• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہالی ووڈ فلم کی وجہ بننے والا ایرانی شہری ایئرپورٹ پر انتقال کرگیا

مہران کریمی ’دی ٹرمینل‘ کا پوسٹر دیکھ رہے ہیں۔
مہران کریمی ’دی ٹرمینل‘ کا پوسٹر دیکھ رہے ہیں۔

ایرانی شخص خوش قسمت تھا یا بدقسمت؟ ایک طرف اس پر ہالی ووڈ میں شہرہ آفاق فلم بنی اور دوسری طرف وہ دیار غیر کے ایک ایئرپورٹ پر تقریباً 20 سال گزارنے کے بعد چل بسا۔

سالہا سال تک مہران کریمی پیرس کے ایئرپورٹ کی پلاسٹک بینچ پر سوتا رہا، اس نے ایئرپورٹ ملازمین سے دوستی کرلی، وہ اپنی ڈائری لکھتا، میگزین پڑھتا اور نئے مسافروں سے میل جول کرتا۔

مہران کریمی 1988 سے 2006 تک پیرس ایئرپورٹ کے ٹرمینل 1 پر رہا کیونکہ اس کے پاس کوئی دستاویزات نہیں تھے۔

ایئرپورٹ اسٹاف نے اسے لارڈ ایلفرڈ کا نام دیا تھا، وہ مسافروں میں بہت مقبول ہوگیا تھا۔

سنہ 1999 میں مہران نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایک نا ایک دن مجھے ایئرپورٹ سے جانا ہوگا لیکن میں اب تک پاسپورٹ اور ویزے کا انتظار کر رہا ہوں۔

مہران سنہ 1974 میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلینڈ آیا تھا، اس نے بتایا کہ جب وہ واپس ایران گیا تو اسے شاہ ایران کے خلاف احتجاج کرنے پر قید کیا گیا اور بعد ازاں بغیر پاسپورٹ کے ملک بدر کر دیا گیا۔

اس نے کئی ممالک کو سیاسی پناہ کی درخواستیں بھیجیں، بیلجیئم میں واقع اقوام متحدہ کے انسانی حقوق دفتر نے مہران کو مہاجر کی حیثیت سے دستاویزات تیار کر کے دیں لیکن اس کا کہنا تھا کہ پیرس میں ٹرین اسٹیشن پر اس کا دستاویزات والا بیگ چوری ہوگیا۔

فرانس کی پولیس نے مہران کو گرفتار کیا لیکن وہ اسے ملک بدر نہیں کرسکتے تھے کیونکہ اس کے پاس کوئی دستاویزات نہیں تھے۔

اس طرح مہران سنہ 1988 میں پیرس کے چارلس ڈیگال ایئرپورٹ پر قیام کرنے لگا۔

سنہ 2006 میں اسے بلآخر فرانس کی حکومت نے پناہ گاہ میں بھیج دیا لیکن اپنی وفات سے قبل وہ ایئرپورٹ میں ہی رہنے لگا تھا اور یہیں اس کا انتقال ہوا۔

مہران کریمی نصیری کو ایئرپورٹ کے ٹرمینل پر دل کا دورہ پڑا اور وہ جانبر نہ ہوسکا۔

اسٹیون اسپیل برگ کی فلم ’دی ٹرمینل‘ کی کہانی ایرانی شہری کے ان ماہ و سال پر مبنی ہے جو اس نے ایئرپورٹ پر گزارے۔ 

انٹرٹینمنٹ سے مزید