• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مکّے کی تاریخی مساجد

مسجدِ جعرانہ: یہ مسجد مکّہ مکرّمہ سے22 کلومیٹر کے فاصلے پرشمال مشرق میں واقع ہے۔ فتحِ مکّہ کے سال غزوئہ طائف سے واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ قیام فرمایا اور عُمرے کا احرام باندھا تھا۔ ایک ہزار نمازیوں کی گنجائش رکھنے والی اس مسجد کی آخری تجدید شاہ خالد کے زمانے میں ہوئی۔

مسجدِ شجرہ: یہ مکّہ مکرّمہ کے محلّہ حجون میں مسجدِ جن اورمعلاۃ قبرستان کے جنوبی دروازے کے دائیں جانب واقع ہے۔ بیت اللہ شریف سے اس کا فاصلہ 700 میٹر ہے۔ عربی میں شجرہ درخت کو کہتے ہیں۔ حافظ الہیشمی، سیّدنا عمر فاروق ؓکی ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم محلّہ حجون میں تشریف فرما تھے، مشرکین نے آپ ؐ کی دعوت کو جھٹلایا تو آپ ؐ نے یہ دُعا فرمائی، ’’یا اللہ! آج مجھے کوئی ایسی نشانی دکھا دے کہ پھر مجھے کسی کے جھٹلانے کی پروا نہ ہو۔‘‘ حکمِ خداوندی آیا کہ ’’درخت کو اپنے پاس بلایئے۔‘‘ تو وہ درخت چل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور سلام عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس جانے کا حکم دیا، تو وہ اپنی جگہ واپس چلا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’آج کے بعد مجھے پروا نہیں کہ میری قوم مجھے جھٹلائے۔‘‘ (مجمع الزوائد،10/9)۔

مسجدِ رایہ : جھنڈے والی مسجد کے نام سے مشہور یہ مسجد بیت اللہ شریف سے معلاۃ قبرستان جانے والے راستے کے بائیں جانب محلّہ جودریہ میں واقع ہے۔ مسجدِ حرام سے اس کا فاصلہ 500میٹر ہے، حضرت عباس ؓسے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر ؓبن عوام کو حکم دیا کہ مکّہ مکرّمہ کے بالائی حصّے پر محلّہ حجون میں عَلم نصب کیا جائے۔ حضرت زبیر بن عوامؓ، فتحِ مکّہ کے موقعے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عَلم بردار تھے، چناں چہ انہوں نے وہاں جھنڈا نصب کیا۔ (تاریخِ طبری، 396/1)۔ تیسری صدی ہجری میں حضرت عباس ؓ کے پوتے حضرت عبداللہؓ نے اس جگہ مسجد تعمیر کروادی۔ 1404ہجری میں شاہ فہد نے اس کی تعمیر و تجدید کروائی، یہ مکّہ مکرّمہ کی خُوب صُورت مساجد میں سے ایک ہے۔

مسجدِ تنعیم: اسے ’’مسجدِ عائشہ ؓ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اس کا فاصلہ حرم شریف سے 6.5کلومیٹر ہے۔ حجۃ الوداع 10ہجری کو حضرت عائشہ ؓنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر یہاں سے احرام باندھ کر عُمرہ ادا فرمایا تھا، اس وقت اس مسجد میں پندرہ ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔

مسجدِ بیعت: یہ مسجد جمرہ عقبہ سے تقریباً300میٹر کے فاصلے پر پہاڑ کی گھاٹی میں ہے۔ یہ اس مقدّس جگہ قائم ہے، جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ سے ہجرت سے قبل انصارِ مدینہ سے بیعتِ عقبہ اولیٰ اور ثانیہ لی تھیں۔ مسجد اپنی قدیم شکل میں برقرار ہے۔ اس کی موجودہ تعمیر 1250ہجری میں سلطنت ِعثمانیہ کے سلطان عبدالمجید نے کروائی تھی۔

مسجدِ جن: یہ مکّہ مکرّمہ کے قدیم قبرستان ’’جنّت المعلیٰ‘‘سے جنوب مشرق میں حجون پُل کے قریب واقع ہے۔ مسجد ِجن کی وجۂ تسمیہ یہ ہے کہ جس وقت جنّات کی جماعت نے آنحضرتﷺ سے ملاقات کی، اُس وقت آپﷺ کے ساتھ عبداللہ بن مسعودؓ بھی تھے۔ آپﷺ نے زمین پر دائرہ بنا کر اُنھیں اس کے اندر رہنے کی تلقین فرمائی تھی۔ اس سے قبل طائف سے واپسی پر بھی کچھ جنّات نے آپﷺ سے ملاقات کی تھی۔

