۔ انہیں انڈیا کی دھمکیاں سننے کی ضرورت نہیں کہ’’ ابھی ہم نے گلگت پہ قبضہ کرنا ہے۔‘‘

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)ۭ

تازہ ترین