چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے کہا ہے کہ میرے قتل کے منصوبہ سازوں کو بلٹ پروف شیشوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔
ترک میڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ میں پہلے ہی توقع کر رہا تھاکہ کچھ ہوگا،جب ان لوگوں نے منصوبہ بنایا میں نے چار ماہ پہلے ہی بتادیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ بند کمرے میں 4 لوگوں نے میرے قتل کا منصوبہ بنایا، وہ طاقتور لوگ تھے، میں نے ان کا منصوبہ پہلے ہی بتادیا، جس پر انہوں نے دوسرا منصوبہ بنایا۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے مزید کہا کہ جن طاقتور لوگوں نے میرے قتل کا منصوبہ بنایا، انہیں بلٹ پروف شیشوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ طاقتور لوگ بلٹ پروف یا دیگر احتیاطوں کے باوجود بھی اپنا کام کرسکتے ہیں۔
عمران خان نے یہ بھی کہا کہ اس منصوبےمیں مذہبی تاثر دیا گیا تاکہ دھیان ان 4 طاقتور افراد کی طرف نہ جائے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اور وزیر داخلہ نے قومی ٹیلی ویژن پر ایسی وڈیوز چلائیں، جس میں واقعے کا مذہبی تاثر دیا گیا۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ قاتلانہ حملے سے مجھے مقبولیت حاصل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، میں واقعے کی آزادانہ تحقیقات چاہتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات میں ساری باتیں بتاؤں گا کہ واقعات کس طرح ہوئے، مجھےکئی ماہ سے اس حکومت سے احتجاجی مارچ کی صورت میں وارننگ مل رہی تھیں۔
عمران خان نے کہا کہ میرے پاس انتخاب تھا کہ یہ سب چھوڑ کر گھر میں آرام سے بیٹھ جاؤں، میں نے فیصلہ کیا کہ حقیقی آزادی کی جدوجہد پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان پر ابھی مجرم حکمرانی کر رہے ہیں، دو جماعتیں 30 سال سے پاکستان پر حکمرانی کر رہی ہیں، پاکستان کے ان حکمرانوں پر بڑے بڑے جرائم کے کیسز بنے ہوئے ہیں، یہ جیل جا چکےہیں، ان لوگوں کو ہم پر مسلط کیا گیا ہے اور ہم سے بھیڑ بکریوں والا رویہ چاہا جارہا ہے۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ میرے اوپر قاتلانہ حملہ اندرونی مسئلہ ہے، اسے ہمیں یہیں حل کرنا ہے، پوچھتا ہوں اس سلسلے میں باہر کی قوتیں کیا کر سکتی ہیں؟ باہر کی قوتیں جب ہی حاوی ہوتی ہیں، جب آپ اندر سے کمزور ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ آگے بڑھنے کا صرف ایک راستہ ہے کہ لوگوں کو ان کی مرضی کی حکومت منتخب کرنے دی جائے، کسی باہر کی قوت یا اندرونی قوت کو ہم پر مجرموں کو مسلط کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
عمران خان نے کہا کہ پنجاب پولیس صوبے میں ہماری حکومت کے ماتحت ہونے کے باوجود میں اپنا کیس رجسٹر نہیں کراسکا۔
انہوں نے کہا کہ میں ان تین افراد کے خلاف کیس درج نہیں کراسکا، پنجاب پولیس نے انکار کردیا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر پنجاب پولیس کو کون کنٹرول کر رہا ہے؟