مسجدِ اجابہ: یہ حرم شریف سے جنّت المعلیٰ جاتے ہوئے چار کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ آنحضرتﷺ نے یہاں نماز ادا فرمائی تھی۔ شاہ فہد نے اپنے دَور میں اس مسجد کی تعمیرِ نَو اور توسیع کروائی۔

مسجد خالد بن ولیدؓ: فتحِ مکّہ کے موقعے پر آنحضرتﷺ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو مکّہ مکرّمہ کے نشیبی علاقے سے شہر میں داخل ہونے اور آبادی کے شروع میں اسلامی جھنڈا نصب کرنے کی ہدایت کی۔ چناں چہ مکّہ میں داخل ہوتے وقت انھوں نے جہاں جھنڈا نصب کیا تھا، وہاں ایک مسجد تعمیر کردی گئی۔ محلّہ حارۃ الباب میں یہ مسجد ریع الرسام کے مقام پر واقع ہے۔ زمانۂ قدیم میں جدّہ کی سمت سے مکّہ مکرّمہ میں داخل ہونے کے لیے یہاں ایک دروازہ تھا،جہاں سے تجارتی سامان پر محصول وصول کیا جاتا تھا،لہٰذا اس دروازے سے متصل محلّے کا نام حارق الباب مشہور ہوگیا۔ اور جہاں ٹیکس وصول کیاجاتا تھا، وہ جگہ ریع الرسام کے نام سے معروف ہوگئی۔ (معالم مکّہ، صفحہ229)۔

مسجدِ ذی طوی: ذی طوی، مکّہ مکرّمہ کی ایک پرانی وادی تھی۔ آنحضرتﷺ جب حج کے لیے تشریف لائے تھے تو آپﷺ نے اس وادی میں قیام فرمایا اور بعد نمازِ فجر آپﷺ مکّہ مکرّمہ تشریف لے گئے۔ سیّدنا عبداللہ بن عمرؓ کا بھی یہی معمول تھا۔ وہ رات ذی طوی میں قیام فرماتے، صبح نمازِ فجر کے بعد مکّہ مکرّمہ تشریف لے جاتے۔ (صحیح بخاری، الحج حدیث1574)۔ اُس زمانے میں یہاں ’’بئرطوی‘‘ نامی ایک کنواں تھا، مسجد ذی طوی ماضی قریب تک موجود تھی، لیکن دیواریں بوسیدہ ہوجانے کی وجہ سے منہدم ہوگئی، مگر کنواں محلّہ جرول میں موجود ہے۔

مسجدِ صدیقؓ: یہ مسجد سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اُس مکان میں واقع تھی، جہاں سے آنحضرتﷺ نے سیّدنا صدیقِ اکبرؓ کے ساتھ ہجرت فرمائی۔ یہ گھر محلّہ مسفلہ میں واقع تھا۔ سیّدنا صدیقِ اکبر ؓ نے اپنے گھر کے اندر ہی ایک جگہ عبادت کے لیے مخصوص کردی تھی۔ علّامہ قطب الدینؒ تحریر فرماتے ہیں کہ یہ مسجد اُس زمانے میں ’’دارالہجرت‘‘ کے نام سے مشہور تھی۔ علّامہ ابنِ جبیرؒ نے ’’ابنِ جبیر‘‘ میں لکھا ہےکہ ’’شہر کے منتہیٰ میں خرما، انار، عناب اور حنا کے سرسبز وشاداب باغات کے درمیان یہ مسجد واقع تھی۔ اور یہ صدیق اکبرؓ کا گھر تھا۔‘‘(ابنِ جبیر صفحہ96)۔

مسجدِ فتح (جموم): 8ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار صحابہؓ کے ساتھ فتحِ مکّہ کے لیے تشریف لے گئے، توآپﷺ نے مکّہ مکرّمہ کے شمال میں25کلو میٹر کے فاصلے پر وادئ مرّالظہران سے ایک منزل پہلے جموم کے مقام پر قیام فرمایا۔ یہاں بنو سلیم کا قبیلہ آباد تھا۔ یہاں آپﷺ نے نمازیں ادا فرمائیں۔ چناں چہ اس جگہ مسجد تعمیر کردی گئی، جو مسجدِ فتح کے نام سے مشہور ہوئی۔ مدینہ منورہ روڈ، طریق ہجرہ سے اس کا سفید مینارنظر آتا ہے۔

مسجدِ محصّب: یہ مکّہ مکرّمہ کے بالائی حصّے میں منیٰ کی طرف سفر کرتے ہوئے پہاڑوں کے درمیان ایک نشیبی جگہ ہے، جہاں پہاڑوں سے نکلنے والے پانی کے ساتھ کنکریاں بھی آجاتی ہیں۔ اسی مناسبت سے اس جگہ کو محصّب کہاجاتا ہے۔ یہ جگہ خیف بن کنانہ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ یہی وہ جگہ ہے، جہاں بیٹھ کر کفارِ مکّہ نے مسلمانوں کے تاریخی بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تھا۔ جس کے نتیجے میں اہلِ ایمان نے تین سال کا طویل عرصہ شعب ابی طالب میں گزارا تھا۔ حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ(حجۃ الوداع کے دوران) رسول اللہ ﷺ نے محصّب کے مقام پر ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کی نمازیں ادا فرمائی تھیں، پھر کچھ دیر آرام فرمایا اور بیت اللہ شریف جاکر طواف کیا۔ (صحیح بخاری) اب اس تاریخی مقام پر مسجد ِمحصّب کے نام سے ایک مسجد تعمیر کردی گئی ہے۔

مکّہ مکرّمہ کے چند تاریخی مقامات

مولدالنبیﷺ: مروہ کے مقابل اور جبلِ ابی قبیس کے عقبی جانب محلّہ قشاشیہ میں شعب ابی طالب کے قریب مسجدِ حرام کے مشرقی صحن سے متصل لبِ سڑک ایک تن تنہا دومنزلہ عمارت موجود ہے۔ اس عبارت پر ’’مکتبۃ مکۃ المکرمہ‘‘ کا بورڈ آویزاں ہے۔ اس مقدّس ومتبّرک جگہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں ماہِ ربیع الاوّل کی پُرنور و بابرکت صبحِ صادق نبی آخرالزّماں، شہنشاہِ کون ومکاں، رحمۃ اللعالمینﷺ دنیا میں جلوہ افروز ہوئے تھے۔ یہ مکان آنحضرت ﷺ کے والدِ ماجد حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب کی ملکیت تھا۔ حضورﷺ نے مدینہ منورہ ہجرت فرماتے وقت اس مکان کواپنے چچا زاد بھائی عقیلؓ بن ابی طالب کو ہبہ کردیا تھا۔ 

پھر اس مکان کو حجّاج بن یوسف کے بھائی محمّد بن یوسف نے خرید لیا تھا۔171ہجری میں عباسی خلیفہ ہارون الرشید کی والدہ ’’خیزران‘‘ جب حج کے لیے مکّہ مکرّمہ آئیں تو انہوں نے اسے خرید کر یہاں ایک مسجد تعمیر کروادی۔ عثمانیہ دَور میں اس جگہ دینی درس گاہ قائم کردی گئی۔ بعدازاں، 1370 ہجری 1950عیسوی میں شیخ عباس قطانؒ نے اسے منہدم کرواکر یہاں ایک لائبریری تعمیر کی تھی، جو اب تک قائم ہے۔(فضائل مکۃ المکرمہ 233)۔

حضرت خدیجہؓ کا مکان: یہ وہ مقدّس گھر ہے کہ جہاں اللہ کے نبی ﷺ نے شادی کے بعد ہجرتِ مدینہ تک یعنی اپنی حیاتِ مبارکہ کے28سال گزارے۔ آپﷺ کی چاروں صاحب زادیاں بھی اسی گھر میں پیدا ہوئیں۔ یہی وہ تاریخی مکان ہے، جس کا کفارِ مکّہ نے ہجرت کی رات محاصرہ کرلیا تھا اور آنحضرتﷺ نے لوگوں کی امانتیں واپس لوٹانے کی غرض سے حضرت علی مرتضیٰؓ کو اپنے بستر پر لٹایا اور خود سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کے مکان کی جانب روانہ ہوگئے، اور اُس وقت اللہ نے کفار کی آنکھوں کی بینائی سلب کرلی تھی۔ آنحضرت ﷺ نے ہجرت کے وقت یہ مکان بھی حضرت عقیلؓ بن ابی طالب کو دے دیا تھا۔ بعد ازاں، ان سے حضرت امیر معاویہؓ نے خرید کر یہاں مسجد تعمیر کروادی۔ پھر 1965 ء میں مسجد الحرام کی توسیع کے دوران اسے بیرونی صحن میں شامل کر دیا گیا۔

حضرت عباسؓ کا مکان: آنحضرت ﷺ کے چچا حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب کا مکان مسعی (سعی کرنے کی جگہ) یعنی صفا سے مروہ جاتے ہوئے دائیں جانب حضرت عباسؓ کا مکان اور شمال مشرق میں حضرت ابوسفیانؓ کا مکان تھا۔ 1367 ہجری میں ہونےوالی حرم شریف کی توسیع کے دوران اسے حرم شریف میں شامل کرلیا گیا۔

سیّدنا علی مرتضیٰ ؓکا مکان: آپؓ کا مکان محلّہ سوق اللیل میں مولد النبیﷺ سے 200 (دوسو) میٹر کے فاصلے پر تھا۔ 1376ہجری میں جدّہ کے رئیس شیخ سیّد حسن الشربتلی نے یہاں دارالعلوم قائم کیا۔ (تاریخ القیوم، 174/1) یہ تاریخی مقدّس مکان بھی توسیع حرم شریف میں شامل کرلیا گیا۔

دارِارقم: صحابی ارقمؓ بن ابی ارقم بن عبدالمناف کی ملکیت یہ مقدّس و متبرک مکان، تحریکِ اسلامی کا اولّین مرکز تھا۔ یہ جبلِ صفا کے بائیں جانب 35میٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔ اسلام کے ابتدائی دور میں اس مکان کو مسلمانوں کےگوشۂ عافیت، بہترین پناہ گاہ اور محفوظ قلعے کی حیثیت حاصل تھی۔ اسے پہلا اسلامی مدرسہ یا پہلی مسلم جامعہ بھی کہا جاتا ہے۔یہ پہلی اسلامی درس گاہ اور عملی تربیت کا مرکز بھی تھی۔ یہاں قریش کے ستائے نادار ،غریب اور غلام و مسکین عافیتِ رسولﷺ میں پناہ لیتے۔ 

دارِارقم ہی میں رسولﷺ نے حضرت عمر فاروقؓ یا ابوجہل میں سے کسی ایک کے مسلمان ہونے کی دُعا فرمائی تھی۔ اس مکان میں حضرت عمرؓ اور حضرت حمزہؓ کے علاوہ جلیل القدر صحابہؓ نے اسلام قبول کیا۔171ہجری میں خلیفہ ہارون الرشید کی والدہ ’’خیزران‘‘ جب حج کے لیے مکّہ مکرّمہ آئیں، تو انہوں نے دارِارقم خرید کر یہاں مسجد تعمیر کروائی۔ بعدازاں، مختلف ادوار میں اس کی تعمیر و تجدید ہوتی رہی۔ 1375 ہجری میں توسیعِ حرم شریف کی وجہ سے اسے گرا دیا گیا۔ (تاریخ القدیم، جِلد1 صفحہ 88)

دارالندوۃ: بیت اللہ شریف سے چند میٹر کے فاصلے پر شمال مغرب میں ایک نہایت عالی شان اور بیش قیمت محل دارالندوۃ تھا، جسے قریش کے جدِّاعلیٰ قصی بن کلاب نے تعمیر کروایا۔ یہ وسیع و عریض محل اہلِ قریش کی پارلیمینٹ تھی، جہاں قریش کے سردار اکٹھے ہوکر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بحث مباحثہ کرتے۔ ہجرت کی رات آنحضرتﷺ کے مکان کا محاصرہ کرکے آپﷺ کو شہید کرنے کا منصوبہ بھی اسی جگہ طے پایا تھا۔ چوں کہ یہ محل مسجدِ حرام سے متصل تھا، اس لیے حج اور عُمرے کے دوران جزائرِ عرب سے آنے والے امراء و خلفاء عموماً یہیں قیام کرتے۔ ایک دفعہ امیرالمومنین سیّدنا عُمرؓ بن خطاب نے بھی یہاں قیام فرمایا تھا۔ 284ہجری بمطابق 897 عیسوی میں عباسی خلیفہ معتضد باللہ نے اس محل کو مسجد الحرام میں شامل کرکے یادگار کے طور پر ایک دروازے کا نام ’’باب الندوۃ‘‘ رکھ دیا۔ (سیرت ابنِ ہشام، 480/1)۔

مکّہ مکرّمہ کا میوزیم: مکّہ مکرّمہ کے تاریخی اور تہذیبی ورثہ کا امین یہ میوزیم، (عربی میں میوزیم کو متحف کہتے ہیں) مدینہ روڈ پر حی الزاہر میں ملک عبدالعزیز آلِ سعود کے قصر میں واقع ہے۔ اس کا افتتاح 1427ہجری بمطابق 2005ء عیسوی میں ہوا۔ میوزیم میں موضوعات کے اعتبار سے الگ الگ ہالز ہیں، جن میں مکّہ مکرّمہ کے مختلف ادوار کی نادر و نایاب اشیاء جمع کردی گئی ہیں۔ ایک ہال میں سعودی دَور سے پہلے کے مکّہ کی تاریخی ثقافت کا بیان ہے، دوسرے میں آلِ سعود کے عہد کی تاریخی اشیاء رکھی گئی ہیں۔

تیسرے میں قبل اسلام کے مکّہ مکرّمہ کی قدیم تہذیب کو محفوظ کیا گیا ہے، جب کہ ایک ہال میں سرکارِ دوعالم حضرت محمد مصطفیٰﷺ، صحابہ کرامؓ اور سیرت نبویﷺ سے متعلق نادر نشانیاں و اشیاء محفوظ کی گئی ہیں۔ میوزیم میں قدیم تاریخی نوادر، تحائف سمعی و بصری آلات، مختلف زمانوں کی کرنسیز، حج سے متعلق قدیم اشیاء، فنِ اسلامی کے نادر نمونے اور مختلف ادوار میں استعمال ہونے والا سامانِ حرب موجود ہے۔ غرض یہ کہ یہ ایک نہایت اہم میوزیم ہے، جس سے مکّہ کی ماقبل تاریخ اور حالیہ دَور کے موازنے میں بھی مدد ملتی ہے۔

نہرِزبیدہ: عباسی خلیفہ ہارون الرشید کی اہلیہ جعفر بن المنصور کی صاحب زادی، امتہ العزیز جنہیں ان کے دادا محبت میں ’’زبیدہ‘‘ کہا کرتے تھے، ایک فرشتہ صفت خاتون تھیں۔ 174 ہجری کی بات ہے زبیدہ مناسک حج کی ادائی کے لیے مکّہ مکرّمہ آئیں۔ اُس زمانے میں مکّہ میں اہالیانِ مکّہ اور زائرین پانی کی کمی کا شکار تھے۔ چشموں اور تالابوں کا پانی ان کی ضروریات کے لیے ناکافی تھا۔ چناں چہ حج کے فوری بعد دارالخلافہ پہنچتے ہی انہوں نے اپنے ذاتی اخراجات سے مکّہ میں پانی پہنچانے کے لیے نہر کھودنے کا حکم جاری کردیا۔ 

اس کام کے لیے مختلف ممالک سے ماہر انجینئرز بلائے گئے، جن کے مشورے پر مسجدِ حرام سے 36کلو میٹر کے فاصلے پر شمال مشرق میں وادئ حنین سے نہر نکالنے کا کام شروع کیا گیا۔ حنین سے وادئ نعمان، پھر میدانِ عرفات اور وادئ عرفہ سے منیٰ اور مکّہ مکرّمہ تک کھودنے کے بعد 174 ہجری میں اس نہر کو جاری و ساری کر دیا گیا۔ اس عظیم الشان آبی نہر پر زبیدہ کے 17لاکھ دینار خرچ ہوئے۔ پراجیکٹ کے نگران نے کام کی تکمیل کے بعد اخراجات کی تفصیل ملکہ زبیدہ کے حضور پیش کی۔ ملکہ اس زمانے میں دریائے دجلہ کے کنارے اپنے محل میں قیام پذیر تھیں۔ 

انہوں نے حساب کی تفصیل پر مبنی وہ تمام کاغذات لیے اور دیکھے بغیر دریا بُرد کردیئے اور فرمایا ’’مَیں نے یہ کام محض اللہ کی رضا کے لیے کیا ہے۔ مجھے نہ اخراجات کی پروا ہے اور نہ حساب سے کوئی سروکار۔ یہ حساب میں قیامت کے دن پر چھوڑتی ہوں۔‘‘ تقریباً بارہ سو سال تک یہ نہر اہلِ مکّہ کے باشندوں کی ضروریات پوری کرتی رہی۔ 

بعدازاں، مسلم خلفا اور مکّہ کے حکم ران حسبِ ضرورت اس کی درستی و ترمیم کرواتے رہے۔ لیکن پھر گزرتے وقت کے ساتھ اس نہر کی جگہ بڑے بڑے پائپ استعمال کیے جانے لگے۔ 1421 ہجری بمطابق 1999ء کو شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے جو اُس وقت ولی عہد تھے، اس تاریخی نہر کو دوبارہ قابلِ استعمال بنانے کا حکم جاری کیا۔

سنڈے میگزین سے مزید