• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانیو! 6ہی ماہ میں استحکامِ پاکستان کے خلاف ملک میں جو کچھ ہوگیا اور جو ہو رہا ہے، بس وقتِ دعا ہے، اللہ ہمارے بزرگوں کے قائم کئے پاکستان پر اپنا فضل و کرم فرمائے، آمین، کہ ہمیں تو اب رب کے حضور دعا بھی نہ معافی مانگنی آتی ہے۔ ٹی 20 کرکٹ کے ورلڈ کپ میں آغاز پر ہی پاکستانی ٹیم کے بھارت کے مقابل میں کہیں بہتر کھیل کے باوجود متنازعہ ایمپائرنگ سے بھارت جیت گیا، اس کے بعد ہم پلتی بڑھتی زمبابوے کی ٹیم سے بھی ہار گئے تو ایک اسپورٹس رپورٹر نے ٹیم منیجر ثقلین مشتاق سے سوال کیا، ثقلین بھائی، یہ کیا ہوا؟ اللہ والے نے جواب دیا، قدرت کا نظام!بات تو بڑی سچی پکی کی کہ پاکستان کی پوری تاریخ اور قومی زندگی کے ہر سنبھلتے اور ڈگمگاتے مرحلے پر اس مملکتِ خدا داد کے ’’اللہ کے نظام‘‘ پر ہی چلنے کی تصدیق ہوئی۔ اس اعتبار سے ملکی تاریخ اور پوری قومی زندگی کا جائزہ و تحقیق تو آسان نہیں، تاہم ہر بڑے چھوٹے پاکستانی کو زندگی کے اس انمول تجربے کا حصول اوائل زندگی میں ہی اور پھر تادم موت بار بار ہوتا ہے۔ متذکرہ کرکٹ ٹورنامنٹ میں ہی دیکھ لیں، بھارت کے بعد کمسن افریقی ٹیم سے بھی شکست کے بعد فائنل میں جانے کی امیدیں باندھتا پاکستان مزید مایوسی میں ڈوب گیا کہ ٹورنامنٹ شروع ہونے سے تادم ملک میں انسدادِ کرپشن و انسدادِ احتساب کی پرخطر کشمکش اور ملکی تاریخ کی بدترین مہنگائی سے مضطرب قوم چھ ماہ سے شدید مایوسی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ لوگ دعائیں مانگ رہے تھے کہ اب برائلر مسلط حکومت سے تو ریلیف کی کوئی امید ہے تو چلو روٹی دال کے بھی کال میں ورلڈ کپ جیتنے یا کم از کم بھارت کو ہرانے یا فائنل میں جانے سے ہی کوئی ذہنی ریلیف مل جائے۔ لیکن زمبابوے سے ہار نے کے بعد تو یہ قومی امید بھی دم توڑ گئی۔ ہمارے کرکٹ سورمائوں کی انتہائی مایوس کارکردگی سے جو لٹیا بھی ڈوب گئی تو پورا ملک مایوس ہوگیا۔ کتنے ہی اگر مگر کی شرائط پر مبنی کم بیک تجزیوں سے کرکٹ لوورز کو تسلی کے انجکشن لگنے لگے۔ ہماری ہونہار ٹیم نے وطن واپسی کی تیاری شروع کردی لیکن قدرت پاکستانی ٹیم کی ورلڈ کپ کی طرف واپسی کا فیصلہ کر چکی تھی، جو عمل میں ڈھل گیا اور یکے بعد دیگرے مسلسل چارمیچوں کی کامیابی سے پاکستان کا کم بیک ایسا ہوا کہ کیویز کے پر کاٹ کر بھارت کو شرمناک شکست دینے والے انگلینڈ کے مقابل فائنل میں آن کھڑا ہوا۔ ’’قدرت کا نظام‘‘ کیا غلط کہا تھا پاکستان ٹیم منیجر نے۔ یہ نہ بھولا جائے کہ کمسن ڈچ کے انگلینڈ کو اور بنگلہ دیش کے سائوتھ افریقہ جیسی مضبوط ٹیموں کو ہرانے کی اَن ہونیاں ہونے کے بعد پاکستان فائنل کی چوٹی پر پہنچا۔ اس بلند مقام پر اب ہمارا مقابلہ دنیا بھر کو کرکٹ سکھانے اور اس طرف لگانے والے انگلینڈ سے ہے۔

بلند مقام پر مقابلے سے یاد آیا کہ ہمیں تو دنیا میں سب سے بلندی پر لڑی جانے والی سیاچن مائونٹین وار لڑنے اور پانچ گنا مقابل دشمن کو 24 سال انتہائی سخت کوش برفستان میں بھی انگیج رکھ کر دفاع وطن کا منفرد تجربہ ہے اور ہم ایٹمی طاقت بھی ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ ہم اپنی اس عظیم دفاعی پوزیشن کے ساتھ پنجاب اور انڈس ویلی کے شہرہ آفاق زرعی خطوں کے حامل ہو کربھی ٹماٹر اور پیاز مفلوک افغانستان اور پابندیوں میں جکڑے ایران سے درآمد کرنے پر کیوں مجبور ہیں؟ اور بھارت سے صرف اس لئے نہیں کہ اس کی ذمے داری مودی کی ہٹلرانہ پالیسیوں پر ہے۔ بجلی کا بل تو عوام پر بار بار گرنے والی بجلی بن گیا ہے اور اب سرما کی شدت میں ہانڈی روٹی کے لئے ہی گیس کی فراہمی ہم پر انتہا کی بداعمالیوں کے بعد بھی رحم کی علامت ہوگی۔ وگرنہ بجلی گیس کے بے قابو نرخوں اور اس کی جملہ اشیائے خورو نوش کے نرخوں پر پریشان کن اضافے پر اضافہ قوم پر عذاب العظیم تو بن ہی چکا ہے، جو شاخسانہ ہے ملک پر مسلط دو قانونی نظام بد کا ، جسے سیسہ پلانے اور تحلیل کرنے کی کشمکش پرخطر بن کر قوم کو خوف زدہ کئے ہوئے ہے۔ عزت سادات و عوام سب ہی تو غیر محفوظ ہوگئیں۔ سرزمین پاکستان کے اس اندرونی معرکے (INTRA CONFLICT) میں قوم کے اٹھائے گئے ان سوالات پر تقسیم ہوگئی کہ معرکہ باہمی ہی ہے یا بیرونی ملاوٹ بھی ہے، ارشدشریف شہید کو کینیا کی سفاک پولیس نے ہی مارا یا اس کے تانے بانے پاک سرزمین سے ملتے ہیں۔ بیرونی یوں بھی کہ بھارتی وزیر دفاع نے ہندوتوائی دیدہ دلیری اور ذہنیت سے پاکستان کی سلامتی کے خلاف ہماری موجو دپرخطر صورتحا ل میں اپنے خبث باطن کا اظہار کیا۔ ہماری عملی سیاست کی چوٹی کی فیصلہ سازی کا مرکز فقط اسلام آباد میں رہ گیا، اب یہ لندن کے ساتھ شیئرڈ ہے۔ لگتا ہے اتحاد کی صرف ایک ہی شکل ملک میں رہ گئی ہے اور وہ پی ڈی ایم کا 13 جماعتی اتحاد ہے۔ مولانا صاحب کی عالمانہ سیاسی فن کاری کا کمال ہے کہ اس اتحاد سے قوم تو تقسیم در تقسیم ہوگئی اس کا ہر پھل متحدہ محاذ کے دامن میں ہی گرتا ہے۔ عوام کوتو نان کے ساتھ عزت و جان کے لالے بھی پڑگئے۔ ایک مسلسل فلیکچویشن کے ساتھ گزشتہ چھ ماہ سے ملک میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے یوں لگتا ہے میرے منہ میں خاک ملک مائل بہ خودکشی ہے لیکن نہیں بلکہ پاکستان کی اولین و آخری حقیقت یہی ہے کہ یہ ’’قدرت کے نظام‘‘ کے سائبان میں جی رہا اور جیتا رہے گا۔

خان کا جان سے کھیلنا اور اس کا بچنا اس طوفان سے بچنا نہیں جس میں منقسم قوم کی بربادی ہی بربادی ہوتی، ایسا ہرگز نہ ہوگا کہ ہر حالت میں قدرت کا نظام پاکستان سے جڑا ہے۔ یہ بڑا شکر اور کرم کیا کم ہے کہ معرکے میں فریقین ہم پلہ نہیں۔ ایک طرف خدائے خلق کی طاقت کا سرچشمہ اور دوسری جانب .....۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین