برطانوی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بے روزگاری کی شرح تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق دفتر برائے قومی شماریات (او این ایس) کے جاری کردہ بیان کے مطابق گزشتہ تین ماہ کے دوران بے روزگاری کی شرح میں تقریباً 3.6 فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ حالیہ جاری ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق لگاتار پانچویں بار ملازمتوں کے مواقعوں میں کمی آئی ہے۔
بےروزگاری کی شرح میں اضافے کے باعث ملک میں غربت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے تاہم اس کے باوجود موجودہ تنخواہوں کی نمو مضبوط رہی، بنیادی تنخواہوں میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا ہےجس سے بینک آف انگلینڈ پر معاشی سست روی کے باوجود قرضوں کی مانگ میں اضافہ برقرار رہا۔
حال ہی میں جاری ہونے والی رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق عالمی وباء کورونا کے بعد بے روزگاری کی شرح گزشتہ 5 دہائی کی کم ترین سطح پر ہے۔
برطانوی چانسلر کواسی کوارٹینگ کے مطابق دنیا بھر کے مختلف ممالک کو درپیش چیلنجوں کے باوجود برطانوی معیشت مستحکم ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس حوالے سے لیبر اینڈ اکنامک کے ڈائریکٹر ڈیرن مورگن نے کہا ہے کہ اگست اور ستمبر میں ہڑتالوں کی وجہ سے ہونے والا نقصان گزشتہ دس سال کے عرصے میں سب سے زیادہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہڑتال کرنے والوں میں بیشتر کا تعلق ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے شعبوں سے تھا۔
انہوں نے بتایا کہ برطانیہ میں بےروزگاری نہیں بلکہ لیبر کی کمی ہے، کیوں کے بیشتر افراد ملازمتوں کی متلاشی نہیں ہے۔
تاہم، کساد بازاری کے باوجود روزگار کے مواقوں کی سطح تاریخی معیارات کے لحاظ سے اب بھی بلند ہے، جو ملازمتیں فراہم کرنے والوں کو درپیش مسائل کی نشاندہی کرتی ہے۔
واضح رہے کہ برطانیہ کی حالیہ سالانہ افراط زر 10 فیصد سے زائد ہے جو چار دہائیوں کی بلند ترین سطح پر ہے اس کے علاوہ بجلی کے بلوں اور خوراک کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ بے روزگاری مزید بڑھنے کی پیش گوئی بھی کی گئی ہے۔
مذکورہ سرکاری اعداد و شمار پر برطانوی وزیر خزانہ جیریمی ہنٹ نے کہا ہے کہ مہنگائی اور لیبر کی کمی سے نمٹنا میری اولین ترجیح ہے، ٹیکس کی وصولی اور اخراجات سے متعلق مشکل فیصلے ہم بہت جلد کریں گے۔