• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موسمیاتی تبدیلی climate change کے معاملے میں ابھی تک کوئی خاطر خواہ حکمت عملی نظر نہیں آرہی ہے۔ سب سے بڑی اور خطرے کی بات ہے سمندر کی سطح بلند ہوجانا، گرمی کی شدت کا بڑھنا اور ساتھ ساتھ گلیشیرز کا پگھلنا، جس کی بنا پر بارش کا زیادہ ہونا اور سیلاب کے امکانات کا بڑھ جانا ہے۔ کیا اس کی طرف توجہ دی جارہی ہے؟ ابھی تک قدرتی طور پانی کے بہاؤ کے لئے بنے ہوئے راستوں کا خالی یعنی کلینر نہیں کروایا جاسکا ہے۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد اسی طرح اور دوسرے شہروں اور دیہات میں دریا اور پانی

کے بہاؤ کے راستے پر قبضہ کرنے والوں سے خالی نہیں کروایا جاسکا ہے۔ جس کی وجہ سے شدید بارشوں کے بعد یہ شہر اور دیہات پورے ڈوب جاتے ہیں۔ اور کہیں تو کئی گھنٹوں اور کہیں تو کئی دنوں کے بعد پانی اترتا ہے۔ پانی کے جمع رہنے کی وجہ سے جہاں املاک کا نقصان ہوتا ہے وہیں گندے پانی کی وجہ بہت کی بیماریاں بھی جنم لیتی ہیں۔ پچھلے چیف جسٹس صاحب نے اس سلسلے میں پیش رفت کی تو کچھ علاقے قابضین سے چھڑوالیئے گئے۔ پھر یہ سلسلہ سست روی کا شکار ہوا لیکن اب تقریباً رک گیا ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پر فوری طور پر کام کیا جائے اور قدرتی بہاو کے راستوں کو بالکل کلینر کردیا جائے۔ اور جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے ڈیم بنائے جائیں تاکہ زیادہ بارش اور سیلاب کی صورتحال میں پانی سمندر میں مل جانے کی بجائے انسانی ضرورت میں آسکے۔ ذخیرہ کرنے کے لیے بنائے جانے والے ڈیم پر زیادہ لاگت نہیں آتی۔ لیکن پختہ ارادہ کی ضرورت ضرور ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح ٹمبر کا بڑھتا ہوا کاروبار یقینی طور پر ماحولیات کے لئے نقصان دہ ہے۔ کاروبار کو مکمل طور پر ختم نہ کیا جائے لیکن منظم تو کیا جاسکتا ہے۔ اگر ایک درخت کاٹا جائے تو اس کے بدلے دس پودے لگائیں جائیں اسی طرح دو شہروں کے بیچ میں خالی جگہوں پہ ڑھیروں پودے لگا کر شہری جنگل urban forest بنائے جائیں۔ کیا یہ بھی کوئی مشکل اور مہنگا کام ہے۔ صرف شہری حکومتوں کو متحرک اور مضبوط کریں کیسے ممکن نہیں کہ ماحولیات کی بہتری کے لئے وہ کچھ نہ کرسکیں۔ ہر کام وفاق اور صوبوں کے بس میں نہیں۔ اختیارات کی تقسیم بہت ضروری ہے۔ کراچی اور گوادر میں ایک ایک پورٹ نہیں بلکہ کئی پورٹس قائم کئے جائیں۔ تاکہ زر مبادلہ کمایا جاسکے بجائے اس کے کہ نئی نئی رہائشی اسکیمیں لا کر سمندر پر قبضہ reclaim کیا جائے۔ جو کہ یقینی طور پر قدرت سے لڑنا کہلاتا ہے۔ اسی طرح سمندر کے قریب بیسنز اور کریکس creeks ہونی چائیں۔ لیکن کراچی میں ان پر رہائشی کالونیاں قائم کرکے ان کا وجود ہی ختم کردیا گیا ہے۔ بالکل اسی سمندر کے قریب Sea Wall تعمیر کی جائیں تاکہ طوفان کے خطرے بچا جاسکے۔ جس کا امکان ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے بہت بڑھ گیا۔ کچھ نجی ادارے اس مہم میں شریک ہیں۔ لیکن کنٹرول کا کام صرف حکومت ہی کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ سمندری حیات کا تحفظ بھی بہت ضروری ہے۔ ماہی گیری کے نام پر بڑی مچھلیوں کے ساتھ ساتھ چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کے شکار سے ان نسل بڑھ نہیں پا رہی ہے۔ کیوں کے باریک جال سے شکار کرنے پر ہماری برآمدات پر تو پابندی عائد ہوچکی ہے۔ جو کہ دنیا کی برآمدات کا ایک فیصد سے زائد تھی۔ لیکن ہم نے پھر بھی نہ سیکھا اور اضافی مچھلیوں کے شکار over fishing کی بدولت مچھلیوں کی پیداوار بھی کم ہورہی ہے اور ان کا زیاں بھی ہو رہا ہے۔ over fishing پر کنٹرول کرنا بہت ضروری ہے۔ متعلقہ وزارت کو اس سلسلے میں جلد از جلد اقدامات لینے ہوں گے۔ موٹے موٹے انگریزی سے مشکل الفاظ پر مشتمل قانون سازی تو بہت آسان سے لیکن اس پر عملدرآمد انگریزی سے نابلد لوگوں سے کروانا بہت مشکل ہے۔ قانون کو عام فہم بنانا بہت ضروری ہے۔ دوسرے قدرت کے نظام ecosystem کو سمجھنا بہت اہم ہے۔ قدرت انسانوں، جانوروں، آبی حیات پودوں اور درختوں سب کو ایک دوسرے کے لیے بنایا ہے۔ سب کی اپنی اہمیت ہے۔ اگر ان میں سے ایک کو بھی نقصان پہنچتا ہے تو سب پر اس کا اثر پڑتا ہے۔ لیکن اگر آپ سمجھنا چاہیں تو ؟؟؟؟؟

ورنہ ٹیکنالوجی کے نام قدرت سے لڑکر یورپ اور دوسری ترقیاتی قوموں نے اندازہ لگا لیا ہے کہ انہوں نے اپنے ہی ساتھ بہت برا کیا۔ پورا ecosystem ہلا دیا اور اب حالات ان کے قابو سے باہر ہورہے ہیں۔ سمجھ لیں وزارت سے مزے کرنے کا نام نہیں کچھ کر دکھانے کا نام ہے ورنہ اگلی نسل ہمیں کس نام سے یاد رکھے گی، آپ کو بخوبی اندازہ ہے۔۔۔۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین