• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے نزدیک کسی بھی قسم کا واقعہ ، حادثہ یا تخلیق کی اہم اور بڑی خوبی کوئی ہے تو وہ یہی کہ یہ واقعہ یا تخلیق پڑھنے یا سننے والے کو متحرک کردے کہ مجھ جیسے شخص کیلئے یہی زندہ رہنے کا جواز ہے۔

تو آیئے…آج آپ کو چند زندہ رہنے والے واقعات سناتا ہوں۔

البرٹ آئن سٹین ایک یہودی سائنس دان تھا۔ اسرائیل کے پہلے صدر وایزمین کے انتقال کے بعد 1952ء میں آئن سٹین کو اسرائیل کی صدارت کا عہدہ پیش کیا گیا مگر اس نے اس عہدے کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس نے امریکہ میں مقیم اسرائیلی سفیر ابابیان سے کہا۔ ’’میں فطرت کے بارے میں بہت کم جانتا ہوں اور انسان کے بارے میں تو بمشکل کوئی چیز مجھے معلوم ہے۔ میں اسرائیل کی طرف سے اس پیشکش سے بہت متاثر ہوں اور اسی کے ساتھ مجھے افسوس اور شرمندگی بھی ہے کہ میں اس کو قبول نہیں کرسکتا۔ میں زندگی بھر دوسری چیزوں پر کام کرتا رہا ہوں، اس لئے میں عوام سے درست طورپر معاملہ کرنے اور سرکاری امور کو چلانے کی فطری استعداد اور تجربہ دونوں سے محروم ہوں۔ میری بڑھتی ہوئی عمر نے میری قوت کو متاثر نہ کیا ہوتا تب بھی میں اس اعلیٰ عہدہ کی ذمہ داریاں ادا کرنے کیلئے غیر موزوں تھا‘‘…

ابوظہبی کے حکمران اپنی دولت شروع شروع میں اپنے محل کے ایک کمرے میں رکھا کرتے تھے ،انہیں شکایت تھی کہ چوہے ان کے کرنسی نوٹ کتر جاتے ہیں۔ ایک برطانوی بینک منیجر نے بڑی مشکل سے انہیں راضی کیا کہ وہ اپنی دولت بینک میں جمع کرا دیں جس پردہ مشکل سے آمادہ ہوئے۔ انہیں بینکوں پر اعتبار نہ تھا۔ شروع میں انہوں نے تجرباتی طور پر صرف دس لاکھ پونڈ بینک میں جمع کرائے اور اسی دن بینک بند ہونے سے پہلے یہ تمام دولت دوبارہ نکال لی۔ انہوں نے یہ عمل کئی بار دھرایا اور تب انہیں یقین آیا کہ بینک میں ان کی رقم نہ صرف محفوظ ہے بلکہ جب چاہیں وہ اسے نکلواسکتے ہیں۔ اسی تجربہ کے بعد ابوظہبی میں بینکنگ کے نظام نے فروغ پایا۔

ابوالقاہیہ خلافت عاسیہ کے عہد کا ایک معروف شاعر گزرا ہے ایک روز وہ کچھ اداس سے بیٹھا تھا ۔ کسی نےحال دریافت کیا تو بولا ’’بھائی بات یہ ہے کہ میں کچھ عجیب سی زندگی بسر کررہا ہوں اس سے نہ تو میں خوش ہوں نہ میرا اللّٰہ خوش ہے اور نہ شیطان خوش ہے ‘‘۔ پوچھنے والے نے حیرت سے اسے دیکھا اور پوچھا حضرت بات سمجھ میں نہیں آئی وضاحت فرمائیں۔ ابوالقاہیہ نے کہا۔ ’’اس میں ہر بات واضع ہے میں دولت کے لالچ میں گرفتار ہوں بہت مال و متاع چاہتا ہوں جو مجھے میسر نہیں لہٰذا سخت ناخوش رہتا ہوں، ادھر اللّٰہ تعالیٰ مجھ سے نا خوش ہے کہ میں اس کی اطاعتِ کاملہ اختیار نہیں کررہاہوں، اب رہا شیطان تو وہ بدبخت بھی مجھ سے خوش نہیں ہے کہ میں اتنے بڑے بڑے گناہ بھی کرنے کی ہمت نہیں کرتا جو وہ مجھ سے کروانا چاہتا ہے‘‘۔

ایک دن ابنِ سماک ، خلیفہ ہارون رشید کے پاس بیٹھا تھا۔ خلیفہ کو پیاس لگی پانی کیلئے حکم ہوا۔ ہاتھ میں پانی کا گلاس لے کر ابن سماک نے پوچھا ’’امیر المومین! پہلے یہ بتایئے کہ اگر آپ کو پانی نہ ملے تو شدت پیاس میں آپ پانی کا ایک پیالہ کس قیمت پر خریدیں گے ؟’’آدھی سلطنت دے کر بھی خرید لوں گا‘‘ ہارون رشید نے کہا۔ ابن سماک نے پانی کا گلاس دیتے ہوئے کہا ’’ لیجئے اب پانی پی لیجئے‘‘۔ جب خلفیہ وقت پانی پی چکا تو ابن سماک نے پھر پوچھا۔ ’’امیر المومنین ! اگر یہ پانی آپ کے پیٹ میں رہ جائے اور باہر نہ نکلے تو آپ اس کو نکلوانے کیلئے کتنی رقم خرچ کرسکتے ہیں’’، خلفیہ نے جواب دیا ’’باقی کی آدھی سلطنت دے دوں گا‘‘۔ ابن سماک نے فوراً کہا۔’’بس یہ سمجھ لیجئے کہ تمام سلطنت کی قیمت ایک گھونٹ پانی ہے، اس لئے اپنی حکومت پر کبھی تکبر نہیں کرنا چاہئےاور جہاں تک ہوسکے لوگوں سے نیک سلو ک کر نا چاہئے‘‘۔ ہارون رشید یہ سن کر دیر تک روتا رہا۔

آخر میں ایک واقعہ تمثیل کی زبان میں سنیے کسی سیٹھ نے خواب میں دیکھا کہ دولت کی دیوی یعنی لکشمی دیوی کہہ رہی ہے۔ ’’سیٹھ تیری نیک اور پارسا تگ ددو اور جدوجہد ختم ہو رہی ہے اس لئے میں چند دنوں میں تیرے گھر سے رخصت ہو جائوں گی۔ تجھے مجھ سے جو مانگنا ہو مانگ لے۔ سیٹھ نے کہا کل صبح اپنے گھر والوں سے صلاح مشورہ کرکے جومانگنا ہوگا مانگ لوں گا‘‘۔ صبح ہوئی تو سیٹھ نے خواب کاماجرا سب کے سامنے رکھا۔ کنبے میں سے کسی نے ہیرے جواہرات مانگنے کیلئے کہا کسی نے سونے کا ڈھیر، کسی نے لمبی چوڑی گاڑیاں اور کسی نے کوٹھی بنگلے مانگنے کی صلاح دی۔ آخر میں سیٹھ کی چھوٹی بہو نے کہا ’’ابا ! جب لکشمی دیوی کو جانا ہی ہے تو سب چیزیں ملنے پر بھی رہیں گی کیسے؟ آپ تومحض یہ مانگیں کہ خاندان میں پیار محبت رہے کنبے کے سب لوگوں میں بھائی چارہ محبت اور قربانی کا جذبہ رہے گا تو مصیبت کے دن بھی آرام سے کٹ جائیں گے‘‘… سیٹھ کو یہ تجویز پسند آئی اور جب رات کو پھر خواب میں لکشمی دیوی کے درشن ہوئے تو اس نے کہا ’’بولو کیا مانگتے ہو؟‘‘ سیٹھ نے کہا کہ ’’دیوی جی آپ جانا ہی چاہتی ہیں تو خوشی سے جایئے لیکن میں آپ سے صرف ایک وعدہ لینا چاہتا ہوں کہ ہمارے کنبے کے لوگوں میں ہمیشہ بنی رہے ۔ ہمیشہ پیار و محبت رہے گا‘‘ لکشی بولی، سیٹھ تو نے ایسا وعدہ مانگا ہے کہ مجھے باندھ ہی لیا ہے بھلا جس کنبے کے افراد میں محبت ، پیار اور پریم ہوگا وہاں سے میں کیسے جاسکتی ہوں‘‘۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین