گزشتہ سال اپنے والدِ محترم کی برسی پر مَیں نے ایک قومی کانفرنس کا انعقاد اس لئے کیا تھا کہ ہمارے ملک میں جو مکالمے کی روایت ختم ہو رہی ہے اس کا احیاء کیا جائے۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ جو بات مَیں نے گزشتہ سال سوچی اس کی تکمیل پورا سال کرتا رہا۔ مَیں ہر اس پلیٹ فارم پر گیا جہاں جا کر جمہوریت کو مضبوط کرنے کی بات کی جاتی تھی۔ یہ ساری تربیت میرے والدِ محترم سیّد علمدار حسین گیلانی کی ہے جنہوں نے زندگی گزارنے کے لئے مجھے یہ سکھایا تھا کہ مشکل سے مشکل وقت میں بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے جس کی ایک واضح مثال میرے پیارے بیٹے علی حیدر گیلانی کے اغوا کے بعد کی صورتحال تھی۔ علی حیدر گیلانی تین سال تک اغوا کاروں کے پاس رہا۔ اس دوران صرف ایک مرتبہ میرا اُس سے ٹیلیفون پر رابطہ ہوا۔ میری اہلیہ نے اپنے بیٹے کے نام ایک خط بھی اغوا کرنے والوں کو بھجوایا لیکن وہ خط بھی علی حیدر کو نہ مل سکا۔ گزشتہ تین سالوں میں علی حیدر گیلانی کے اغوا کے پس منظر میں میرے ساتھ جو کہانیاں جوڑی گئیں وہ بھی قوم کے سامنے ہیں۔ الحمدﷲ! میرا بیٹا بخیر و عافیت گھر واپس آ چکا ہے۔ میرے گھر کی رونق بحال ہو چکی ہے۔ اہلِ خانہ خالقِ کائنات کا شکر ادا کرنے کے لئے حجازِ مقدس جا چکے ہیں اور خود میری اپنی یہ حالت ہے کہ ہر سانس کے ساتھ ساتھ مَیں اپنے اﷲ تعالیٰ اور اس کے حبیبؐ کا شکر ادا کرتا ہوں جن کی بے پناہ رحمتوں کے باعث میرا بیٹا بخیریت گھر واپس آ گیا۔
ان حالات میں جب مَیں اپنے والدِ محترم سیّد علمدار حسین گیلانی کی زندگی پر جب قلم اٹھاتا ہوں تو ذہن میں طرح طرح کے خیالات آتے ہیں کہ میرے والد مرحوم نے کتنے ناساز حالات میں پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لئےکام کئے۔ ان کی یادوں کا سلسلہ میرے نگارخانے میں یوں سجا ہوا ہے جیسے کسی بچے کے کمرے میں رنگ برنگے کھلونے سجے ہوتے ہیں۔ کبھی مَیں تصورات میں خود کو ان کی گود میں پاتا ہوں تو کبھی یوں لگتا ہے جیسے مَیں ان کی انگلی تھام کے عید کی نماز پڑھنے جا رہا ہوں۔ میرے والد 12؍دسمبر 1919ء بمطابق آٹھ محرم الحرام اپنے آبائی گھر واقع پاک دروازہ ملتان میں پیدا ہوئے۔ پیدائش کے وقت اُن کا نام سیّد ابوالحسن شاہ رکھا گیا۔ لیکن آٹھ محرم الحرام کی نسبت سے بعد میں علمدار حسین رکھ دیا گیا اور یہی نام معروف ہوا۔ والد نے ابتدائی تعلیم ملتان اور مظفرگڑھ میں حاصل کی کیونکہ دادا اُن دنوں سَب ڈویژنل مجسٹریٹ علی پور، مظفرگڑھ تعینات تھے۔ نوابزادہ نصراﷲ خان والد کے کلاس فیلو تھے۔ والد نے 1941ء میں ایمرسن کالج ملتان سے بی۔اے کا امتحان پاس کیا۔ وہ خاندان کے دوسرے فرد تھے جنہوں نے بی۔اے تک تعلیم حاصل کی۔
والد نے اپنے زمانۂ طالب علمی ہی سے سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا اور مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ ایک مرتبہ پردادا پیر صدرالدین شاہ گیلانی 1946ء میں چچا سیّد رحمت حسین کی منگنی کے سلسلے میں مخدوم الملک سیّد غلام میراں شاہ گیلانی کے ہاں جمال الدین والی، ضلع رحیم یار خان گئے۔ جب وہ وہاں پہنچے تو مخدوم الملک نے خواہش ظاہر کی کہ ان کی والدہ اور دو بیٹیوں سے بیعت لیں۔ اس طرح یہ خواتین پردادا کے ہاتھ پر بیعت ہوئیں اور بعد میں اُن کی بیٹیوں میں سے ایک کی شادی 1948ء میں میرے والد اور دوسری کی شادی اُسی روز چچا رحمت حسین سے ہوئی، یوں اُن کی یہ دونوں بیٹیاں میری والدہ اور خالہ بنیں۔ اُن کی تیسری بیٹی اُس وقت نو عمر تھیں۔ بعد میں اُن کی شادی پیر صاحب پگاڑو سے ہوئی۔ والدہ کو شادی کے بعد آبائی گھر واقع پاک دروازہ میں لایا گیا۔ بڑی پھوپھی (جو بڑی بی بی کے نام سے موسوم تھیں، زُہد و تقویٰ اور پرہیزگاری میں اتنی مشہور تھیں کہ ملتان میں شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جس نے ان سے فیض نہ پایا ہو، ساتھ ہی وہ صاحبِ ثروت بھی تھیں) نے والد اور چچا رحمت حسین کو قائل کیا کہ آپ دونوں کی دُلہنیں بڑے گھرانوں سے ہیں اور انہوں نے محلات میں پرورش پائی ہے لہٰذا انہیں الجیلان روڈ پر واسع گھر ’الجیلان‘ لے جائیں اور وہیں رہائش پذیر ہوں۔ سو، والد اور چچا رحمت حسین اس گھر میں منتقل ہو گئے۔ تایا ولایت حسین پہلے ہی اُس گھر کے قریب رہائش پذیر تھے۔
1951ء کے عام انتخابات میں والد کے نامزد اُمیدواروں کو مسلم لیگ کے ٹکٹ دیئے گئے۔ ان انتخابات کے سلسلے میں مسلم لیگ کا کنونشن ہمارے گھر ’الجیلان‘ ملتان میں ہوا جس کی صدار وزیر اعظم پاکستان اور صدر مسلم لیگ نوابزادہ لیاقت علی خان نے کی۔ جلسے کے دوران وزیراعظم نے والد، تایا ولایت حسین اور چچا رحمت حسین کے ہاتھ تھام کر کہا:
"They ar the backbone of the Muslim League"
ترجمہ: یہ مسلم لیگ کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔
والد نے 1953ء میں فیروز خان نون کی کابینہ میں بطور وزیر صحت و بلدیات حلف اٹھایا۔ وزارتِ بلدیات عوام کے ساتھ رابطے اور مقامی سطح کے کام کروانے کے نکتۂ نظر سے اہم ہے۔ والد نے وزیر صحت کی حیثیت سے گرانقدر خدمات انجام دیں۔ انہوں نے کئی اضلاع میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال (ڈی ایچ کیو) بنوائے جن میں ملتان، میانوالی، مظفرگڑھ اور ڈیرہ غازی خان کے اسپتال قابلِ ذکر ہیں۔ اس دور میں ڈاکٹروں کی بے حد کمی تھی اور دیہی علاقوں میں طبی سہولتیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ والد کو اس حیثیت سے بھی یاد رکھا جاتا ہے کہ صوبائی وزیر صحت و بلدیات بننے پر 1954ء میں انہوں نے قیامِ پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کروائے۔ انہوں نے کوشش کی کہ ہر ضلع میں ایک لائبریری ہو تاکہ عوام کی کتابوں تک رسائی ممکن بنائی جا سکے۔والد کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ 1956ء کا آئین بنانے والوں میں شامل تھے۔ آئین کی اہمیت اور تقدس کو اُن سے بہتر کون جان سکتا ہے آئین پاس ہونے پر انہوں نے تمام اراکین کے ساتھ بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے ننگے پاؤں اُن کے مزار پر حاضری دی۔مَیں نے ہمیشہ والد کو اپنے بھائیوں کے ہمراہ عیدمیلاد النبیؐ کے مرکزی جلوس، دس محرم الحرم اور ہر جمعرات کو دربار حضرت پیر پیراں موسیٰ پاک شہیدؒ پر حاضری دیتے دیکھا۔ والد کو لاہور بہت پسند تھا۔ وہ جب بھی لاہور جاتے تو داتا دربار حاضری ضرور دیتے تھے۔ کبھی کبھار دربار میاں میرؒ پر بھی حاضری کے لئے جاتے تھے۔ کئی مرتبہ مَیں بھی ان کے ہمراہ گیا۔ وہاں پر میری ممانی رضیہ حسن محمود کا مزار بھی ہے۔ مجھے زمانۂ طالب علمی ہی سے والد لاہور کے اپنے چیدہ احباب سے روشناس کرواتے رہے،والد ہمیشہ تین رمضان المبارک کو اپنے ہاتھ سے کھانا تیار کرتے اور کہتے کہ یہ بی بی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی ولادت کا دن ہے۔ اُس دن اپنے دوستوں کو مدعو کرتے اور اُن کی خوب تواضع کرتے تھے۔ زندگی بھر انہوں نے اس روایت کو نہایت محبت و شوق سے نبھایا۔ اتفاق ہے کہ وہ اسی دن یعنی تین رمضان المبارک مورخہ 9؍ اگست 1978ء کو نشتر اسپتال، ملتان میں انتقال کر گئے۔ اِنّا لِلّٰہِ و اِنّا اِلَیْہِ رَاجِعُون۔
والد باقاعدگی سے ڈائری لکھا کرتے تھے۔ اپنی وفات سے ایک روز قبل انہوں نے ڈائری میں یہ شعر لکھا:
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہلِ وطن
یہ الگ بات ہے دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
آج ان کو ہم سے بچھڑے چار عشروں سے زیادہ ہو گئے لیکن مجھے یوں لگتا ہے جیسے اُن کی دُعاؤں کا حصار میرے اردگرد آج بھی ہے۔ جب سے میرے والدِ محترم کا انتقال ہوا ہے تب سے لے کر اب تک مَیں کبھی جیل میں رہا یا وزیرِ اعظم ہاؤس میں۔ مَیں اپنے غریب خانے پر ان کی یوم وفات 3 رمضان المبارک کو برسی کرتا آیا ہوں۔ دُعا کریں اﷲ تعالیٰ میرے والدین کے درجات بلند کرے اور مجھے اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین!