• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت، اس کی فوج اور خفیہ ادارے شروع سے ہی ان کوششوں میں رہے ہیں کہ پاکستان اور اس کی مرکزی خفیہ ایجنسی کو کسی نہ کسی طور دہشت گرد ثابت کر کے دنیا کو یہ تاثر دے سکے کہ پاکستان اور اس کا یہ حساس ادارہ اندرونی دہشت گردی کے علاوہ بین الاقوامی جرائم میں بھی ملوث ہیں۔ ۔ بھارت کا یہ ایجنڈا پاکستان میں عمران خان کی جانب سے ملک کو غیر مستحکم کرنے کے لئے پیدا کی جانے والی صورت حال میں مکمل کیا جا سکتا ہے کیونکہ عمران خان جو پاکستان کے مقبول لیڈر ہونے کے علاوہ دنیا میں ایک شناخت رکھتے ہیں، ان کی مدعیت میں حساس ادارے کے ایک اعلی افیسر (جس نے بھارتی خفیہ ایجنسی را اور اسرائیلی مساد کے علاوہ تحریک طالبان کی دہشتگرد تنظیم کے خلاف کامیاب اوپریشنز کئے) کو سنگین مقدمہ میں شریک جرم قرار دے کر ایف۔آئی۔آر۔ میں نامزد کرنے کا عمل بھارت کو ایف۔آئی۔آر۔ کی صورت میں سرکاری دستاویز مہیا کرنا ہے جسے وہ دنیا میں اس ثبوت کے طور پر پیش کر سکے کہ پاکستان ایک دہشت گرد ملک ہے اور یہ عالمی امن کے لئے خطرات پیدا کر سکتا ہے۔۔ پاکستان کے خلاف چلائی جانے والی بھارتی تحریک کے نتیجے میں پاکستان کی سلامتی کے ساتھ ساتھ ایٹمی پروگرام اور مسلہ کشمیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

اس صورتحال میں جب صرف ایک شخص کی غلط روش کی وجہ سے قومی سلامتی داؤ پر لگی ہے، ملک کے سنجیدہ طبقہ کی جانب سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ ’’کیا عمران خان بھارت کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں یا اقتدار کی ہوس نے انہیں اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔اور اس کے لئے وہ صرف ریاستی اداروں ہی نہیں، ریاست کے خلاف بھی مقدمات درج کرانے سے گریز نہیں کریں گے‘‘۔

عمران خان پر قاتلانہ حملہ کا واقعہ پنجاب میں پرویز الہی کی حکمرانی میں قائم تحریک انصاف کی حکومت میں سیاست کی نذر ہو گیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے زعماء کا کہنا ہے کہ عمران خان اس واقعہ کے ساتھ "کھیلنا" چاہتے ہیں اور عوام کو گمراہ کرنے اور اس پر سیاست کرنے کا منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔اس کے لئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اس "کھیل" میں اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کو نشانے پر رکھنے کے لئے جھوٹ کا سہارا لے رہے ہیں تاکہ اپنے مخالفین کو مقدمے میں الجھا کر اپنے مخصوص مقاصد مقاصد حاصل کر سکیں۔ لیکن ان ناسازگار حالات میں وہ اپنی خواہش کے مطابق تین حکام کو ایف۔آئی۔آر میں نامزد کرنے میں کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔

عمران خان نے اس قاتلانہ حملے کے ساتھ کھیلتے ہوئے اس واقعہ کو متنازعہ بنانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی۔ حملے کے فوراً بعد عمران خان کو لگنے والی گولیوں کی تعداد میں تضاد بیانی کا آغاز ہو گیا۔۔پہلی اطلاع جس کا راوی موقعہ پر موجود پولیس اہلکار تھا اس کے مطابق عمران خان کے دائیں گھٹنے پر ایک گولی لگی تھی۔ اس نے اس بات سے لاعلمی ظاہر کی کہ عمران خان کے گھٹنے پر آنے والا زخم گولی کا تھا یا چھرے (Pellet) کا۔۔ دوسرا دعوی جو کنٹینر پر موجود راہنماؤں جن میں ڈاکٹر یاسمین راشد بھی موجود تھیں، کے مطابق عمران خان کو دو گولیاں لگیں۔ اس گروپ میں سے بعض نے کہا کہ عمران خان کی دونوں ٹانگوں پر گولیاں لگیں جبکہ بعض نے دائیں ٹانگ اور پیٹ میں گولیاں لگنے کا یقین ظاہر کیا جبکہ عمران خان نے یہ دعوی کر دیا کہ انہیں چار گولیاں لگیں۔ بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ فائرنگ کے دوران جب وہ گرے تو انہوں نے گولیوں کی بوچھاڑ اپنے اوپر سے گزرتے ہوئے دیکھی جو مختلف اطراف سے ان پر کی جارہی تھی۔لیکن گولیوں کی بوچھاڑ کا ذکر کنٹینر میں موجود کسی شخص نے نہیں کیا، یہ صرف خان صاحب ہی دیکھ سکے۔

تاہم چیف جسٹس آف پاکستان نے پنجاب پولیس کی کمانڈ کو عمران خان پر قاتلانہ حملے کا مقدمہ فوری طور پر ریاست کی مدعیت میں درج کرنے کا حکم دے دیا ہے۔لیکن تحریک کی شدت میں اضافہ کے لئے عمران خان نے کارکنوں کو حکم دیا ہے کہ اسلام آباد کو ملک سے علیحدہ کرنے کے لئے تمام داخلی اور خارجی راستے بند کر دئیے جائیں جس پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا ہے کیونکہ تحریک میں شدت لانے کا اصل مقصد انتخابات کرانے کے لئے تحریک چلانا نہیں بلکہ آرمی چیف کی تعنیاتی کا ہے جس کے لئے خیبر پختونخوا کے سرکردہ راہنماؤں نے بندوقیں لہرا کر اور فواد چوہدری نے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے مرکز پر چڑھائی کرنے اور بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے۔

تازہ ترین