• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’پاکستان کا کیا ہوگا؟ پاکستان کہاں جارہا ہے؟‘‘ آج کل جب بھی پاکستانی ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو اس قسم کے سوالات کرتے ہی نظر آتے ہیں، اس وقت ہر پاکستانی چاہے اس کا کسی بھی صوبے سے تعلق ہو شدید پریشان نظر آتا ہے، ہر طرف بدنظمی نظر آرہی ہے، سیاسی قوتیں ایک دوسرے سے گتھم گتھا نظر آتی ہیں،حقیقی بدنظمی بہت دور تک نظر آرہی ہے، صوبے اور وفاق بھی ایک دوسرے سے گتھم گتھا نظر آتے ہیں مگر سب سے زیادہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس وقت ادارے بھی ایک دوسرے سے گتھم گتھا نظر آرہے ہیں، بات یہیں پر ختم ہوتی نظر نہیں آرہی بلکہ اب تو محسوس ہونے لگا ہے کہ کچھ ’’مقدس‘‘ اداروں کے اندر بھی کھینچا تانی جاری ہے، اس ساری صورتحال کی قیمت ملک کے عوام کو ادا کرنا پڑرہی ہے،مہنگائی کی شرح غیرمعمولی طور پربڑھ چکی ہے،غریب طبقے کے علاوہ مڈل کلاس کے لوگوں کے لئے بھی جینا مشکل ہوگیا ہے،خاص طور پر حالیہ خطرناک بارشوں کے نتیجے میں کم سے کم دو صوبوں سندھ اور بلوچستان کے حالات تو انتہائی خراب ہوئے ہیں۔ بلوچستان کا تقریباً نصف حصہ اب بھی پانی میں ڈوبا ہوا ہے جب کہ سندھ کا کم سے کم 60 فیصد حصہ پانی میں ڈوبا ہواہے یا سیلاب سے بدترین طور پر متاثر ہیں، ان علاقوں کے لوگ کھلے آسمان تلے خواتین اور بچوں کے ساتھ وقت گزار رہے ہیں، اب سردی آرہی ہے ایسی صورتحال میں انتخابات کی بات کرنا یا سیاسی مقاصد کے لئے ’’لانگ مارچ‘‘ کرنا ان لوگوں کو مزید بڑے عذاب سے دوچار کرناہے مگر لانگ مارچ کے دوران گزشتہ چند دنوں میں جو تشدد ہوا ہے اور گولیاں چلی ہیں جن میں کچھ لوگ بھی مارے گئے اور کچھ زخمی ہوئے، ملک انتہائی تشویشناک صورتحال کا شکار ہوگیا ہے، یہ سب نہیں ہونا چاہئے تھا پاکستان ایک پارلیمانی جمہوری ملک ہے اور ملک میں پارلیمنٹ بھی موجود ہے مگر اس وقت پارلیمنٹ کا کردار کیا ہے؟ ہمارے ملک میں ماشا اللہ عدلیہ بھی ہے مگر اس وقت عدلیہ کا کیا کردار ہے؟ اس سلسلے میں کچھ کہنا مناسب نہیں، شاید کبھی وہ وقت بھی آئے جب موجودہ صورتحال میں عدلیہ کے کردار پر بھی حقائق سامنے آجائیں جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کا تعلق ہے تو وہ بھی متنازعہ بنتی نظر آرہی ہے، ایک طرف یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف ملک کی معیشت کاتو ایسا ستیاناس ہوا ہے کہ ملک تو کیا دنیا کی تاریخ میں بھی اس کی مثال ملنا مشکل ہے اور معاشی ماہر یہ پیش گوئی کر رہے ہیں کہ پاکستان کسی وقت بھی دیوالیہ ہوسکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں ہمارے سیاستدانوں کا فرض ہے کہ ملک کے سارے سیاستدان، ساری سیاسی پارٹیاں اور ساری سیاسی قوتیں ایک جگہ جمع ہوکر بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے ان حالات کا حل تلاش کریں، پاکستان کا مفاد اسی میں ہے اور سیاسی کشیدگی پیدا کرنے سے گریز ہی کیا جائے بلکہ اگر کسی سیاسی قوت نے ایسے اقدامات کرنا شروع کئے بھی تو ملک کے مفاد کی خاطر پرامن راہ اختیار کی جائے، سب سے بہترطریقہ یہ ہے کہ یہ سارے سوال قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اٹھائے جائیں اس کے علاوہ مختلف سیاسی جماعتیں آپس میں مذاکرات کریں۔ میرے خیال میں موجودہ حکومت خاص طور پر وزیر اعظم پوری کوشش کریں کہ ان سارے ایشوز پر مذاکرات کئے جائیں اس کیلئے سب سے اچھا پلیٹ فارم پارلیمنٹ ہے، میرا خیال ہے کہ وزیر اعظم فوری طور پر پارلیمنٹ کامشترکہ اجلاس بلائیں اور پہلے دن وزیر اعظم خود پارلیمنٹ کے اجلاس سے خطاب کریں ساتھ ہی وزیر اعظم سے درخواست ہے کہ وہ ساری تنقید کو نظر انداز کرکے مخالف سیاسی رہنمائوں کو مذاکرات کی دعوت دیں، مخالف فریق اگر یہ دعوت قبول نہیں کرتا اور ملک میں انارکی پیدا کرنے پر بضد ہو تو پھر ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس سیاسی فریق پر مل کر دبائو ڈالیں کہ ملک کو پرامن رہنے دیا جائے اور مذاکرات کے ذریعے پارلیمنٹ کے اندر اپنا جمہوری کردار ادا کرکے صورتحال کو درست کیا جائے اور ملک کو درست سمت میں گامزن کیا جائے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین